حال ہی میں عالمی ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی ایک رپورٹ میری نظر سے گزری جس میں پاکستان کو ایشیا پیسفک خطے کا چوتھا بڑا کرپٹ ملک قرار دیا گیا ہے، رپورٹ میں رشوت ستانی کے حوالے سے اعدادوشمار کے مطابق 64فیصد غریب شہریوں کو اپنے جائز کام کیلئے بھی رشوت کا سہارا لینے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ، اپنے اختتامی کلمات میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے سربراہ جوز یگاز نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ انسدادِ بدعنوانی کیلئے باتیں ختم کرکے عملی اقدامات پر زور دے۔ اس رپورٹ نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم نے ایک پرامن تحریکِ پاکستان کے نتیجے میں آزاد مملکت تو حاصل کرلی لیکن ہم قیامِ پاکستان کے اغراض و مقاصد کو بھلا کر کرپشن کو اپنا مقصد حیات کیوں بنا بیٹھے ہیں؟ پاکستان کی ستر سالہ تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز میں کرپشن کی جڑیںروزِ اول سے ہیں جو وقت کے ساتھ مضبوط ہوتے ہوتے ایک ایسے ناسور میں بدل چکی ہیں جو ہمارے قومی وجود کو دن بدن دیمک کی طرح کھائے جارہا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد کلیم داخل کرانے کا معاملہ ہو یا بھٹو کے زمانے میں ادارے قومیانے کا ، ہرملکی ایشو پر کرپشن کی بازگشت سنائی دی جاتی رہی ہے، آزادی کے فوراََ بعد تحریکِ پاکستان کے مخلص کارکنوں کو کھڈے لائن لگانے کی پالیسی نے افسر شاہی اور وڈیروں کے راج کو تو مضبوط کیا لیکن بحیثیت قوم سماجی ناانصافی کا خمیازہ ملک دولخت ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا، آج بنگلہ دیش ترقی کی دوڑ اور انسدادِ بدعنوانی میں ہم سے کہیں آگے نکل گیا ہے۔ معاملہ صرف سابق مشرقی پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ چین، جنوبی کوریا، ملائشیا، جنوبی افریقہ سمیت بیشتر ممالک جو ہمارے بعد آزاد ہوئے وہ ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ ایسی بات نہیں کہ وہاں سوفیصدی کرپشن کا خاتمہ کردیا گیا ہے بلکہ سماج دشمن کرپٹ عناصر کو اداروں کے استحکام کی بدولت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا ہی انکی کامیابی کا راز ہے۔ آج اسمارٹ فون کے ڈیجیٹل دور میںمختلف قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ہماری انگلیوں کی دسترس پر ہیں،میں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ قوم تباہی و بربادی کا شکار ہوئی جس نے ایماندارانہ طرزِ زندگی کی بجائے کرپشن کا راستہ اختیار کیا، سوویت یونین مضبوط عسکری طاقت ہونے کے باوجود سماجی ناانصافی اور بدعنوانی عام ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گیا۔ خدا بھی اپنی عبادت سے زیادہ انسانوں سے باہمی معاملات میں فیئر رہنے پر زور دیتا ہے، افسوس ہم کسی کا حق مار کر کرپشن سے ہی کمائی حرام دولت کو خدا کی راہ میں خرچ کرکے اپنے آپ کو نیکوکار سمجھ لیتے ہیں جبکہ درحقیقت بے ایمانی سے کمائی دولت ایک لعنت ہے۔پاکستان کا معاملہ اس لحاظ سے بھی پیچیدہ ہے کہ ایک تو ہم نے کرپشن کو سیاسی نعرہ بنادیا ہے اور اپنے ہر مخالف کو کرپٹ قرار دینے کی پریکٹس نے اس سماجی ناسور کو سنجیدگی سے لینے کی اہمیت کھودی ہے اور دوسرے ہم زبانی کلامی تو کرپشن کو برابھلا کہتے نہیں تھکتے لیکن عملی طور پر اپنی اپنی بساط کے مطابق کرپٹ طرزِ زندگی کو اختیار کرنا باعثِ فخر کارنامہ سمجھتے ہیں، گزشتہ دورِ حکومت میں تو ایک وزیر کا یہ افسوسناک بیان بھی سامنے آیا کہ کرپشن ہمارے قومی کلچر کا حصہ بن گئی ہے۔ آج ہمارے ارد گرد ہر طرف بدعنوانی کا بازار گرم نظر آتا ہے، قومی ادارے بدعنوانی کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ہیں توالیکشن میں دھاندلی اور کرپشن کے الزامات حکومت کودفاعی انداز اختیار کرنے پر مجبور کیے ہوئے ہیں، ایلیٹ کلاس کاغذی کمپنیاں بناکر ٹھیکوں کے حصول کے ذریعے قومی خزانے میں خوردبرد اور بینکوں کے قرضے معاف کروانے میںمبینہ طور پر ملوث ہے تو مڈل کلاس کمیشن مافیا کے ہاتھوں یرغمال، دوسری طرف کاروباری طبقہ دودھ میں پانی ملانے اور ذخیرہ اندوزی کرکے اپنے منافع میں اضافے کا خواہاں نظر آتا ہے۔ پولیس کا محکمہ تو رشوت خوری میں بدنام زمانہ ہے ہی لیکن دیگر سرکاری اداروں میں بھی بدعنوانی ایک عام بات بن گئی ہے بلکہ ہماری قوم کااجتماعی طور پر مائنڈ سیٹ بن گیا ہے کہ سرکاری ادارے میںعام آدمی اپنے کام کے پکا ہونے کی گارنٹی رشوت طلب کرنے والے اہلکار کو سمجھتاہے۔ اسی طرح ملک بھر میں غیرمعیاری تعلیمی اداروں کی فراوانی،گھوسٹ اسکولوں اور اساتذہ کی شکایات، امتحانی پرچوں کی خریدوفروخت، جعلی ادویات کی فراہمی، عبادتگاہوں میں شدت پسندانہ نظریات کی ترویج، عدالتی کارروائی کیلئے جھوٹے گواہوں کی دستیابی،سرکاری ملازمتوں کے حصول کیلئے اقرباپروری، قومی اداروں میں نااہل سیاسی گماشتوں کی بھرتی وغیرہ یہ سب میری نظر میں وہ چند عوامل ہیں جو ہماری قومی ترقی کی را ہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ دوسری طرف وسیع پیمانے پر کرپشن کے اسکینڈلز عالمی سطح پر بھی ملک و قوم کا نام بدنام کرنے کا باعث بنتے ہیں جسکی وجہ سے عالمی برادری یہ سمجھتی ہے کہ پاکستانیوں کو قرضوں اور عالمی امداد کے ذریعے اصولوں پر سودے بازی کیلئے راضی کیا جاسکتا ہے، اس حوالے سے ا یمل کانسی کی امریکہ حوالگی کے بعد پاکستان کیلئے نازیبا الفاظ اور جنرل مشرف کا اپنی کتاب میں ڈالرز کے عوض بندے بیچنے کا اعتراف ہمارے قومی کردار پر ایک طمانچہ ہیں۔ مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ میں نے ستر سالہ ملکی تاریخ کے مطالعے کے دوران اوراپنی بیس سالہ پارلیمانی جدوجہد میںقائداعظم کے بعد کسی رہنماکو کرپشن کے خلاف حقیقی جدوجہد کرتے نہیں پایا، کرپشن کے نام پر پچھلی حکومتوں کو موردِالزام ضرور ٹھہرایا گیا لیکن کرپشن کا خاتمہ کرنے میں سنجیدگی نہیں دکھائی گئی۔ آج پاکستان کے باشعور عوام یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ آخر ایسا کب تک چلے گا؟کیا ہمارے آباؤاجداد نے قائداعظم کی قیادت میں کرپشن کے فروغ کیلئے آزاد ملک بنایا ؟ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے بلکہ پاکستان تو عالمی منظرنامے میں ایک ایسا قابلِ تقلیدجدید ملک بننے کیلئے وجود میں آیا تھا جہاں بسنے والے ہر شہری کو قابلیت اور میرٹ کی بنیاد پر ترقی کے مواقع میسر ہوں،خدا نے قائداعظم اور تحریکِ پاکستان کے ساتھیوں سے جو اعلیٰ کام لینا تھا وہ لے لیا ، اب یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم تحریکِ پاکستان کی طرز پر کرپشن فری پاکستان کے قیام کیلئے ملک گیر تحریک چلائیں، ایک ایسی پرزور سماجی تحریک جس میں ملک کے تمام صوبوں کے سب شہری بغیر کسی صوبائی، لسانی اور مذہبی تفریق کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر عہد کریں کہ ہم کرپشن کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے متحد ہیں۔ آج آزاد عدلیہ ، متحرک سول سوسائٹی اور میڈیا کی موجودگی میں کرپٹ عناصر کو بے نقاب کیا جاناماضی کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے،میں سمجھتا ہوں کہ کرپشن کرنے والے کوئی آسمانی مخلوق یا غیرملکی نہیں بلکہ ہمارے ہی عزیز و اقارب ہیں جنکی آنکھوں پر دولت کمانے کی ہوس نے پٹیاں باندھ رکھی ہیں،اس سلسلے میں جب تک کرپٹ عناصر کے چہروں پر سے معصومیت اور شرافت کا لبادہ اتار کر انصاف کا بول بالا نہیں کیا جاتا ملک و قوم کی تقدیر ترقی کے سفر میں ڈگمگا تی رہے گی لیکن ہمیں چند ایک کرپٹ عناصر کو سزا دلوا کر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ کرپشن کا مکمل خاتمہ ہوگیا، کرپشن کے خلاف جنگ ایک طویل المدتی اور مسلسل حکمت عملی کا تعین کرنے کا تقاضا کرتی ہے، ہماری ایک بڑی غلط فہمی بدعنوانی کو مالیاتی معاملات تک ہی محدود کرنا ہے لیکن کرپشن کی اقسام میں اخلاقی کرپشن، اقرباپروری، سفارش، ناجائز ذرائع کا استعمال اور دھاندلی وغیرہ بھی شامل ہیں۔میں کرپشن کے خلاف پاکستانی معاشرے کو آگاہی فراہم کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھتا ہوں کہ کسی حقدار کا حق مارنے کیلئے کرپشن کا راستہ اختیار کرناخدااور اسکی مخلوق کو ناراض کرنا ہے اوربے ایمانی کا انجام بالآخر تباہی و بربادی ہی ہوا کرتا ہے، اس حوالے سے میری یہ تجویز بھی ہے کہ ہمیں اپنے دوست ملک چین کوبطور رول ماڈل اپناناچاہیے کہ وہاں کیسے کرپشن پر ٹھوس بنیادوں پر قابو پاکربے مثال ترقی و خوشحالی کا حصول ممکن بنایا جاسکا۔پاکستان ہم سب کا ملک ہے تو پاکستان کو کرپشن سے پاک کرنا بھی ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔