جیسا کہ مریم نواز شریف نے اپنے ایک ٹی وی انٹرویو میں پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی کہ اُنکے والد، نواز شریف صاحب پاکستان واپس آئیں گے اور احتساب عدالت کا سامنا کرینگے ۔ نواز شریف کا کہنا ہے کہ اُنہیں عدالت سے انصاف ملنے کی توقع نہیں کیونکہ اقامہ کیس کو مخصوص نہج پر ڈھالنے کے بعد سپریم کورٹ نے نیب عدالت کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے ۔
مسٹر شریف پہلے بھی کئی مرتبہ یہ الزام لگاچکے ہیں، لیکن اس وقت اس کا اعادہ کرتے ہوئے اُنھوںنے اس عزم کا اظہار کردیا ہے کہ اُن کے کچھ فیملی ممبران ، پارٹی کے وفاداراور دوست قدم آگے بڑھا کر مزاحمت کرتے ہوئے پارٹی کو بچائیں گے ۔ درحقیقت چوہدری نثار، جو بظاہر پارٹی سے منحرف ہوتے دکھائی دے رہے تھے، کی پریس کانفرنس میں موجودگی نے یہ بات طے کردی ہے کہ پی ایم ایل (ن) کی صفوں میں مکمل اتحاد پایا جاتا ہے ، اور تمام پارٹی نواز شریف کے ساتھ کھڑی ہے ۔
درحقیقت چند روز قبل ، جب پی پی پی اور پی ٹی آئی کے اکثر ممبران غیر حاضر تھے، پی ایم ایل (ن) نے سینیٹ میں چپکے سے بل منظور کرالیاجس کے تحت کوئی نااہل رکن اسمبلی بھی کسی پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے ، یا موجودرہ سکتا ہے (یہ قانون دراصل جنرل مشرف نے بنایا تھا جس کا مقصد نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کو سیاست سے دور رکھنا تھا)۔ اس بل کی منظوری سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف پوری سنجیدگی کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ جلد ہی یہ بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوجائے گا۔ نیز مارچ میں سینیٹ کے انتخابات کے بعد ،جب پی ایم ایل (ن) کو وہاں بھی اکثریت مل جائے گی تو توقع کے مطابق تاحیات نااہلی کے قانون میں بھی ترمیم کردی جائے گی ۔
یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ مسٹر شریف نے بہت کھلے الفاظ میں پی ایم ایل (ن) کے کارکنوں کو غائب کرنے کا الزام اسٹیبلشمنٹ پر لگایا ہے ۔ رانا ثنا اﷲ، احسن اقبال اور خواجہ آصف نے تو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے الزام لگایا کہ پی ایم ایل (ن) کی فتح کے کم مارجن میں ’’نادیدہ ہاتھ ‘‘ کی کارفرمائی ہے ۔ یہ بات بھی نوٹ کی جانی چاہئے کہ مسٹر شریف نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران عدلیہ پر تنقید کی لیکن اس پیرائے میں اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں بات کرنے سے گریز کیا ۔ چوہدری نثا ر کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید اُنہیں اپنی حکمت ِعملی تبدیل کرنی پڑی ہے ۔ گویا اب وہ عدلیہ کے کردار پر تو بات کریں گے لیکن اسٹیبلشمنٹ سے تصادم سے گریز کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی۔ اس نے نہایت سرعت سے نظر ِ ثانی کی درخواستوں کو مسترد کردیا ۔ اس نے یہ درخواست بھی مسترد کردی جس میں کہا گیا تھا کہ وہ نیب کی نگرانی کرنے کا عمل موقوف کردے ۔ اب سپریم کورٹ نواز شریف کی نااہلی کو مزید ’’پکا ‘‘ کرنے جارہی ہے ۔ اس کے لئے نیب عدالت کے ذریعے آئین کے آرٹیکلز 62اور 63 کو عوامی نمائندگی کے ایکٹ 1976 کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے گا ۔اس کے نتیجے میں نواز شریف انتخابات لڑنے کے حق سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوجائیں گے ۔ اس کے بعد نااہلی کو ختم کرنے کا عمل انتہائی مشکل ہوجائے گا، چاہے نوازشریف کو دونوں ایوانوں میں اکثریت کیوںنہ حاصل ہوجائے ۔
اس دوران اسٹیبلشمنٹ بھی موجودہ صورت ِحال سے مطمئن ہے ۔ اس نے اس بات کو یقینی بنالیا ہے کہ اگلے سال ہونے والے عام انتخابات میں نواز شریف فتح حاصل نہ کرسکیں کیونکہ دائیں بازو کی جماعتوں کو جوق درجوق انتخابی اکھاڑے میں اتار کر ووٹ تقسیم کردیا جائے گا۔ این اے 120میں دو مذہبی جماعتوں کے امیدواران 13,000 ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔ اس طرح اگلے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی جیت کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ نے ضرورت محسوس کی کہ ملی مسلم لیگ ( جو سابق جہادیوں پر مشتمل ہے ) کو انتخابی میدان میں اتار کر نواز شریف کی بھارت کے ساتھ قیام امن کی خواہش کی کمزوری کا فائدہ اٹھایا جائے ۔ اسی طرح بریلوی مسلک بھی ممتاز قادری کی پھانسی پر نواز شریف حکومت سے ناراض ہے ۔ ان دونوں کو سیاسی اکھاڑے میں داخل کرنے کی دووجوہ دکھائی دیتی ہیں: عالمی سطح ُپر کالعدم قرار دی جانے والی جہادی تنظیموں اور اُن کی قیادت کو قانونی جواز فراہم کرنا تاکہ اسٹیبلشمنٹ کی بھارت مخالف تزویراتی پالیسیوں کا دم خم قائم رہے ، دوسرا ، ’’اصلاح شدہ نوازشر یف ‘‘ کی قیادت میں پی ایم ایل (ن) کو متعدل مزاج لبرل جماعت کے طور پر ابھرنے سے روکنا، کیونکہ اس صورت میں پی پی پی کے لبرل عناصر اپنی جماعت کی کارکردگی سے مایوس ہوکر اس طرف آسکتے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے راہ میں کچھ مشکلات ضرور ہیں۔ ان کا تعلق الیکشن کمیشن کے ہاتھوں ہونے والے عمران خان کی قسمت کے فیصلے سے ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے کہ عمران خان پوری توانائی کے ساتھ نواز شریف کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کا ووٹ بنک توڑ لیں تاکہ پی یم ایل (ن) پنجاب اور مرکز میں اقتدار میں نہ آسکے ۔
یہاں سپریم کورٹ کے سامنے بھی ایک مشکل ہے کہ عمران خان کے خلاف پیش کردہ ثبوت نوازشریف کے خلاف پیش کردہ ثبوتوں سے کہیں زیادہ ٹھوس اور جاندارہیں۔ لیکن اگر یہ عمران خان کو نااہل قرار دے دیتی ہے تو پی ٹی آئی بکھر جائے گی۔ دوسری طرف تین عشروں سے پنجاب میں اپنی گہری جڑیں رکھنے والی پی ایم ایل (ن)نوازشریف کی وزارت ِعظمیٰ کے بغیر بھی اپنی جگہ پر موجود رہے گی ۔ لیکن عمران خان کی پرکشش شخصیت کے بغیر پی ٹی آئی موسمی پرندوں کی ایک جماعت ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اسٹیبلشمنٹ کا سیاسی منصوبہ بکھر جائے گا۔ ہمیں بہت جلد ہوا کار خ معلوم ہوجائے گا۔ لیکن یہ جس طرف بھی چلے گی، پتے ضرور جھڑیں گے ۔