ایک ٹرائیکا( سہ فریقی گروہ) ہماری مسلح افواج کو جمہوری نظام میں مداخلت پر اکسا رہا ہے ۔ یہ ٹرائیکا میڈیا، کچھ ازکارفتہ یا کرائے کے سیاست دانوں اور ہمارے اداروں کے بعض ریٹائرڈ افسران پر مشتمل ہے ۔اس ٹرائیکا کا ہدف مداخلت کی صورت میں مفادات کا حصول ہے ۔ وہ آس لگائے ہوئے ہیں کہ جب جمہوری حکومت کو چلتا کردیا جائے گا تو ٹیکنوکریٹس کی قائم ہونے والی حکومت یا آمریت میں مشیر یا دیگر پرکشش عہدوں پر براجمان ہوکر مستفید ہوں گے۔
اگرچہ پاک فوج نے یہ بات واضح کردی ہے کہ وہ جمہوریت کا تختہ الٹنے یا آئین میںمداخلت کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی لیکن یہ ٹرائیکااسے ’’قومی مفاد ‘‘ اور ’’نظریہ ٔ ضرورت ‘‘ کے نام پر قدم بڑھانے کی مسلسل ترغیب دے رہا ہے ۔ آپ ہر روز ٹی وی اسکرین اور سوشل میڈیا پر اس ٹرائیکاکی پیہم یلغار دیکھ سکتے ہیں۔وہ اس پر بات نہیں کرتے کہ ایسی مداخلت کس طرح ہمارے ملک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ہماری مسلح افواج کو کمزور کر دے گی کیونکہ وہ سیاست اور گورننس کے امور میں الجھ جائے گی ، اور انجام کار اُسے ہی دفاع اور گورننس، دونوں میں خرابی کا الزام سہنا پڑے گا۔سیاست میں مداخلت مسلح افواج کی توجہ اُن کے اصل کام سے ہٹا دیتی ہے جوکہ ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے محفوظ بنانا ہے ۔ کچھ بیرونی طاقتیں پاکستان کو کمزور دیکھنا چاہتی ہیں۔ مداخلت کرنے پر فوج کو عالمی طاقتوں کی حمایت کی ضرورت پڑتی ہے ، چنانچہ اسے ان کے دبائو میں آکر ایسے مطالبات تسلیم کرنے پڑتے ہیں جو ، جیسا کہ ہم نے مشرف دور میں دیکھا، ممکن ہے کہ پاکستان کے مفاد میں نہ ہوں۔
ہماری مسلح افواج کو نقصان پہنچانے والی ہر چیز دراصل قوم کی ریڑھ کی ہڈی پر ضرب لگاتی ہے ۔ بہت سے لوگ یقین رکھتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ ایسی مہم جوئی پر اکساتے ہوئے اور اس ٹرائیکا کی پشت پناہی کرتے ہوئے کچھ غیر ملکی طاقتیں پاکستان کے خلاف سازش کررہی ہوں۔ پاکستان، اور خاص طور پر ہماری مسلح افواج کو اس سازش اور خطرے سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے جو آمریت کی حمایت کے بیانیے کو تخلیق کرنے اور پھیلانے میں پوری تندہی سے مصروف ہے ۔ اس ٹرائیکا کی دلیل ہے کہ ’قوم کے وسیع تر مفاد ‘ کے لئے آمریت ضروری ہے کیونکہ جمہوریت ملک چلانے کی اہلیت نہیں رکھتی ۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ فوجی حکومتوں کی معاشی کارکردگی جمہوری حکومتوں سے بدرجہا بہتر رہی ہے ، نیز سیاست دان بنیادی طور پر بدعنوان اور نااہل ہوتے ہیں۔
ٹی وی چینلز، اخبارات اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز سے ہر روز اس پیغام کی بمباری ہوتی رہتی ہے کہ ’’ماہرین‘‘ کو زمام ِ اختیار سنبھال لینی چاہیے ۔ گویا آمریت کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔ ہم اس بیانیے کو نہ نظر انداز کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس صورت حال پر’’سب ٹھیک ہے ‘‘ کہہ کر آگے بڑھ سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ تمام جمہوری قوتیں پوری طاقت سے اسے مسترد کریں۔ سب سے پہلے یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کو کسی مفاد پرست حلقے کی منظوری کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے عوام کے لئے جمہوریت کامطلب اُن کی حکومت اور تمام ریاستی امور پر عوام کی بالا دستی ہے ۔ جمہوریت محض کوئی ہدف(جیسا کہ معاشی ترقی) حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں ، یہ بذات ِ خود ایک منزل ہے جس کے حصول کے لئے پاکستانی عوام نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔
حالیہ دنوں ڈاکٹر عطاالرحمٰن ، جو مشرف آمریت کے دور میں وزارت کا قلم دان رکھتے تھے، ’’ماہرین کی حکومت ‘‘( اس کا مطلب آمریت ہی ہوتا ہے) کے قیام کے لئے چلائی جانے والی مہم میں پیش پیش ہیں۔ اُن کے دلائل کا لب لباب یہ ہے کہ عوام کے ووٹ سے منتخب شدہ جمہوری حکومت کی نسبت فوجی حکومتوں کے دو ر میں جی ڈی پی کی شرح اوسطاً بلند ہوتی ہے ۔ میں اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے اس کی خامیوں اور عنصری بطلان کو سامنے لائوں گا۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جمہوریت اور آمریت کا کسی طور موازنہ بنتا ہی نہیں۔ کمپیوٹر اور کمبل کی کارکردگی کی ایک میزان پر جانچ کیسے ہو؟ جمہوریت وقت کے ساتھ بتدریج آگے بڑھنے والے ایک عمل کا نام ہے ۔ اگراسے ہر چند سالوں بعد پٹری سے اتاردیا جائے تو یہ مطلوبہ نتائج نہیں دے سکتی ۔ مزید برآں، ہر منتخب شدہ حکومت کو اپنے پیش رو ( جو لازمی طور پر فوجی آمر ہوتے ہیں) کے کیے گئے تزویراتی فیصلوں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے ۔ یہ فوجی آمروں کے ہی فیصلے تھے جنہوں نے پاکستان کو سیاسی جغرافیائی خطرات کی دلدل میں دھکیلا جس سے باہر آنے کی کوشش میں پاکستان معاشی ترقی کی راہ پر نہ چل سکا۔ اس کی بجائے پاکستان کو بھاری بھرکم امدادپر انحصار کرنا پڑا۔ ملنے والی امداد کے عوض اسے مزید تزویراتی کردار ادا کرنا پڑے ۔ اس طرح ہم حمام ِ باد گرد کا شکار ہوگئے ۔ مثال کے طور پر پاکستان ایوب دور میں سیٹو (SEATO) ، اور بعد میں سینٹو (CENTO)کا رکن بنا۔ہوسکتا ہے کہ اس نے غیر ملکی امداد کی وجہ سے اونچی شرح نمو دکھائی ہو لیکن ترقی کی غیر نمائندہ جہت کی وجہ سے سماجی اور علاقائی عدم مساوات کئی گنا بڑھ گئی ۔یہ ان ناہمواریوں کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے آگے چل کر پاکستان 1971ء میں دولخت ہوگیا۔ اس کے بعد نام نہاد سوشلزم کی لہر نے صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر پاکستان کو صنعتی ترقی کے فوائد سے محروم کردیا۔
جنرل ضیا کی حکومت میں پاکستان نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ہونے والی جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا ۔ ایک مرتبہ پھر بھاری امدادی رقوم کے بہائو کا رخ پاکستان کی طرف ہوگیا۔ 1988 ء میں جمہوریت کی بحالی اور افغانستان سے سوویت انخلا بیک وقت وقوع پذیر ہوئے ۔ چنانچہ بعد میں قائم ہونے والی جمہوری حکومتوں کو پریسلر پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی وجہ سے امدادی رقوم کا بہائو بہت کم ہوگیا ۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان پر مذہبی انتہا پسندی، منشیات اور اسلحے کے سائے گہرے ہوگئے ۔ تاریخ نے ایک مرتبہ پھر خود کو دہرایا اور ایک فوجی آمر ، جنرل مشرف نے پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ میں دھکیل دیا۔ اس کے عوض جنرل مشرف نے اپنی حکومت کو تسلیم کرالیا اور ایک مرتبہ پھر بھاری امدادی رقوم کا رخ پاکستان کی طرف ہوگیا ۔ اس کی وجہ پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح مصنوعی طور پر بلند ہوگئی ۔ تاہم اس دوران ملک میں مستحکم بنیادوں پر کوئی سرمایہ کاری دیکھنے میں نہ آئی ۔ جب آمر رخصت ہوا تو ملک دہشت گردی ، توانائی کی کمی اور امن وامان کے شدید خطرات میں گھرا ہو ا تھا ۔
فوری سکون پہنچانے والی کسی مسکن آور دوائی کے برعکس مستحکم معاشی پالیسیاں فوری طور پر مطلوبہ نتائج نہیں دیتیں۔ معاشی پالیسیوں پر عمل درآمد کے لئے وقت درکار ہوتا ہے ، اور اس کے نتائج یقینی طور پر برآمد ہوتے ہیں، لیکن راتوں رات نہیں۔ کسی بھی معاشی پالیسی کے موثر ہونے کے لئے سیاسی استحکام اور ان پالیسیوں کا تسلسل یقینی بنانا ضروری ہوتا ہے ۔ منتخب شدہ حکومتوں کو جس عدم استحکام کا سامنا ہے ، اس کا اظہار اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ آج تک کوئی وزیر اعظم بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا۔ اس نے معاشی ترقی کے عمل پر بے حد منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ماہرین معاشیات کا ایک جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ کسی وزیر ِاعظم یا کابینہ کے ارکان کی نصف تعداد میں تبدیلی جی ڈی پی کی فی کس شرح نمو کو 2.39 فیصد کم کرسکتی ہے (Aisen and Viega, 2011)۔ اس لئے 1990 کی دہائی میں جمہوری حکومتوں کے دور میں کم شرح نمو کی وجہ ’’خراب سیاسی فیصلے ‘‘ نہیں، سیاسی عدم استحکام تھا ۔ یہ حقیقت بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ پاکستان میں جمہوری نظام کو برہم کرنے کی بجائے اس کے تسلسل کو یقینی بنایا جائے ۔
یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ ڈاکٹر عطاالرحمٰن آمریت کی خوبیاں گنواتے ہوئے جی ڈی پی کی شرح نمو کا ذکر کرتے ہیں نہ کہ جی ڈی پی کی فی کس شرح نمو کا۔ جی ڈی پی کی شرح نمو کی قطعی پیمائش کسی بھی دو ادوار کے موازنے کے لئے درست نہیں ہوتی کیونکہ اس دوران آبادی میں اضافہ اور آبادی کے رہن سہن اور معاشی معروضات میں تبدیلی واقع ہوسکتی ہے ۔ اس نکتے کی وضاحت کے لئے ایک مثال دینا چاہوں گا۔ جی ڈی پی کے اعدادوشمار کے اعتبار سے بھارت دنیا میںدسویں نمبر پر ہے ، لیکن جب ہم جی ڈی پی کی فی کس شرح نمو کا جائزہ لیتے ہیں تو بھارت دنیا میں 133 ویں نمبر پر چلا جاتا ہے ۔ دوسری طرف جی ڈی پی کے حجم کے اعتبار سے سنگاپور دنیا میں 39 ویں نمبر پر ہے لیکن جی ڈی پی کی فی کس شرح نمو کے اعتبار سے دنیا میں تیسرے نمبر ہے ۔ اس لئے اگر ہم محض جی ڈی پی کے حجم کو ترقی کی علامت سمجھ لیں تو ہم یہ نتیجہ نکالنے کی غلطی کرجائیں گے کہ بھارت سنگاپور سے زیادہ ترقی یافتہ ہے ۔
چنانچہ جی ڈی پی کی فی کس شرح نمو میں پیہم اضافہ ہی ترقی کو جانچنے کا درست پیمانہ ہے ۔ جی ڈی پی کی فی کس شرح نمو کے حوالے سے نواز شریف کی قیادت میں پی ایم ایل (ن) کی حکومت (2013-2016) کے دوران شر ح نمو 2.7 فیصد رہی ، جبکہ مشرف دور میں یہ 2.4 فیصد تھی ۔ (جاری ہے)