قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں سات سال کی جدوجہد رنگ لائی اور اﷲ نے ہمیں پاکستان جیسی نعمت سے نواز دیا۔جدوجہد اور دعائیں مختصر عرصے میں قبول ہوئیں۔ وہ عظیم رہنما رخصت ہوا تو کیا دعائوں کی قبولیت بھی ہم سے رخصت ہو گئی؟ دہائیاں بیت گئیں ہماری جدوجہد رنگ نہیں لا رہی۔ ایک ریاست کے اندر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کئی ریاستیں ہیں۔ ’’سِول حکومت کو فوج سے کوئی خطرہ نہیں‘‘۔ پاک فوج کے ترجمان کے بیان کے بعد بظاہر افواہوں کی گرد بیٹھ گئی ہے، مگر حقیقت حال سے کون ناواقف ہے؟ ہنڈیا چولہے پر ہے اور بہت جلد ’’پکوان، دسترخوان‘‘ پر چُن دیا جائے گا۔ اداروں کی باہمی لڑائی ہمیں نہ جانے کہاں لے جائے گی ؟
ہم تقطیب(Polarization)کی انتہائوں پر ہیں۔ایسی کیفیت میں اجلے کردار و اجلی تحریر لکھنے والے مختار مسعود بے طرح یاد آئے،جنھوں نے آوازِ دوست میں لکھا تھا کہ ’’قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی۔مرگ انبوہ کا جشن ہو تو قحط، حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال،اس وبا میں آدمی کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ مردم شماری ہو تو بے شمار،مردم شناسی ہو تو نایاب۔
مختار مسعودرقمطراز ہیں کہ ’’بچوں کی کہانیوں میں مجھے جرات اور قربانی کا نشان ملا اور لڑکوں کی کتابوں سے مجھے حکمت اور خدمت کا پتا چلا۔پہلے گروہ کے لوگ شہید کہلاتے ہیں اور اس دوسرے گروہ میں جو لوگ شامل ہیں انھیں محسنین کہا جاتا ہے۔اہل شہادت اور اور اہل احسان میں فرق صرف اتنا ہے کہ شہید دوسروں کے لئے جان دیتا ہے اور محسن دوسروں کے لئے زندہ رہتا ہے۔ایک کا صدقہ جان ہے اور دوسرے کا تحفہ زندگی۔ ایک سے ممکن وجود میں آتا ہے اور دوسرے سے اس وجود کو توانائی ملتی ہے ۔ان کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی ہوتا ہے جو اس توانا وجود کو تابندگی بخشتا ہے۔جو لوگ اس آخری گروہ میں شامل ہوتے ہیں انھیں اہل جمال کہتے ہیں۔ان کی اپنی ذات میں بھی ایک حسن ہوتا ہے جسے حسن سیرت کہتے ہیں۔زندگی کو ایک گروہ نے ممکن بنایا دوسرے نے توانا اور تیسرے نے تابندہ۔جہاں یہ تینوں گروہ موجود ہوں وہاں زندگی موت کی دسترس سے محفوظ ہو جاتی ہے اور جس ملک یا عہد کو یہ گروہ میسر نہ آئیں اسے موت سے پہلے بھی کئی بار مرنا پڑتا ہے۔جس سرحد کو اہل شہادت میسر نہ آئیں وہ مٹ جاتی ہے۔جس آبادی میں اہل احسان نہ ہوں اسے خانہ جنگی اور خانہ بربادی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جس تمدن کو اہل جمال کی خدمات حاصل نہ ہوں وہ خوشنما اور دیرپا نہیں ہوتا‘‘ نیوکلیئرطاقت ہونے کے باوجود ہماری کیا حالت ہے؟ دنیا کی بہترین فوج ہمارے پاس مگر ہم اپنے ملک میں امن کو ترس گئے۔ سیاست کو ہم نے گندگی کے ڈھیر میں بدل دیا،کہاجاتا ہے کہ معجزے بند ہوگئے مگر ماضی کے ایک پلے بوائے،کرکٹ کا کھیل جس کی شناخت تھی کو قوم نے جو پذیرائی بخشی وہ کسی معجزے سے کم ہے؟جسے مجھ جیسے ہزارہا لوگ پاکستان کی آخری امید سمجھتے تھے۔جو صاف بولتا تھا۔جو دعویٰ کرتا تھا کہ قافلہ چاہے مختصر ہو جائے،کوئی راہزن نہ ہم سفر ہو جائے۔جو شیخ رشید کو کہتا تھا کہ’’ مجھے اﷲ تم جیسا کامیاب سیاستدان کبھی نہ بنائے ا اورمیں اقتدار میں آیا تو تمہیں چپراسی بھی بھرتی نہیں کروںگا‘‘۔جو الطاف حسین کیخلاف لندن جاکر مقدمہ کرنے کی بات کرتا تھا۔جس جس سیاسی مسافر کو خان صاحب نے گندہ اور بددیانت کہا وہ بنی گالہ کی لانڈری میں دُھلتا گیا اور خان صاحب اسے گود لیتے گئے۔جو ترینوں اور علیموں کو دائیں بائیں رکھ کرخود کفیل ہو اسے حق پہنچتا ہے کہ وہ زرداری کو ڈاکو کہے؟کِس منہ سے وہ اچکزئی،مولانا فضل الرحمان اور دیگر لوگوں کو ڈاکو گردانتے ہیں۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر آپ ہر سیاسی رہنما پر سنگ باری کر یں گے تو کوئی پتھر آپ کے شیش محل کو بھی توڑ کررکھ دے گا۔اسفندیار ولی پھر اسی لئے بولے کہ جس شخص کو گھر چلانے کا معلوم نہیں وہ ملک کیسے چلائے گا۔آپ ہر جلسے میں قران حکیم کی آیت مبارکہ تلاوت کرتے ہیں کہ ’’اﷲ ہمیں ہدایت کے راستے پر چلا‘‘۔
مسلم لیگ (ن)کے رہنما حنیف عباسی سوال اٹھاتے ہیںکہ طلاق دینے اور رجوع کی مدت گزر جانے کے بعد آپ اور جمائماکیسے ایک دوسرے کیساتھ قیام کرتے ہیں؟جس پارٹی کا رہنما اور کارکن دوسروں پر سب سے زیادہ تنقید کے تیر برساتے ہیں اپنے معاملے میں وہ معمولی بات بھی برداشت کیوں نہیں کرتے؟
جہاں لوگ و ادارے پٹری سے اترچکے ہوں وہاںکے ذرائع ابلاغ اپنا فرض اداکرتے ہوئے خرابیوںکو دورکرنے کی کوشش کرتے ہیں۔قوم کو بلا کم و کاست دکھا کے اس کی رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں مگر ہمارے ہاں جھوٹی رپورٹیں دکھا کے قوم کو گمراہ کیاجاتا ہے۔غیر ذمہ داری کی انتہا کرتے ہوئے ایک نجی چینل کے اینکر نے مقننہ کے تین درجن سے زائد اراکین کے دہشت گردوں سے تعلقات سے متعلق خفیہ ایجنسی سے منسوب جعلی رپورٹ جاری کردی ۔مذکورہ چینل ایسی بے پرکی اڑانے میں مشہور ہے،ملکی عدالتی نظام تو اس کی انتظامیہ کیخلاف کوئی کارروائی نہ کر سکا مگر برطانوی عدالتوں میں انہیں سزائیں ہو چکی ہیں۔اب ایسے لوگوں کیخلاف ملکی ادارے کوئی کارروائی کریں تو ہماری صحافتی انجمنیں اسے آزادی ِاظہار پر حملہ قرار دیتی ہیں۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس دستور کے رہنمائوں سے اس قلم کار نے گزارش کی ہے کہ وہ ایسے موضوعات پر مکالمہ شروع کریں کہ ذرائع ابلاغ کی آزادی کی حدود کہاں تک ہیں؟
ایک اجلاس میں وزیراعظم کاچیئرمین پیمرا کو یہ کہنا کہ عدالتوں کی جانب سے جن جن مقدمات میں حکم امتناہی جاری ہوئے ہیں وہ مقدمات واپس لے لیں تاکہ قانونی فیس کی مد میں مزید کروڑہا روپے کا بوجھ سرکاری خزانے پر نہ پڑے۔
وزیراعظم کا یہ فرمان درحقیقت ہمارے اداروں کی بے بسی و غیر ذمہ داری ثابت کرتا ہے۔ وزیراعظم کے حکم پر عدالتوں کو بھی غور کرنا چاہئے کہ بے جا حکم امتناہی اس ملک کو کہاں لے جائیں گے؟ مختار مسعود کے اہل شہادت، محسنین اور اہلِ جمال جہاں بکثرت پائے جاتے تھے آج اس وطن کی یہ حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کہاں گئے وہ بلند کردار لوگ؟ کیا یہ سچ نہیں کہ ہم اس ملک و ملت کی قدر نہ کر پائے اور ناقدری کی سزا ہم پر مسلط کر دی گئی؟ ہم نے کفران نعمت کیا اور ﷲ ہم سے ناراض ہوگئے؟