• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوازشریف کی نااہلی کے بعد خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب ستمبر کے تیسرے ہفتے میں ہونے جارہا ہے۔لاہور کا حلقہ این اے 120مسلم لیگ ن کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔نوازشریف کا اس حلقے سے پرانا تعلق ہے۔حتی کہ شریف خاندان کا پرانا گھر اور کارخانے بھی اسی حلقہ میں ہیں۔2013کے عام انتخابات میں نوازشریف کو اس حلقے سے90ہزار سے زائد ووٹ پڑے تھے۔تحریک انصاف کی امیدوار سے 40ہزار کے بڑے مارجن سے کامیابی کے باوجودنوازشریف نے اطمینان کا اظہار نہیں کیا تھا۔بلکہ انہوںنے پارٹی رہنماؤں سے کہا تھا کہ معاملے کی تحقیقات کریں کہ میرے خلاف اس حلقے میں 50ہزار ووٹ کیسے پڑ گئے؟اس وقت نوازشریف کا کہنا تھاکہ میں اس حلقے کی ہر گلی سے واقف ہوں،شاید ہی ایسا کوئی خاندان ہوجس کو میں نے نوکری اور فنڈ نہ دیا ہو۔ان لوگوں سے میرا 35سالہ پرانا تعلق ہے ۔این اے 120کی کوئی ایک بھی بڑی برادری ایسی نہیں ہے جس کو میں ذاتی طور پر نہ جانتا ہوں،پھر یہ کیا ماجرا ہے؟ 2013کے عام انتخابات کے بعد پارٹی رہنماؤں نے حلقے کا تفصیلی جائزہ لیا تو سامنے آیا ہے کہ آپس کے اختلافات کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے ایک ممبر صوبائی اسمبلی کا دھڑا پی ٹی آئی کی امیدوار کو سپورٹ کررہا تھا۔جبکہ ایک عزیز جو اس حلقے سے 2008میں ممبر قومی اسمبلی رہے ہیں ،نوازشریف کے آنے کے بعد انہیںاین اے120کی نشست خالی کرنا پڑی اور اپنے نیچے والے ایم پی اے کو ہٹا کر اس کی جگہ ممبر صوبائی اسمبلی کے امیدوار بن گئے۔جس پر اس حلقے سے مسلم لیگ ن کے ایم پی اے کے امیدوارناراض ہوگئے تھے۔اس لئے پی ٹی آئی 50ہزار سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ یعنی کے آپس کے اختلافات اور نااتفاقی نے پی ٹی آئی کے امیدوار کی نوازشریف کے مقابلے میں 50ہزار ووٹ حاصل کرنے کی راہ ہموار کی تھی۔حالانکہ اس میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ نوازشریف کا اس حلقے میں بہت مضبوط حلقہ احباب ہے۔بدترین حالات میں بھی نوازشریف کے لئے اس حلقے سے سیٹ نکالنا عام سی بات ہے۔اگر کہا جائے کہ یہ حلقہ مسلم لیگ ن کا لاڑکانہ ہے تو غلط نہیں ہوگا۔مگر پانامہ کے فیصلے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے تحریک انصاف بھی بھرپور انتخابی مہم چلارہی ہے۔
آج کے حالات و واقعات کا جائزہ لیا جائے تو این اے 120کا ضمنی انتخاب نوازشریف کی بیٹی مریم نوازکاپہلا ضمنی انتخاب ہے۔اس سے پہلے 19ضمنی انتخابات ہوئے ہیں۔جن کی براہ راست نگرانی وزیراعلیٰ پنجاب کے بیٹے حمزہ شہباز شریف کرتے رہے ہیں۔میری اطلاعات کے مطابق کچھ خاندانی مصروفیات کے باعث ان دنوں وہ لندن میں ہیں۔مریم نواز این اے 120کی انتخابی مہم کی براہ راست نگرانی کررہی ہیں۔مگر موجودہ حالات میں کسی ایک شخص کے لئے انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں ہے۔این اے 120کا ضمنی الیکشن مسلم لیگ ن کے لئے فائنل کا درجہ رکھتا ہے۔ماضی میں ایک ضمنی انتخاب کے علاوہ سارے انتخابات میں کامیابی حاصل کرچکی ہے۔مگر این اے 120کے نتائج 2018کے انتخابات کا فیصلہ کریں گے۔مسلم لیگ ن کے لئے اس حلقے سے جیتنا ٹارگٹ نہیں ہونا چاہئے،بلکہ بڑے مارجن سے جیتنا اصل فتح ہوگی۔اگر مسلم لیگ ن نے 10سے15ہزار کے مارجن سے کامیابی حاصل کی تو یہ نوازشریف کے لئے بہت اچھی خبر نہیں ہوگی۔کم از کم2013کی برتری برقرار رکھنا لازم ہے۔آج مریم نواز دن رات حلقے میں انتخابی مہم چلارہی ہیں۔مگر حلقے کی سیاست کے کچھ رموز و اوقاف کافی پیچیدہ ہوتے ہیں۔جن کی سمجھ بوجھ کئی انتخابات بعد آتی ہے۔ووٹر لسٹوں کی ترتیب،انتخابات کے روز اپنے ووٹرز کو باہر نکالنا،دوسرے شہروں میں مقیم اپنے ووٹرز کو بلانا،انتخابی نتائج اکٹھے کرنا سمیت بہت سے معاملات کو دیکھنا ہوتا ہے۔نوازشریف کی لندن روانگی کے بعد مسلم لیگ ن کے صف اول کے رہنما بھی انتخابی مہم چلاتے نظر نہیں آرہے۔بہت سے رہنماؤں کا موقف ہے کہ ہمیں کہا نہیں گیا ۔اتنی عقل تو خود ہونی چاہئے کہ یہ انتخاب ایک حلقے کا نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔اس میں تو ہر کسی کو اپنی مدد آپ کے تحت مہم چلانی چاہئے۔اگر کسی سطح پر کوئی اختلاف ہے بھی تو اسے پس پشت ڈال کر بہترین نتائج کی طرف توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔حمزہ شہباز کی ٹیم کو ضمنی انتخابات لڑنے کا اچھا تجربہ ہے۔ان سب کو مل کر جیت نہیں بلکہ بڑے مارجن سے جیت کو ٹارگٹ بنانا چاہئے۔شاید مسلم لیگ ن کے نادان دوست یہ بھول بیٹھے ہیں کہ بہت سے فیصلوں کا دارومدار این اے 120کے نتائج سے جڑا ہوا ہے۔تمام ادارے ان نتائج کا انتظار کررہے ہیں۔نوازشریف صاحب کو بھی معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے آئندہ ایک ہفتے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر احکامات صادر کرنے چاہئیں۔آج پوری تحریک انصاف متحد ہوکر ایک حلقے پر فوکس کئے ہوئے ہے۔لاہور سمیت پورے ملک کی قیادت نے این اے120میں ڈیرے لگائے ہوئے ہیں۔تحریک انصاف کا ٹارگٹ مسلم لیگ ن کو ہرانا نہیں ہے بلکہ ان کا ٹارگٹ مسلم لیگ ن سے کم مارجن سے ہارنا ہے۔اگر ایسا ہوا تو اس کے دو رس نتائج بہت خوفناک ہونگے۔باقی رہی لیڈر شپ کی بات تو مسلم لیگ ن میں کسی کو بھی اس معاملے پر تنقید نہیں کرنی چاہئے۔ووٹ بنک نوازشریف کا ہے اور مسلم لیگ کے لئے لیڈر بھی نوازشریف ہی ہیں۔جب تک وہ موجود ہیں کسی کو یہ کہنا زیب ہی نہیں دیتا کہ میں فلاں کو لیڈر مانتا ہوں اور فلاں کو لیڈر نہیں مانتا۔اگر لیڈر شپ منتقل بھی ہوئی تو وہ نوازشریف اور شہباز شریف کی اولاد ہی ہوگی۔ چوہدری نثار ایک زیرک سیاستدان ہیں۔ راولپنڈی کے بہت قریب ہیں ۔لیکن اگر اعجاز الحق اور گوہر ایوب کی سیاست ایک نشست سے زیادہ نہیں ہے تو پھر کوئی بھی ناگزیر نہیں ہے۔ دنیا بھر میں ہمیشہ ماں باپ کے بعد ان کی اولادیں ہی وارث ہوتی ہیں اور وہی لیڈکرتی ہیں۔ چاہے سینئر بش کے بعد جونیئر بش کو دیکھ لیں،یا پھر نہرو کے بعد ان کی بیٹی اندرا گاندھی کو دیکھ لیں،سونیا کے بعد راہول کو دیکھ لیں یا پھر بھٹو کے بعد ان کی اولاد کو دیکھ لیں۔باقی یہ نوازشریف کی پارٹی ہے اور آپ سب کی سیاست اسی کے نام سے جڑی ہوئی ہے۔اس لئے بہتر ہے کہ باہمی اتفاق اور متحد ہوکر آزمائشوں کو مقابلہ کریں اور این اے 120کے نتائج کو عوامی فیصلہ بنادیں۔

تازہ ترین