• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے کہا تھا کہ
Domestic policy can only defeat us, Foreign policy can kill us.
پاکستان کو اپنے وجود کے پہلے دن سے کرائسسز کا سامنا رہا ہے جس کی ایک اہم وجہ آزاد خارجہ پالیسی بنانے کی بجائے دنیا میں موجود کیمونسٹ یا کیپٹلسٹ بلاک میں سے کسی ایک کو جوائن کرنے کا سخت دبائو تھا، پھر مخدوش معاشی، سماجی اور خارجی حالات کے باعث امریکی سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر ہونے پر مجبور ہوئے لیکن اس نظام کے ساتھ چلنے کی استعداد اور تقاضوں پر پورے نہ اترنے کے سبب آج تک کرائسسز کا شکار ہیں! وطن عزیز ایک مرتبہ پھر آج دوراہے پر کھڑا ہے، اندرونی و بیرونی چیلنجز، سخت اور نامساعد حالات کے باوجود قائم اور مضبوط تو ہے لیکن عالمی تناظر میں عہد، تقاضے اور وقت سمیت سب کچھ تبدیل ہو چکا ہے اور آئندہ کی کامیاب حکمت عملی کا دارمدار مشکل فیصلوں میں ہے، حالیہ ادوار میں پہلی مرتبہ سیاسی وعسکری قیادت نے یک زبان ہو کر امریکہ سمیت اقوام عالم کو واضح پیغام دیا ہے کہ پاکستان نے محدود وسائل کے ساتھ بہت کچھ کیا ہے، اپنے گھر کو اپنےچراغ سے روشن کرنے کی بجائے آگ لگائی ہے، اس کو دنیا بھر کی لڑائی کے لئے اکھاڑا اور تجربہ گاہ بنایا ہے، پاکستان تو اپنا سب کچھ قربان کر بیٹھا ہے اب دنیا کو ’’ڈومور‘‘ کرنا ہوگا،6 ستمبر کے تاریخ ساز دن کی پروقار تقریب میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے اسٹیبلشمنٹ کی نئی داخلی ’’حکمت عملی‘‘ سے پردہ اٹھاتے ہوئے کہا ’’بھٹکے ہوئے لوگ جوکچھ کر رہے ہیں وہ جہاد نہیں فساد ہے، جہاد صرف ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس کو ریاست کے پاس ہی رہنا چاہئے‘‘۔ وزیرخارجہ خواجہ آصف خطے میں بدلتے حالات پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ’’درست‘‘ سمت کا تعین کرنے کی بات کر رہے ہیں، کہتے ہیں ’’اب دنیا کو ثابت کرنے کے لئے ہمیں پہلے اپنا گھر بھی ٹھیک کرنا ہوگا۔‘‘ ریاستی اداروں کے اس نئے عزم پر تو کوئی شک نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بطور قوم ہم نے واقعی خود کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے؟ کیا یہ طے کر لیا ہے کہ ’’جہاد‘‘ محض ریاست کی ذمہ داری تو ہے لیکن اس کے استعمال کے کیا ’’پیرامیٹرز‘‘ ہوں گے؟ کیا صدر ریگن کی تحفتاً دی گئی فورس تیار کرنے کی پالیسی حتمی طور پر ختم کرنے کا عزم کر لیا گیا ہے، کیا ’’بھٹکے عناصر‘‘ کو معمول کی زندگی گزارنے پر قائل کرنے کا سامان کر لیا گیا ہے؟
کیا یہ بھی طے ہوگیا ہے کہ آئین کے تحت ’’طاقت‘‘ کا استعمال صرف ریاست کی ذمہ داری ہوگی؟ کیا محض کالعدم قرار دینے کی بجائے اپنی ’’غلطیوں‘‘ کو ٹھیک کرنے اور ان کے’’اثرات بد‘‘ سے بچائو کے انتظامات کر لئے گئے ہیں؟ کیا قومی سلامتی ہتھیاروں کی بجائے رویوں میں تبدیلی سے ممکن بنانے کا تہیہ کر لیا گیا ہے؟ کیا قومی معیشت کا انحصار قرضوں کی بجائے ملکی معاشی، تجارتی اور اقتصادی ترقی سے منسلک کرنے کا انتظام کر لیا گیا ہے؟ کیا چھپے غیر ملکی ’’ناپسندیدہ عناصر‘‘ کو نکال باہر کرنے کی حکمت عملی بنالی گئی ہے اور کیا سرکاری عہدوں اور فائلوں میں کہیں کھو جانے والا متفقہ ’’نیشنل ایکشن پلان‘‘ مل گیا ہے اور نئے سرے سے اس پر عمل کرنے کا ہمت وحوصلہ پیدا کر لیا گیا؟ اگرایسا ہی ہے کہ تو پھر اہم سوال یہ بھی ہے کہ کیا خارجہ پالیسی کو آزادانہ بنانے اور اس کی نئی سمت کا تعین بھی کر لیا گیا ہے؟ کہیں ’’آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا‘‘ کے مصداق، سرمایہ دارانہ نظام کے بلاک سے نکل کر اشتراکیت (کمیونسٹ) کے بلاک میں پھنسنے تو نہیں جارہے ہیں، کیونکہ روس کے بعد چین بھی ایک کمیونسٹ ملک ہے۔ اس سارے منظر نامے میں ایک بات یہ بھی اہم ہے کہ چین کبھی پہلے کسی دہشت گرد یا انتہا پسند گروپ بنانے یا سرپرستی میں ملوث رہا، نہ ہے نہ ہی اب برداشت کرے گا کیونکہ وہ اس کو اپنی اور دوسروں کی تجارتی بقا کے لئے خطرہ سمجھتا ہے، اچھا شگون یہ بھی ہے کہ ’’اچھا دوست‘‘ اور اس کا مضبوط سہارا ملنے کی آس میں پاکستان بھی ڈٹ جانے کی پوزیشن میں آرہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ پر ماضی کے حوالے سے جو بھی اعتراضات ہوں، انہوں نے بھی قول فعل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اب کوئی گنجائش نہیں۔ تمام گروپس کے خلاف ملکی سرحدی و اندرونی حصوں میں بلاامتیاز جاری کارروائیاں اس کا بعین ثبوت ہیں۔ یہ بھی قابل قدر ہے کہ سیاسی و عسکری قیادت نے مل کر سعودی یمن، سعودی ایران اور سعودی قطر تنازعوں میں غیرجانبدارانہ اور مصلحتانہ کردار ادا کیا، جو نہ صرف بہت بڑی تبدیلی کا عندیہ ہے بلکہ پاکستان اور خطے کے اندر مذہب اور فرقہ وارانہ تقسیم کی سازشوں پر کاری ضرب بھی ہے، ٹرمپ پالیسی اور برکس کانفرنس کا اعلامیہ پاکستان کو خبردار کرنے کی گھنٹی ثابت ہوا ہے جس میں تجارتی دوست چین نے بھی پاکستان کو اپنا گھر صاف کرنے کی تلقین چھپ کر نہیں سامنے آکر کردی ہے، یہی وجہ ہے کہ سیاسی وعسکری قیادت کو یہ فیصلہ کرنے کا حوصلہ اور موقع ملا ہے کہ پاکستان کسی جہادی یا دہشت گرد گروپ کی حمایت کرتا ہے نہ سرپرستی، بلکہ پاکستان بلاتفریق ملکی و عالمی امن کو خطرے کے باعث عناصر سے پاک کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس حوالے سے ہتھیار چھوڑنے والوں کو سیاسی و فلاحی دھارے میں لانے کی حالیہ ’’متفقہ‘‘ حکمت عملی بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے تاہم اس پر پوری قوم کو مکمل اعتماد میں لینے کی بھی ضرورت ہے۔ بلاشہ پاکستان یکسو، یگانگت اور ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ سرخرو ہونے کے لئے پرعزم ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان سنگین معاملات کو اکیلا پاکستان ٹھیک نہیں کرسکتا اور نہ یہ اس کے لئے ممکن ہے، ان مسائل سے کلی طور پر نمٹنے کے اقدامات اور خطے سے دہشت گردی و انتہا پسندی کا مستقل خاتمہ بھارت، افغانستان اور دیگر طاقتور ملکوں کی بھی برابر کی ذمہ داری ہے، وقت آگیا ہے بھارت کی جانب سے افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال سے روکنے کے لئے امریکہ اور خود افغانستان عملی اقدام اٹھائے۔ پاکستان کی افغان امن کے حوالے سے جامع وسیع البنیاد مذاکراتی حکمت عملی کی تجویز پر فوری عمل کیا جائے، اقوام متحدہ، امریکہ اور مغربی ممالک اس بات کو سمجھیں کہ مسئلہ کشمیر امن کے لئے سنگین خطرہ ہے، اس کے حل کے لئے پاک بھارت مذاکرات شروع کرانے سمیت بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں مظالم کا سلسلہ فوری رکوانے کی اشد ضرورت ہے اسی سے عدم تحفظ کا احساس اور جوابی کارروائی کا غصہ کم کیا جاسکتا ہے، جبکہ بھارت کو پاکستان مخالف کینہ پرور پالیسیوں سے باز رکھے بغیر پاک بھارت اور خطےامن کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اس سوال کا جواب ملنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان ماضی کا بوجھ اتار بھی پھینکے تو کیا اس کام پر مجبور کرنے والے بھی اپنے حصے کا کام مکمل کرنے کی ذمہ داری پوری کریں گے۔
"History is a relentless master,it has no present ,only the past rushing into the future.To try to hold fast is to be swept aside."

تازہ ترین