• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’برما‘‘ کالے پانی کی سرزمین خصوصی تحریر…ڈاکٹر طاہر رضا بخاری

بَرما (میانمار) کے مسلم اکثریتی صوبہ اَرَاکان میں مسلمان ایک دفعہ پھر بدترین مظالم کا شکار ہیں۔ برما پہلی بار اَرَاکان کے بادشاہ نرامیہ کلا کے ذریعے اسلام سے متاثر ہوا ۔ یہ بادشاہ بنگال میں جلاوطنی کے ایام بسر کرنے کے بعد اپنے پیروئوں کے ہمراہ 1430میں برما آیا اور اس نے مُرہانگ کو اپنا دارالحکومت بنایا اور ’’سندی خاں‘‘ کے نام سے ایک خوبصورت مسجد تعمیر کی۔ اگرچہ بعد میں حکمرانوں کی اکثریت بدھ مت کے ماننے والوں کی تھی، لیکن شاید بدھ مت میں اتنا دَم خَم نہ تھا کہ اسلام جیسے انقلابی دین کے سامنے ٹھہر سکتا، چنانچہ انہوں نے اسلامی تہذیب و ثقافت سے چنداں انحراف نہ کیا اور سکّوں اور مختلف تمغوں پر کلمہ طیبّہ سمیت دیگر اسلامی عبارات کے کُنداں کرنے کی روایت جاری رکھی۔ 1657-58 میں شاہجہاں کی بیماری اور اس کے بیٹوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش نے زور پکڑا تو شاہجہان کا دوسرا بیٹا شاہ شجاع، جو بنگال کا گورنر تھا نے اپنے صوبے بنگال کے دارالسلطنت راج محل میں اپنی تاجپوشی کے وقت بادشاہت کا اعلان کردیا، تاہم معرکہ بہادرپور میں شکست ِ فاش کے بعد وہ واپس بنگال کی طرف پلٹا اور اس نے اَرَاکان کی طرف راہِ فرار اختیار کی، اس کی آمد، وہاں کی مسلم کمیونٹی کے لئے ابتدائی طور پر تقویت کا باعث بنی، تاہم خطّے کے بدلتے ہوئے حالات اور اورنگ زیب کی جانشینی کے سبب وہاں کے بادشاہ سَندہ تھودمہ نے شاہ شجاع کو قتل کرکے اس کے خزانے پر قبضہ کر لیا۔ 1663میں، اقتدار مستحکم ہونے کے فوراً بعد اورنگ زیب نے اپنے ماموں شائستہ خاں کو بنگال کا گورنر مقرر کیا جس نے اَرَاکان کے حکمران کو شکست دی اور چاٹگام کے علاوہ دیگر جزائر پر بھی قبضہ کر لیا۔ شومئی قسمت، برما کی سرزمین، مابعد بھی، مسلم زعما کے لئے گوشہ عافیت ثابت نہ ہوئی، بالخصوص 1857کی جنگ آزادی کے بعد، آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر برما کے شہر رنگون میں جلاوطن ہوئے، جہاں انہوں نے اپنی زندگی کے آخری دن پورے کئے، لیکن اس کا کلائمیکس برما کے جنوب مغربی گوشے کے وہ جزائر ہیں جن کی تعداد دو سو سے زائد ہے، جو دنیا میں ’’انڈیمان‘‘ کے نام سے کم اور ’’کالے پانی‘‘ کے نام سے زیادہ جانے جاتے ہیں جہاں 1857کی جنگ آزادی کے بیشمار مجاہدین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے داعی اجل کو لیبک کہہ گئے۔ جن میں امام المناطقہ مولانا فضل حق خیر آبادی بطور خاص قابلِ ذکر ہیں، جو 1857کی جنگِ آزادی میں گراں قدر خدمات کی پاداش، انگریز حکومت کی طرف سے بغاوت اور قتل کے الزام میں پھانسی یا ہمیشہ کی جلا وطنی کی سزا کے طور پر 18کتوبر1859 کو کالے پانی پہنچائے جانے کے لئے انڈیمان کے پورٹ بلیر پر اُتارے گئے، جہاں وہ تقریباً دو سال انتہائی کرب، تکلیف اور شدید مصائب برداشت کرتے ہوئے 20اگست1861کو دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انڈیمان کے یہ جزائر اور کالے پانی کی سرزمین خط ِ استوا کے قریب ہونے کی وجہ سے بارہ مہینے بارش میں رہتی اور اس کی آب وہوا اتنی سمِ قاتل تھی کہ اگر کسی کو کوئی معمولی زخم بھی آجاتا، تو تین، چار دن میں ہی اس کی موت واقع ہوجاتی۔ ستمبر 1789میں گورنمنٹ ہند نے طے کیا کہ حبس دوام بعبور دریائے شور کے قیدی جزائر انڈیمان ونکوبار میں رکھے جائیں چنانچہ کیپٹن بلیر اور کیپٹن مورس دو جہاز لے کر وہاں پہنچے، جزیرہ چیتھم میں لنگر ڈالا اور اس چھوٹے سے جزیرے کو کسی قدر صاف کرکے کچھ مکانات بنوائے، مگر طرح طرح کی بیماریوں اور آب و ہوا کی خرابی کے باعث نوے فیصد آدمی مرگئے۔ چار وناچار سات سال تک اس جزیرے پر قبضہ رکھا گیا، آخرکار 1796میں یہ جزیرہ بالکل اجڑ گیا۔ علامہ فضل حق خیر آبادی نے اسی ’’کالے پانی‘‘ میں قید کے دوران جنگ آزادی 1857کے اسباب و واقعات اور نتائج پر مشتمل بڑے بلیغ قصائد تحریر کئے، جو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں محفوظ ہیں اسی طرح الٰہ آباد میں جنگ آزادی کے قائد مولوی لیاقت علی الہ آبادی بھی ان لوگوں میں نمایاں ہیں جن کو انگریزوں نے گرفتار کرکے ’’کالے پانی‘‘ یعنی انڈیمان بھیج دیا گیا، جہاں وہ کئی سالوں کی جلا وطنی کے بعد انتقال کرگئے۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود روہنگیا مسلمانوں پر زندگی آج بھی اُسی طرح تنگ ہے جس طرح 1857کی جنگ آزادی میں ہندوستان کے مسلمانوں پر تھی۔ اسلام امنِ عالم کا ضامن اور شرفِ آدمیت کا علمبردار ہے۔ اسلام اپنے شہریوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی کا صرف اعلان ہی نہیں کرتا بلکہ اس کو یقینی بھی بناتا ہے۔ آج امن اور جمہوریت کے نام پر ایوارڈ حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی کی مجرمانہ خاموشی کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔ اس خطّے کے مسلمان گزشتہ طویل عرصے سے انتہائی کرب ،مصائب اور مشکلات کا سامنا کررہے ہیں ۔ جس کے سبب کئی بار وہ بنگلہ دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے اور کئی بار خود برمی حکومت نے ان کے لئے اپنی زمین تنگ کردی۔ 78۔1977میں تین لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو برما سے نکال کر بنگلہ دیش میں دھکیل دیا گیا، اگرچہ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین کی نگرانی میں ایک معاہدے کے تحت وہ دوبارہ برما واپس آگئے، تاہم خوف اور موت کے جو مناظر اور مظاہر یہ جدید دنیا اپنی میڈیا اسکرینوں پر دیکھ رہی ہے اس سے تو یہی محسوس ہو رہا ہے کہ مسلمانوں پر برما کے اندر ابھی ’’کالے پانی‘‘ کے دائرے اور سائے کم نہیں ہوئے۔
(صاحب تحریر ڈائریکٹر جنرل اوقاف پنجاب ہیں)

تازہ ترین