• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

باخدا دیوانہ باشد، بامحمد ہوشیار...ناتمام…ہارون الرشید

مولوی صاحبان میں بھی فسادی موجود ہیں لیکن صاحب خرد آصف علی زرداری اپنے گورنر کو خاموش رہنے کا حکم دیں۔فساد نہ پھیلائیں ، وہ فساد نہ پھیلائیں۔ اللہ کے عذاب کو وہ دعوت نہ دیں۔
گفتگو جب دراز اور رات گہری ہو جاتی ہے تو ڈاکٹر خورشید رضوی کے لہجے میں گاہے خود کلامی اترنے لگتی ہے۔ ایسی ہی ایک ساعت میں کہا: اقبال# منفرد تھے اور تاریخِ انسانی کے کسی شاعر سے ان کا موازنہ موزوں نہ ہوگا۔ جہاں تک حسنِ بیاں کا تعلق ہے تو غالب # ہی سب سے بڑے ہیں۔ ہاں ! سب سے بڑے ہیں۔ اظہار کے تقاضوں سے خوب آشنا۔ فیض احمد فیض# نے کہا تھا: انسانی محسوسات کے سب تیور اس نے بیان کر دئیے۔ سرکار کے تذکرے میں سبھی کو عجز کا احساس ہوتا ہے لیکن درویش کے بقول ، اس تجربے کو موزوں ترین الفاظ اس نادرِ روزگار ہی نے عطا کیے

غالب# ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کاں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
( اللہ کی بارگاہ میں ، میں نے محمد کی ثنا کی۔ فقط وہی ایک ذات ِ پاک ہے، جو ان کے مقام و مرتبے سے آشنا ہے)۔ اللہ نے چھپایا تو نہیں۔ اس کی مقدس کتاب میں ، جس پر خود اسے ناز ہے ، جہاں کہیں سرکار کاتذکرہ ہے ، موتی ایک دوسرے رنگ کے ہیں۔ وما ارسلنٰک الّا رحمتہ للعالمین۔ ہم نے تجھے نہیں بھیجا، مگر دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنا کر۔ " اللہ اور اس کے فرشتے بھی محمد پر درود بھیجتے ہیں" "اپنی طرف سے وہ کچھ نہیں کہتے مگر وہی جو ان پر نازل کیا گیا“ ”مومنوں کے لیے (ان کی نجات کے باب میں) وہ حریص واقع ہوئے ہیں" چودہ صدیوں کے تاریک اورروشن زمانوں میں نعت کے ہزاروں چمکتے اشعار ہیں ۔ ان میں سے ایک اردو زبان کے دھیمے اور اجلے نعت گو ، حفیظ تائب کو بہت پسند تھا۔ ٹھہرٹھہر کر پڑھتے اور مفہوم و معانی کی مشعلیں جلاتے۔
ادب گاہیست زیر آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید ، جنید و بایزید ایں جا
(محمد کا مزار مبارک، آسمان تلے ایسی ادب گاہ ہے کہ عرش سے بھی نازک تر ، جنید و بایزید ایسے جلیل القدر یہاں سانس لینا بھول جائیں)۔ طارق پیرزادہ سے پوچھا کہ ابدالآباد تک زندہ رہنے والا یہ شعر کس کا کرشمہ ہے۔ کہا: بعض شاعر ہوتے ہیں کہ ایک ہی شعر انہیں نصیب ہوتا، مگر زندہ رکھتا ہے ۔عزت بخاری نام کے ایک صاحب تھے کہ مراد پاگئے۔
پچھلے دن اضطراب میں گزرے۔ ایسابھی ہوا کہ بے کلی نے نیند چھین لی۔ناموس رسالت کا موضوع ہے اوراظہار کی ہمت نہیں پڑتی۔
قلم ہے آبلہ پا اور مدح باقی ہے
ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
جو علم و ادراک رکھتا ہو۔ قانون کے اور چھور اورسیاق و سباق سے آشنا ہو، وہ بات کرے۔ ہم کیسے کریں۔ بس اتنا جانتے ہیں کہ ان کے بغیر ایمان نہیں، نجات نہیں، روشنی نہیں۔ کوئی امید اورامکان ہی باقی نہیں رہتا۔ اس دنیا میں وہ ہادی ، دوسری دنیا میں وہ شافع۔ خبط عظمت کے مارے اور اختراع پسند جاوید غامدی کو کوئی کیسے سمجھائے کہ ناموس رسالت پر کبھی کسی حال میں سمجھوتہ ممکن نہیں۔ پڑھے لکھے جاوید غامدی بہت ہیں مگر مقبولیت کی تمنا ، سیکولر کو آسودہ رکھنے کی آرزو۔ مسلمان کو گوارا کہ اس کی گردن کاٹ دی جائے لیکن سرکار کی توہین نہیں۔ جذباتیت نہیں ، یہ ساری عمر کے غور و فکر کا نتیجہ ہے ۔ مسلم تاریخ کے بہترین دماغوں ، سب سے زیادہ روادار رہنماؤں اور عارفوں کا شیوہ یہی تھا۔ صلیبی جنگوں کے ہنگام ، مسیحی جنگجو نے ، جسے کرک کا بھیڑیا کہا جاتا تھا اورہیرلڈلیم کے بقول خود عیسائی مورخ جسے پاگل کتّا لکھتے ہیں ، حرمِ پاک سے دمشق جانے والے قافلے کو روکا۔ مصیبت کی ماری مسلمان عورت نے دہائی دی "یا محمدا" اس شیطان نے کہا "چاہو تو آج اپنے خدا کو بھی پکار لو ،آج رہائی نہیں" صلاح الدین ایوبی کو اطلاع دی گئی اور مغربی مورخ مانتے ہیں کہ اس سے زیادہ روادار حکمران کبھی نہ دیکھا گیا ۔ اس نے کہا : خدا کی قسم اس آدمی کو میں اپنے ہاتھ سے قتل کروں گا۔ حطین کی جنگ کے بعد ، جس میں پوری صلیبی فوج کھیت رہی ، کرک کا بھیڑیا اوردوسرے سردار گرفتار کر کے لائے گئے ۔ بادشاہ بالڈن کو سلطان نے گلاب کا شربت پیش کیا ۔ عربوں کا دستور تھا کہ دشمن کو پینے کے لیے کچھ عنایت کر دیں تو جان بخش دیتے ۔ ایک گھونٹ پینے کے بعد کوڑھی بالڈن نے گلاس بھیڑیے کی طرف بڑھایا تو ہمیشہ کے ٹھنڈے لہجے میں سلطان نے کہا "یہ میں نے اسے نہیں دیا ہے" پھر اس کا بازو پکڑا، خیمے سے باہر لے گیا اور وہ تلوار بے نیام کی ، جس کے بل پر بیت المقدس کو آزاد ہونا تھا ۔ سیکولر نہیں ، سیکولر نہیں سمجھ سکتا کہ مسلمان کو سرکار اپنی جان، اپنی اولاد اور اپنے ماں باپ سے زیادہ عزیز ہوتے ہیں ۔ شخصیت نہیں ، بخدا وہ ایک شخصیت نہیں ہیں ۔ محض ایک ادارہ بھی نہیں ۔ اسلام کی ساری عمارت تین ستونوں پر کھڑی ہے ۔ اللہ ، اس کا رسول ا ور اس کی کتاب۔ اللہ کی طرف وہ لے گئے اور کتاب ان پر اتری ۔ سیدہ عائشہ صدیقہ سے پوچھا گیا: جناب کے اخلاق کیسے تھے۔ فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ، گویا یہ کہا کہ وہ مجسم قرآن تھے۔
وہی قرآ ں ، وہی فرقاں ، وہی یٰسیں ، وہی طٰہٰ
دوسری طرف سرکار کا حکم دیوار بن کر کھڑا ہے۔ سرتابی کی مجال نہیں کہ سرتابی کفر ہے ۔ حکم دیتے رہے اور دمِ رخصت یاددہانی فرمائی کہ غیر مسلموں کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں کے ذمّے ہے ۔ ناموسِ رسالت کے قانون پر قطعاًنہیں لیکن اس کے غلط استعمال پر بھی ہرگز کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں ۔ آدمی ؟ آدمی تو بہت محترم ہے ۔ ایک جان کو جس نے بچایا ، ساری انسانیت کو بچایااور ایک معصوم کو جس نے قتل کیا ، ساری آدمیت کو مارڈالا۔ محمدﷺ تو تمام موجودادت کے لئے باعث رحمت تھے اوریہ کتاب میں لکھا ہے ۔ لکھا ہے کہ فتح مکہ کے لیے دس ہزار قدوسیوں کا لشکر صحرا سے گزرتا تھا ۔ آپ نے دیکھا کہ کتیا نے بچے دے رکھے ہیں ۔ حکم دیا کہ پہلو بچا کر نکلو ۔ پھر وہ مکہ میں داخل ہوئے ، جہاں انہیں قتل کرنے کے آرزومند مکین تھے۔ جہاں ان کا انکار ہوا ، انہیں گالی دی گئی ، ان پر کوڑا پھینکا گیا۔ ارشاد مگر یہ ہوا "لا تثریب علیکم الیوم"آج تم سے کوئی باز پرس نہیں۔ توہین رسالت کو شیوہ بنا نے والوں کے بارے میں البتہ حکم صاد رہوا کہ غلاف کعبہ کے پیچھے ہوں، تب بھی قتل کر دئیے جائیں۔ ان کا نہیں ،یہ اللہ کا حکم تھا ۔ محمدﷺکی توہین ما لک کو گوارا نہیں ۔
سیاسی حرکیات، علم دین اور تاریخی شعور سے بے بہرہ سلمان تاثیر کو خاموش رہنا چاہئے ۔ انکا مقام و مرتبہ نہیں کہ اس عنوان پر گفتگو کریں۔ اہل علم اور اہل سیاست میں سے سنجیدہ لوگ تنہائی میں بیٹھ کر بات کریں۔ یہ اخبار ، ٹیلی ویژن اور سیاست کا موضوع نہیں ،ناموس مصطفی کا سوال ہے
لوح بھی تو ، قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
قطب الاقطاب شیخ عبدالقادر گیلانی کے فرزند یوسف رضا گیلانی فرماتے ہیں : پریشانی کیا ، ملک نہ ٹوٹ جائے گا۔ جی ہاں ، سلمان تاثیر ایسوں کے باوجود انشاء اللہ ہرگز نہ ٹوٹے گا لیکن سڑتا جا رہا ہے ۔ مولوی صاحبان میں بھی فسادی موجود ہیں لیکن صاحب خرد آصف علی زرداری اپنے گورنر کو خاموش رہنے کا حکم دیں۔ وہ فساد نہ پھیلائیں۔ اللہ کے عذاب کو وہ دعوت نہ دیں۔
باخدا دیوانہ باشد بامحمد ہوشیار
تازہ ترین