• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آغا شورش کاشمیری مرحوم کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ کیا دبدبہ اور طنطنہ رکھنے والا شخص تھا۔ اقتدار کے پجاری، شکم پرست حواری، حیا باختہ درباری اور قلم فروش لکھاری اس کے نام سے کانپتے تھے۔ کشمیر کی رعنائیوں میں گندھے، مردانہ وجاہت کے حامل، تنومند اور طویل القامت شخص کی بدن بولی میں ایسا جلال و جمال تھا کہ کسی کو اس کے مد مقابل کھڑا ہونے کا یارانہ تھا ۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد وہ اس سر زمین کا سب سے بڑا خطیب تھا ۔ لفظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔ اس کی تقریر میں آبشاروں کا ترنم بھی تھا اور بجلیوں کا کڑکا بھی۔ بولتا تو لاکھوں کا مجمع پتھر کی مورتیوں میں ڈھل جاتا۔ میں نے خود اس کی خطابت کا سحر دیکھا ہے۔ لیاقت باغ کے اس جلسے کا منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جس کی صدارت نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کررہے تھے اور جس میں آغا شورش ذوالفقار علی بھٹو پہ اس بری طرح برسے تھے کہ کئی روز جل تھل کا سماں رہا۔ یہ بوڑھا ہوتا ہوا شورش تھا جسے ذیابیطس نے ناتواں کر دیا تھا لیکن اس کی آواز میں آج بھی شیروں کی سی گرج تھی اور لفظ آج بھی اس کے حضور دست بستہ کھڑے تھے۔ وہ عشا کے بعد تقریر شروع کرتے تو فجر کی اذان تک مجمع جھومتا رہتا۔ اس جیسی کاٹ دار اور تاب دار زبان لکھنے والا صحافی شاید صدیوں میں پیدا ہو۔ وہ کسی کا تعاقب شروع کرتا تو اس وقت تک پیچھے پلٹ کے نہ دیکھتا جب تک مد مقابل کے پیرہن کا ایک ایک تار آوارہ خو ہواؤں کی نذر نہ ہوجاتا۔ اقتدار پرست فرزندان وقت ہوں یا مفادات کی چراگاہوں میں منہ مارتے سیاسی ملا، کوئی اس سے محفوظ نہ تھا۔ اس کے شعر کا تیکھا پن شاید ہی کسی دوسرے کو نصیب ہوا ہو۔ مولانا ظفر علی خان مرحوم نے اس کے بارے میں کہا تھا
شورش سے مرا رشتہ ہے اور وہ ازلی ہے
میں وقت کا رستم ہوں تو وہ ثانی سہراب
کیا ہمہ جہت، ہمہ صفت شخص تھا کہ غربت کے ظلمت کدے میں آنکھ کھولی۔ نوعمری میں ہی سامراج شکن سیاست کی طرف نکل گیا۔ اپنی محنت، لگن اور جہد پیہم سے ان بلندیوں تک پہنچا جو صرف تیشہ فرہاد رکھنے والے کسی کوہکن کو میسر آتی ہیں۔ انگریز کے عہد ستم میں اس نے بیس عیدیں سامراج کی قید میں گزاریں
دس سال قید و بند میں دفنا چکا ہوں میں
یہ خدمت وطن کا صلہ پاچکا ہوں میں
برطانیہ سے روز نبرد آزما رہا
اس جرم بے خطا کی سزا پا چکا ہوں میں
کوندا ہوں مثل برق پس پردہ سحاب
ظلمات روزگار کو لرزا چکا ہوں میں
جب صبح آزادی طلوع ہوئی اور چمن آراستہ ہوا تو شورش کا اس میں کچھ حصہ نہ تھا۔ اس کے جنوں کی شورش پہلے کی طرح قائم رہی۔ اب نئے فرعون اس کی ضرب کلیمی کی زد میں تھے ایک بار پھر زندانوں کی کال کوٹھڑیاں اس کا مقدر ٹھہریں۔
مرے قلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں سما سے کھیلا ہوں
بڑے بڑوں کی فضیلت کے بل نکالے ہیں
دراز دستی پیک قضا سے کھیلا ہوں
رہا ہوں قید مشقت میں دس برس شورش
ہر ایک حلقہ زنجیر پا سے کھیلا ہوں
تین چار روز قبل مجھے آغا صاحب کی یاد آئی اور بے طرح آئی۔ 35/برس قبل 24/اکتوبر 1975ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ان کی برسی کا دن، کوڑے کے ڈھیر سے رزق چنتے بچے کی سالگرہ کی طرح چپ چاپ گزر گیا۔ پی ٹی وی میں ایک بڑے منصب پہ فائز ان کے صاحب زادے، آغا مسعود شورش کو بھی شاید یاد نہ آسکی۔ آتی بھی تو ان کے لئے سرکاری ٹی وی پر آغا صاحب جیسے بغاوت شعار پہ کوئی پروگرام کرنا ممکن نہ ہوتا۔ 24/اکتوبر ہی کے لگ بھگ میں نے کسی ٹی وی چینل پہ دیکھا کہ برسوں قبل رخصت ہو جانے والی کسی گلو کارہ کو خراج پیش کیا جا رہا ہے۔ پینتیس برس کس تیزی سے گزر گئے۔ آج وہ زندہ ہوتا تو کیسے کیسے کج کلاہوں اور سیاسی مداریوں کے ”دامان تقدیس“کی دھجیاں اڑا رہا ہوتا۔ ”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے“ آغا صاحب کی ایک چھوٹی سی نظم کا عنوان ہے۔ ”ہمارے بعد“ کہتے ہیں۔
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے
فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے
مجھے آغا صاحب یہ خبر پڑھ کے بھی بہت یاد آئے کہ عزت مآب ڈاکٹر بابر اعوان نے عالی مرتبت چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی ہے۔ دونوں جماعتوں کے قائدین نے اشتراک و تعاون کے امکانات نو پہ غور کیا ہے۔ اشارہ دیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ق) پیپلزپارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہوسکتی ہے۔ آغا صاحب کا بڑا مشہور قول ہے۔ ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا“ وہ یہ جملہ اس مفہوم میں استعمال کرتے تھے کہ اقتدار کے کھیل میں محبت، خلوص، ہمدردی، ایثار اور قربانی جیسے جذبوں کا کوئی گزر نہیں۔
اس کھیل میں خون کے رشتے بھی معدوم ہوجاتے ہیں۔ آج وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ لوگ ”چٹان“ کے تازہ شمارے کا انتظار کرتے جانے وہ اس ملاقات کے حوالے سے کیا کیا مضمون باندھتے، کیسی کیسی اچھوتی تشبیہات اور کیسے کیسے انوکھے استعارے تراشتے۔ سیاسی بازیگری کو کیسے کیسے شوخ و شنگ لفظوں کا جامہ رنگین پہناتے۔ جناب بابر اعوان کی شخصیت کے خد و خال کے لئے حرف و بیاں کی کیسی کیسی صنعتیں بروئے کار لاتے، چوہدری پرویز الٰہی کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لئے کیسے کیسے شوخ رنگوں کی قوس و قزح بنتے۔ عباؤں اور قباؤں کے بخئے ادھیڑنا آغا جی کا محبوب مشغلہ تھا۔ کسی کو نشانے پہ رکھ لیتے تو اس کے پرکھوں کی قبریں بھی سلگ اٹھتیں۔
لرزاں ہیں میرے نام کی ہیبت سے کاسہ لیس
ارباب اقتدار کا نوکر نہیں ہوں میں
مجھ کو رہا ہے فن خوشامد سے احتراز
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کا خوگر نہیں ہوں میں
کوئی آغا صاحب کا اسلوب کہاں سے لائے کہ اس تازہ سیاسی کروٹ پر طبع آزمائی کرے۔ میں نے لکھنا چاہا لیکن نہ لکھ سکا۔ ایک آدھ دن میں پھر کوشش کروں گا۔ آج کا کالم صحافت، خطابت اور سیاست کے اس شہسوار کی نذر جو زندگی بھر طوفانوں سے الجھتا، تند ہواؤں سے کھیلتا، دارو رسن کی رونقیں اجالتا، کجکلاہوں کی پگڑیاں اچھالتا، صاحبان جبہ و دستار کی قبائیں نوچتا اور پوری تمکنت سے اپنی درویشانہ خودی کے پھریرے لہراتا رہا۔ میں اس ملاقات کا ذکر آغا جی کے مشکبو تذکرے سے جوڑ کر ان کی روح کو مجروح نہیں کرنا چاہتا۔ آغا جی نے کہا تھا
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لئے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
از افق تا بہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
جانشینیان کلایو تھے خداوند مجاز
سِرِّ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں
حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے

آغا جی
نقش خیال…عرفان صدیقی
آغا شورش کاشمیری مرحوم کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ کیا دبدبہ اور طنطنہ رکھنے والا شخص تھا۔ اقتدار کے پجاری، شکم پرست حواری، حیا باختہ درباری اور قلم فروش لکھاری اس کے نام سے کانپتے تھے۔ کشمیر کی رعنائیوں میں گندھے، مردانہ وجاہت کے حامل، تنومند اور طویل القامت شخص کی بدن بولی میں ایسا جلال و جمال تھا کہ کسی کو اس کے مد مقابل کھڑا ہونے کا یارانہ تھا ۔ عطاء اللہ شاہ بخاری کے بعد وہ اس سر زمین کا سب سے بڑا خطیب تھا ۔ لفظ اس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے۔ اس کی تقریر میں آبشاروں کا ترنم بھی تھا اور بجلیوں کا کڑکا بھی۔ بولتا تو لاکھوں کا مجمع پتھر کی مورتیوں میں ڈھل جاتا۔ میں نے خود اس کی خطابت کا سحر دیکھا ہے۔ لیاقت باغ کے اس جلسے کا منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے جس کی صدارت نواب زادہ نصر اللہ خان مرحوم کررہے تھے اور جس میں آغا شورش ذوالفقار علی بھٹو پہ اس بری طرح برسے تھے کہ کئی روز جل تھل کا سماں رہا۔ یہ بوڑھا ہوتا ہوا شورش تھا جسے ذیابیطس نے ناتواں کر دیا تھا لیکن اس کی آواز میں آج بھی شیروں کی سی گرج تھی اور لفظ آج بھی اس کے حضور دست بستہ کھڑے تھے۔ وہ عشا کے بعد تقریر شروع کرتے تو فجر کی اذان تک مجمع جھومتا رہتا۔ اس جیسی کاٹ دار اور تاب دار زبان لکھنے والا صحافی شاید صدیوں میں پیدا ہو۔ وہ کسی کا تعاقب شروع کرتا تو اس وقت تک پیچھے پلٹ کے نہ دیکھتا جب تک مد مقابل کے پیرہن کا ایک ایک تار آوارہ خو ہواؤں کی نذر نہ ہوجاتا۔ اقتدار پرست فرزندان وقت ہوں یا مفادات کی چراگاہوں میں منہ مارتے سیاسی ملا، کوئی اس سے محفوظ نہ تھا۔ اس کے شعر کا تیکھا پن شاید ہی کسی دوسرے کو نصیب ہوا ہو۔ مولانا ظفر علی خان مرحوم نے اس کے بارے میں کہا تھا
شورش سے مرا رشتہ ہے اور وہ ازلی ہے
میں وقت کا رستم ہوں تو وہ ثانی سہراب
کیا ہمہ جہت، ہمہ صفت شخص تھا کہ غربت کے ظلمت کدے میں آنکھ کھولی۔ نوعمری میں ہی سامراج شکن سیاست کی طرف نکل گیا۔ اپنی محنت، لگن اور جہد پیہم سے ان بلندیوں تک پہنچا جو صرف تیشہ فرہاد رکھنے والے کسی کوہکن کو میسر آتی ہیں۔ انگریز کے عہد ستم میں اس نے بیس عیدیں سامراج کی قید میں گزاریں
دس سال قید و بند میں دفنا چکا ہوں میں
یہ خدمت وطن کا صلہ پاچکا ہوں میں
برطانیہ سے روز نبرد آزما رہا
اس جرم بے خطا کی سزا پا چکا ہوں میں
کوندا ہوں مثل برق پس پردہ سحاب
ظلمات روزگار کو لرزا چکا ہوں میں
جب صبح آزادی طلوع ہوئی اور چمن آراستہ ہوا تو شورش کا اس میں کچھ حصہ نہ تھا۔ اس کے جنوں کی شورش پہلے کی طرح قائم رہی۔ اب نئے فرعون اس کی ضرب کلیمی کی زد میں تھے ایک بار پھر زندانوں کی کال کوٹھڑیاں اس کا مقدر ٹھہریں۔
مرے قلم نے مذاق حیات بدلا ہے
بلندیوں پہ اڑا ہوں سما سے کھیلا ہوں
بڑے بڑوں کی فضیلت کے بل نکالے ہیں
دراز دستی پیک قضا سے کھیلا ہوں
رہا ہوں قید مشقت میں دس برس شورش
ہر ایک حلقہ زنجیر پا سے کھیلا ہوں
تین چار روز قبل مجھے آغا صاحب کی یاد آئی اور بے طرح آئی۔ 35/برس قبل 24/اکتوبر 1975ء کو ان کا انتقال ہوا۔ ان کی برسی کا دن، کوڑے کے ڈھیر سے رزق چنتے بچے کی سالگرہ کی طرح چپ چاپ گزر گیا۔ پی ٹی وی میں ایک بڑے منصب پہ فائز ان کے صاحب زادے، آغا مسعود شورش کو بھی شاید یاد نہ آسکی۔ آتی بھی تو ان کے لئے سرکاری ٹی وی پر آغا صاحب جیسے بغاوت شعار پہ کوئی پروگرام کرنا ممکن نہ ہوتا۔ 24/اکتوبر ہی کے لگ بھگ میں نے کسی ٹی وی چینل پہ دیکھا کہ برسوں قبل رخصت ہو جانے والی کسی گلو کارہ کو خراج پیش کیا جا رہا ہے۔ پینتیس برس کس تیزی سے گزر گئے۔ آج وہ زندہ ہوتا تو کیسے کیسے کج کلاہوں اور سیاسی مداریوں کے ”دامان تقدیس“کی دھجیاں اڑا رہا ہوتا۔ ”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے“ آغا صاحب کی ایک چھوٹی سی نظم کا عنوان ہے۔ ”ہمارے بعد“ کہتے ہیں۔
فضا میں رنگ ستاروں میں روشنی نہ رہے
ہمارے بعد یہ ممکن ہے زندگی نہ رہے
خیال خاطر احباب واہمہ ٹھہرے
اس انجمن میں کہیں رسم دوستی نہ رہے
فقیہہ شہر کلام خدا کا تاجر ہو
خطیب شہر کو قرآں سے آگہی نہ رہے
قبائے صوفی و ملا کا نرخ سستا ہو
بلال چپ ہو، اذانوں میں دلکشی نہ رہے
نوادرات قلم پر ہو محتسب کی نظر
محیط ہو شب تاریک روشنی نہ رہے
اس انجمن میں عزیزو یہ عین ممکن ہے
ہمارے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہے
مجھے آغا صاحب یہ خبر پڑھ کے بھی بہت یاد آئے کہ عزت مآب ڈاکٹر بابر اعوان نے عالی مرتبت چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات کی ہے۔ دونوں جماعتوں کے قائدین نے اشتراک و تعاون کے امکانات نو پہ غور کیا ہے۔ اشارہ دیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ق) پیپلزپارٹی کے ساتھ شریک اقتدار ہوسکتی ہے۔ آغا صاحب کا بڑا مشہور قول ہے۔ ”سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا“ وہ یہ جملہ اس مفہوم میں استعمال کرتے تھے کہ اقتدار کے کھیل میں محبت، خلوص، ہمدردی، ایثار اور قربانی جیسے جذبوں کا کوئی گزر نہیں۔
اس کھیل میں خون کے رشتے بھی معدوم ہوجاتے ہیں۔ آج وہ زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ سیاست کی آنکھ میں حیا بھی نہیں ہوتی۔ لوگ ”چٹان“ کے تازہ شمارے کا انتظار کرتے جانے وہ اس ملاقات کے حوالے سے کیا کیا مضمون باندھتے، کیسی کیسی اچھوتی تشبیہات اور کیسے کیسے انوکھے استعارے تراشتے۔ سیاسی بازیگری کو کیسے کیسے شوخ و شنگ لفظوں کا جامہ رنگین پہناتے۔ جناب بابر اعوان کی شخصیت کے خد و خال کے لئے حرف و بیاں کی کیسی کیسی صنعتیں بروئے کار لاتے، چوہدری پرویز الٰہی کی شخصیت کی خاکہ کشی کے لئے کیسے کیسے شوخ رنگوں کی قوس و قزح بنتے۔ عباؤں اور قباؤں کے بخئے ادھیڑنا آغا جی کا محبوب مشغلہ تھا۔ کسی کو نشانے پہ رکھ لیتے تو اس کے پرکھوں کی قبریں بھی سلگ اٹھتیں۔
لرزاں ہیں میرے نام کی ہیبت سے کاسہ لیس
ارباب اقتدار کا نوکر نہیں ہوں میں
مجھ کو رہا ہے فن خوشامد سے احتراز
کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کا خوگر نہیں ہوں میں
کوئی آغا صاحب کا اسلوب کہاں سے لائے کہ اس تازہ سیاسی کروٹ پر طبع آزمائی کرے۔ میں نے لکھنا چاہا لیکن نہ لکھ سکا۔ ایک آدھ دن میں پھر کوشش کروں گا۔ آج کا کالم صحافت، خطابت اور سیاست کے اس شہسوار کی نذر جو زندگی بھر طوفانوں سے الجھتا، تند ہواؤں سے کھیلتا، دارو رسن کی رونقیں اجالتا، کجکلاہوں کی پگڑیاں اچھالتا، صاحبان جبہ و دستار کی قبائیں نوچتا اور پوری تمکنت سے اپنی درویشانہ خودی کے پھریرے لہراتا رہا۔ میں اس ملاقات کا ذکر آغا جی کے مشکبو تذکرے سے جوڑ کر ان کی روح کو مجروح نہیں کرنا چاہتا۔ آغا جی نے کہا تھا
ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا
جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں
سرفروشوں کے لئے دار و رسن قائم تھے
خان زادوں کے لئے مفت کی جاگیریں تھیں
بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں
خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں
از افق تا بہ افق خوف کا سناٹا تھا
رات کی قید میں خورشید کی تنویریں تھیں
جانشینیان کلایو تھے خداوند مجاز
سِرِّ توحید کی برطانوی تفسیریں تھیں
حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے
اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے



تازہ ترین