• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیل بلا کے بعد!.....سید منور حسن…امیر جماعت اسلامی

پاکستان اپنی تاریخ کی سب سے بڑی آزمائش سے دوچار ہے۔ پورا ملک سیلاب کی زد میں ہے ۔اس قیامت خیز تباہی نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے دعووٴں کی قلعی کھول دی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حکومت اور انتظامیہ نے ریسکیو اور ریلیف کے حوالے سے انتہائی مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت ہو یا سندھ کی، پنجاب کا معاملہ ہویا بلوچستان کا،ہر جگہ حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کی تکالیف بڑھتی جا رہی ہیں کہ صحیح معنوں میں کہیں ریلیف نہیں مل رہاہے۔ انتخاب کے ذریعے وجود میں آنے والی حکومتوں سے لوگ بجا طور پر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان کے جان و مال کے تحفظ کے لئے پوری کوشش کریں گی لیکن منتخب حکومتوں نے جمہوریت کو بھی ناکام کیا ہے اور جمہور کوبھی بڑے پیمانے پر نقصان اور مایوسی سے دوچار کیاہے۔ حکومت کو لاکھوں کی تعداد میں خیمے ملے ہیں، ان سے خیمہ بستیاں وجود میں آجانی چاہئے تھیں لیکن ایسا اب تک نہیں ہو سکا۔الخد مت فاؤنڈیشن اوردیگر مذہبی این جی اوز نے خیمہ بستیاں بسائی ہیں۔ آصف زرداری صاحب کی اصطلاح میں اس حوالے سے سارا کام نان اسٹیٹ ایکٹرز کر رہے ہیں جبکہ اسٹیٹ ایکٹرز بیرون ملک دوروں اور اندرون ملک فضائی جائزوں اور جعلی کیمپوں کے دوروں میں مصروف ہیں۔ خیبر پختونخوا،سندھ، بلوچستان اور پنجاب میں بیسیوں مقامات پر فوری خیمہ بستیاں بسانے کی ضرورت ہے۔
خیبر پختونخوا اور سیلاب سے متاثرہ دیگر علاقوں میں جگہ جگہ ٹنوں کے حساب سے کیچڑ ہے اور خدشہ ہے کہ جب وہ خشک ہو گا تو اس میں سے مزید لاشیں برآمد ہوں گی۔ ہزاروں کی تعداد میں مرنے والے مویشیوں کی لاشیں بھی پانی کے اندر پڑی ہوئی ہیں۔کیچڑ کو صاف کرنے اورمرے ہوئے مویشیوں کو ہٹانے والا کوئی نہیں ہے۔ابھی تک کوئی وبائی مرض تو نہیں ہے لیکن خیبر پختونخوا کے تقریباً 50فیصد متاثرین میں خارش پھیل گئی ہے۔ پینے کا صاف پانی اوردرست کھانا نہیں ہے۔ متاثرین کا ایک اور فوری مسئلہ سحر اور افطار کا ہے۔سیلاب زدہ علاقوں میں الخدمت فاؤنڈیشن اور دیگرلوگوں نے کوشش کی ہے کہ مسجدوں اور کیمپوں میں سحر اور افطار کابندوبست کیا جائے۔اگر روزانہ لاکھوں کی تعداد میں بے گھر لوگوں کے لئے دو وقت کھانے کاانتظام کیا جائے تو اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ یہ کس قدر مشکل کام ہے۔حکومت کو اس معاملے میں بھی پیش قدمی کرنی چاہئے اور متاثرہ علاقوں میں جتنے لوگ اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں ان سے بھی تعاون حاصل کرنا چاہئے۔
سیلاب کرپشن و کمیشن میں گھری حکومت کی بچی کھچی ساکھ بھی بہا لے گیاہے۔ وفاقی و صوبائی وزرا متاثرہ علاقوں میں جاتے ہیں تو عوام جگہ جگہ اکٹھے ہوکر ان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں، متاثرہ علاقوں میں ان کی پوزیشن فی الحقیقت گالی سے بھی بدتر ہے۔ بیرون ملک بھی حکومتی ساکھ بہتر نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو کہنا پڑا کہ حکومت پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے عالمی برادری امداد دینے میں ہچکچا رہی ہے۔ سعودی عرب، ایران، ترکی اور کئی دوسری حکومتوں اور مصر، ملائیشیا، برطانیہ اور دیگر ملکوں سے فلاحی تنظیموں اور ڈاکٹروں نے جماعت اسلامی اورالخدمت فاؤنڈیشن سے رابطہ کرکے متاثرین سیلاب کی خدمت کی ہے۔پاکستان میں سعودی سفیر نے پانچ ٹن چاول کی صورت میں ذاتی عطیہ الخدمت فاؤنڈیشن کے حوالے کیاہے۔ باہرسے آنے والی ڈونر ایجنسیوں اور ٹیموں میں سے کوئی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے این جی اوز کا تعاون حاصل کیا ہے اور لوگوں سے مقامی طور پر کہاہے کہ آپ مل کر این جی او بنا لیں تو ہم امداد کریں گے۔
سعودی سفیر نے مجھے بتایا کہ سعودی عرب نے ٹنوں کے حساب سے چارٹرڈ طیاروں میں کجھوریں بھجوائی ہیں۔متاثرین تک تو یہ کھجوریں نہیں پہنچیں البتہ اطلاعات ہیں کہ بازاروں میں فروخت ہو رہی ہیں۔ جن علاقوں میں امداد تقسیم ہو رہی ہے،اس کے بارے میں بھی کم سے کم الفاظ میں یہ کہاجا سکتا ہے کہ وہ سیاسی بنیادوں پر تقسیم ہورہی ہے۔اگر یہی کیفیت جاری رہی تو مرکزی و صوبائی حکومتوں اور حکومتی اداروں سے عوام کااعتماد بالکل اٹھ جائے گااورایک انارکی جیسی کیفیت پیدا ہو جائے گی ۔ اس سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی بنیادوں پر امداد تقسیم کرنے کاسلسلہ بند کیا جائے اورمستحقین تک امداد پہنچائی جائے۔ حکومت کو اپنی ساکھ اور اعتمادبحال کرنے کے لئے فوری طور پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ جو فنڈز مل رہے ہیں ان سے متاثرین کوگھروں کی تعمیر کے لئے فی خاندان ایک لاکھ روپے امداد دی جانی چاہئے اور مویشی فراہم کرنے چاہئیں کہ مویشی ان کی معیشت ہے اور روزمرہ گزر اوقات کا ذریعہ بھی۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں یوٹیلٹی بلز ختم، کسانوں کے قرضے معاف اور زراعت کے لئے غیر سودی قرضے فراہم کرنے چاہئیں۔خیبر پختونخوا میں منڈا ڈیم کو تمام کاموں میں ترجیح دی جانی چاہئے کہ اس پر اگلی فصل کا انحصار ہے۔
ساکھ بحال کرنے کے حوالے سے ایک فوری قدم یہ ہونا چاہئے کہ سیلاب متاثرین کے لئے آنے والی امداد کی منصفانہ اورشفاف تقسیم کیلئے ایساقومی کمیشن تشکیل دیا جائے جس پر سب کا اتفاق ہو اورکمیشن میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو نمائندگی دی جائے جو امداد کی وصولی ، تقسیم اور متاثرین کی بحالی کے عمل کی نگرانی کریں ۔اس سے قبل حکومت اور اپوزیشن نے مل کر کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ کمیشن وجود میں نہیں آ سکا۔وزیراعظم کی طرف سے متعدد کمیشنوں کا اعلان کیا گیا لیکن کوئی عملی پیشرفت نہیں ہو سکی۔ اگر حکومت کسی کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی کمیشن بنائے گی تو وہ اس جیسا ہوگا اور اس پر کسی کو اعتماد نہیں ہوگا۔ کمیشن ایسا بننا چاہئے جس نے فیلڈمیں کام کیا ہو، جس نے زلزلہ زدگان اور آئی ڈی پیز کی خدمت کی ہو۔کوئی ایسا کمیشن جو نتائج دے سکے، ہم اس کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہیں اس لئے کہ آفت بہت بڑی ہے اور تنہا کوئی اس سے نمٹ نہیں سکتا۔ مرکزی و خیبر پی کے کی صوبائی حکومت کو اس بات پر توجہ دینی چاہئے کہ کم سے کم اس زمانے میں ڈرون حملوں کو بند کرادیا جائے۔ خیبرپختونخوا میں سیلاب سے متاثرہ جو خاندان شمالی اورجنوبی وزیرستان کی طرف ہجرت کرکے گئے ہیں‘ امریکہ ان پر ڈرون حملے کررہا ہے۔ نوشہرہ میں متاثرین میں سے ایک شخص نے بتایا کہ ڈرون حملے سے میری فیملی کے پانچ افراد جاں بحق ہو گئے ہیں۔اس مشکل وقت میں ڈرون حملوں اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کے بدلے ڈالر وصول کرنے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے ۔یہ وقت اپنی قوم کے ساتھ کھڑے ہونے کا ہے نہ کہ امریکہ کے ڈومور کے مطالبے پر عمل کرنے کا۔


تازہ ترین