• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیسری اردو کانفرنس ۔ کتاب کا چھَپ کر چھُپنا...ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کی انجمن ترقی اردو میں آمد...نقارخانے میں…جمیل الدین عالی

عالمی اردو کانفرنس میں بھارت سے تشریف لائے ہوئے ممتاز ماہر تعلیم و نقاد جامعہ دہلی کے پروفیسر ڈاکٹر ارتضیٰ کریم درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ آل انڈیا یونیورسٹی کے ہندی اردو ساہتیہ ایوارڈ کے رکن اور 20 کتابیں تخلیقات کیں، بے شمار اہم ایوارڈ حاصل کرچکے ہیں۔ انجمن نے اپنے معزز مہمان پروفیسر ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کے اعزاز میں ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں شہر کی اہل علم شخصیات نے شرکت کی۔ افسوس کہ ناچیز اس تقریب میں علالت کے باعث شرکت سے محروم رہا نیز انجمن کے صدر محترم آفتاب احمد خاں بھی اسلام آباد میں اپنی مصروفیات کے باعث شریک نہ ہو سکے۔
انجمن کے نائب معتمد اعزازی اور مشیر مالیات اظفر رضوی نے ان کی انجمن آمد پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بے پناہ مصروفیات کے باوجود ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کی آمد سے ہمارا تعلق آگے بڑھے گا۔ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم نے اپنے کلیدی خطبے میں فرمایا: انجمن کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے یہ موقع فراہم کیا، یہ میرا پہلا سفر ہے یہاں بہت سی چیزیں محسوس کی ہیں ان کو جذب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں اور وہاں پہنچ کر لکھوں گا۔ جو دل کا حال ہے وہی دلّی کا حال ہے، جہاں تک اردو کی ترقی و ترویج کا تعلق ہے اردو زبان کا مستقبل کیا ہے؟ سیدھی بات ہے کہ آپ کا مستقبل کیا ہے؟ آپ اپنا مستقبل نہایت آسانی سے تلاش کرسکتے ہیں، وہاں سازشی عناصر زیادہ ہیں۔ ہمیں ایک منظر نامے سے مخصوص کر دیا گیا لیکن وہ کامیاب نہیں۔ بہرحال ہمیں ہر وقت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرنی پڑ رہی ہے کہ میں چور یا غدار نہیں ہوں یا میں آپ سے مختلف نہیں ہوں۔ پیغام محبت پہنچانے والوں کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں اردو اخبارات و رسائل کثرت سے پڑھے جاتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ادیب و شاعر اردو اخبار خریدنا کسر شان سمجھتے ہیں۔ یہاں میں کہوں گا کہ زبان مٹنے کے ذمے دار تو آپ خود ہیں۔ مسائل، ادبی خبریں، دنیا میں کیا فیصلے ہو رہے ہیں اسے پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اردو کو حیدرآباد دکن، بہار اور مہاراشٹر والوں نے بچا کے رکھا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں بھی انجمن ترقیٴ اردو اور صوبائی اردو اکیڈمیاں وغیرہ موجود ہیں صرف جو قومی کونسل ہے اس کا بجٹ آٹھ سوکروڑ روپے ہے۔ اس پر بھی کہا جاتا ہے کہ یہ اگر کم ہیں تو آپ مزید سو دوسو کروڑ روپے لے سکتے ہیں۔ قومی کونسل مختلف کام کر رہی ہے ایک کروڑ روپے کی کتابیں خریدی جاتی ہیں اور مفت بانٹ دی جاتی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں پرائیویٹ اسکولوں اور کالجوں نے اردو کو بچا کے رکھا ہے۔ افسوس کہ مدرسے کا جال بچھا دیا گیا ہے لیکن مدرسوں سے بات نہیں بنے گی کیوں کہ اہل مدرسہ ذہانت دباتے ہیں اور ادب کو شجر ممنوعہ قرار دیتے ہیں، پھر فروغ کیسے ہوگا۔ ہمارا قصور ہے کہ ہندوستان کی سطح پر اس زبان کی حفاظت نہیں کی۔ ان کے بچے اردو سے نابلد ہیں المیہ ہے کہ اردو میں گفتگو سے بھی پرہیز کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم نے کہا زبان کوئی بھی ہو اس کا تعلق سماعت سے ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جوگندر پال، رتن ناتھ سرشار نے کہاں سے اردو سیکھی ، ظاہر ہے گھر سے آس پاس کے ماحول سے، جب ہم ماں کی عزت و تکریم کرتے ہیں تو ہمیں اپنی مادری زبان اردو کی بھی فکر کرنی چاہیئے اردو کا روزگار سے کسی بھی پیشے سے گہرا تعلق ہے اردو میں بڑا اسکوپ ہے اس میں مہارت ہونی چاہیئے جس زبان میں بھی مہارت حاصل کریں، بے روزگاری نہیں ہو گی ہمارے ہاں اس وقت بھی جس زبان میں بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ آج لاکھوں میں کھیل رہے ہیں صرف ڈگری حاصل کرنے کا نام علم نہیں۔ ہمارے ہاں جو بچہ اردو پڑھ رہا ہے بے روزگار نہیں ہے کسی بھی مضمون میں ستر فیصد مارکس حاصل کرنے والے کو 30 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔ اردو کے لئے سرکار نے ماحول پیدا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک المیہ ہمارے سامنے اور ہے کہ ہمارے لیکچرر صرف ملازمت کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اساتذہ کے نوٹس یاد کر رکھے ہیں ان سے کام چلا رہا ہوں، کتابوں کا کیا کرنا وہ تو مچان پر رکھ دی ہیں۔ اردو زبان بے ایمانی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اب رشید حسن خان، تنویر علوی، قمر رئیس، گوپی چند نارنگ جیسے لوگ کہاں ہیں؟ سناٹا نظر آرہا ہے اردو کا منظر نامہ افسوس ناک ہے۔ ڈاکٹر جمیل الدین عالی، ڈاکٹر جمیل جالبی ، ڈاکٹر انور سدید، ڈاکٹر وزیر آغا جیسے لوگوں کے بعد کے لوگ کہاں ہیں؟ وہ کہکشاں اب کہاں ہے۔ کچھ تو امکانات ہونے چاہئیں سرحد کے دونوں طرف کام کی وجہ سے انہیں لوگ جانتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے گھروں سے اردو کے ارتقاء کی بات کرنی ہوگی۔ ہم کب تک اپنی ذمے داری سے بھاگتے رہیں گے۔ شوق اور ماحول ٹوٹ رہا ہے۔ اس زبان نے کسی کا کیا نقصان کیا ہے۔ ہم نے اپنے بچوں کا مستقبل صرف ڈاکٹر اور انجینئر بنانے میں کیوں تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادب اور اردو زبان کے نقصان میں گروپنگ کا بڑا لینا دینا ہے۔ A.B.C.D گروپ ہیں۔ A والا بڑا نقاد تسلیم کر لیا گیا ہے سب سے بڑا نقصان اسی سے پہنچا ہے۔ ترقی پسند اوائل میں بڑی حد تک مخلص تھے کچھ غلطیاں ہم سے بھی ہوئی ہیں اس کے بھی اثرات پڑے ہیں۔ صرف گزشتہ پچیس سال کا عرصہ ادب میں ا گر ہم دیکھیں تو اس کی تلافی ابھی تک نہیں ہو سکی ہے۔ ”ہم“ غائب ہوگئے ہیں اور ”میں“ شامل ہو گیا ہے ۔ افسانے آج بھی لکھے جا رہے ہیں، شاعری بھی ہو رہی ہے لیکن کچھ سامنے نہیں آرہا ہے۔ دلوں میں کشادگی پیدا کر کے ہی ہم اپنے مقصد کو پا سکتے ہیں۔ اس وقت احساس کمتری نمایاں ہے، اپنی شناخت چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے ایسا کیوں ہے؟ ایسی چیزیں چھپ نہیں سکتیں۔ گفتگو سے شناخت ہو جاتی ہے۔ زندگی کوگزارنے کے لئے بے خطر سفر کریں۔ ہمارے ہاں خوف کا اور خطرے کا کوئی ماحول نہیں ہے لوگ عزت دیتے ہیں۔ مراعات میں کوئی کمی نہیں ہے۔ موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ جس زبان نے ہمیں عزت دی اس کے لئے کام کریں۔ اردو دشمن وہاں بہت ہیں لیکن ہم اپنا فرض ادا کر رہے ہیں، ہمیں عزم کرنا ہوگا، جواب تلاش کرنا ہوگا بالآخر اس زبان اور تہذیب کو سنبھالنے کی ذمے داری کس کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں تقریباً ایک ہزار طالب علم ہر عمر کے اردو سیکھنے آتے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہوتی وہ سارے غیر مسلم ہوتے ہیں ان کو ہر قسم کی سہولت دی جاتی ہے ان کے لئے یونیورسٹی سے ان کے مختلف علاقوں تک بسیں چلتی ہیں۔ ان سے سوال کیا گیا کہ اردو زبان کیوں سیکھ رہے ہیں؟ تو وہ کہتے ہیں اردو بڑی میٹھی زبان ہے 30 فیصد کہتے ہیں کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے جبکہ 70 فیصد کا کہنا ہے کہ یہ ہم سب کی زبان ہے۔ بہر حال یہ سیاسی بازی گری اورشعبدہ گری تھی کہ یہ ایک خاص فرقے کی زبان ہے۔ ہمارے وزیراعظم من موہن سنگھ صرف اردو اور انگریزی جانتے ہیں اور اردو ہی میں بات اور تقریر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنی بربادیوں سے ناواقف ہیں نئی نسل سے اس زہر کو نکالنا ہو گا۔ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم نے اپنے کلیدی خطبے کے بعد سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ادب میں جدیدیت کے نام پر دہشت گردی ہوئی ہے۔ ہمارے ہاں سائنسی علوم کے حوالے سے بھی کام ہو رہا ہے اس سلسلے میں میڈیا بھی بڑا ذریعہ ہے اس میں بھی اردو کے تعلق کے حوالے سے کام کر رہے ہیں۔ ابن صفی، کھلونا، بانو کا ماحول واپس لانے کی ضرورت ہے۔ اردو کی دلچسپی کے لئے گھر سے کام کرنا ہوگا۔ غالب، ناصر کاظمی، داغ کی غزل اب گلو کار جگ جیت سنگھ کی غزل ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ آج کے دور میں کتاب چَھپ کر چُھپ رہی ہے۔ اسے پڑھنے کی ضرورت ہے کتابوں کی خریداری میں کون سی مجبوری ہے کہ غزلوں اور گانوں کی کیسٹ تو بڑی تعداد میں فروخت ہو رہی ہیں لیکن کتاب کی خریداری میں جی چرایا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود اردو زبان بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ یہ رابطے کی اور عوام کی زبان ہے، یہی وجہ ہے کہ اردو نے تمام زبانوں کے الفاظ کو اپنے اندر سمو لیا ہے۔
انجمن ترقی اردو پاکستان کے نائب معتمد اعزازی و مشیر مالیات اظفر رضوی ، ممتاز احمد خان اور شہاب قدوائی نے ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کو انجمن کی کتابوں کا تحفہ پیش کیا۔ جبکہ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم نے اپنی دو کتابیں دہلی اردو اخبار 1841 اور دہلی اردو اخبار 1857 انجمن کو پیش کیں اور خواہش کا اظہار کیا کہ ان کتابوں کو انجمن شائع کرے۔
میر# نے اردو غزل کو زندگی سے قریب کیا، اس میں صداقت اورخلوص کے عناصر پیدا کئے، اس کو سماجی زندگی کے مدو جزر سے آشنا کرنے کی کوشش کی ۔ میر# کی ان خصوصیات نے اردو غزل کو وہ سب کچھ دیا جس کی اسے ضرورت تھی، اس کو سنوارنے اور نکھارنے میں ان کا کوئی بھی ثانی نہیں، وہ اس اعتبار سے منفرد حیثیت کے مالک ہیں۔ چار روزہ تیسری عالمی اردو کانفرنس آرٹس کونسل میں دنیا بھر سے آئے ہوئے ایسے نمائندہ اہل علم و دانش کا اجتماع تھا جو اپنے عہد کی شناخت ہیں۔کانفرنس سے اردو ادب سے وابستہ ملکی و بین الاقوامی ادبی شخصیات نے خطاب کیا۔ شہر کی ممتاز علمی، ادبی وثقافتی شخصیات، یونیورسٹی اور کالج اساتذہ ، طلبہ و طالبات اور صحافیوں نے بھی بھرپور شرکت کی۔ کانفرنس کی مختلف نشستوں میں شاعری اور فکشن کے تازہ ترین رجحانات، ذکر میر# بسلسلہ دو صد سالہ برسی، اردو طنز و مزاح کے یادگار نقوش جب کہ اردو میں جدید سائنسی، معاشی اور فکری تراجم کی ضرورت کے موضوع پر گفتگو کی گئی۔ پہلے افتتاحی اجلاس میں اسٹیج پر عزیزی ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ان کے بعد صدر انجمن ترقی اردو پاکستان آفتاب احمد خان ، لطف اللہ خان، ڈاکٹر اسلم فرخی، رضا علی عابدی (از لندن) مجاہد مرزا (ازروس) انتظار حسین، ڈاکٹر ارتضیٰ کریم (ازدہلی) ڈاکٹر ارینا میکسیمنگو (ازروس) اور ابراہیم محمد ابراہیم (ازمصر) موجود تھے۔
انجمن ترقی اردو پاکستان کے صدر آفتاب احمد خان نے تیسری عالمی اردو کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عاشقان اردو کا یہ عظیم الشان اجتماع ہماری تہذیبی روایات کی ترجمانی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کے لئے کارنامے انجام دینے والی ملکی و بین الاقوامی شخصیات کی اس کانفرنس میں گفتگو سے نئی نسل کے فکری و نظری رجحانات میں علم و ادب کا چراغاں بھی ہوگا۔ ناچیز کو اپنی علالت کے باعث ذاتی طور پر اس عالمی اردو کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا دلی افسوس ہے کہ میرے دیرینہ دوستوں کے اردو زبان و ادب کے بارے میں ان کے گراں قدر خیالات سے استفادے کا مجھے بھی موقع ملتا جو کہ اس وقت نہیں مل رہا، بہر حال ان قد آور اور تاریخی شخصیات کی آمد ہم سب کے لئے فخر اور خوشی کا کام ہے۔ اس موقع پر انجمن کے نائب معتمد اعزازی اور مشیر مالیات اظفر رضوی نے کہا کہ شہر کراچی اردو زبان وادب سے محبت نبھانے والوں کا ایک بڑا اہم مرکز ہے۔ عالمی اردو کانفرنس میں یہاں کے لوگوں کی ہمیشہ بھرپور شرکت ہوتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس بار بھی اس تیسری عالمی اردو کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالے تشنگان علم و ادب کو طویل عرصے تک سیراب کرتے رہیں گے۔ انجمن ترقی اردو کے ارباب بست و کشاد اس کانفرنس کی کامیابی کے متمنی ہیں۔ عالمی اردو کانفرنس میں انجمن ترقی اردو پاکستان کے کتب اسٹال پر شرکاء مندوبین اور عوام کی زبردست دلچسپی دیکھنے میں آئی جس میں بابائے اردو اور اردو ادب کی معروف شخصیات کی شہرہ آفاق کتابیں بھی رکھی گئیں۔
افتتاحی اجلاس میں تین کلیدی مقالے رکھے گئے تھے جو ڈاکٹر اسلم فرخی اور رضا علی عابدی نے پڑھے البتہ شمس الرحمن فاروقی نے دہلی سے ٹیلیفونک خطاب کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ شمس الرحمن فاروقی نے اپنے پاکستان نہ پہنچ پانے کی معذرت کرتے ہوئے بتایا کہ پچھلے دنوں وہ بیرون ملک دو ماہ کی مسافت کے بعد بیمار ہو گئے تھے ورنہ ضرور شرکت کرتے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ اگلے سال منعقد ہونے والے فیض سیمینار میں ضرور شرکت کریں گے۔ شمس الرحمن فاروقی نے کہا کہ میر# ہمارے سب سے بڑے شاعر ہیں ان سے غالب نے بھی بہت کچھ لیا ہے۔ میر# کے اشعار میں فوری اثر انگیزی کا جوہر ہے جو غالب میں نہیں۔ میر انسانی عظمت کا احترام سکھاتے ہیں، میر نے فارسی شعر سے بڑھ کر شعر کہا اور ان کے یہاں معانی کی کثرت ہے۔ (غالب پر ان کا تبصرہ بحث طلب ہے۔ ناشر)
پروفیسر سحر انصاری نے مندوبین، مقررین اور سامعین کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ میر کا مرتبہ بہت بلند ہے، ان کے کلام میں ہمہ گیر تاثیر ہے اسی لئے وہ زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ بی بی سی کے رضا علی عابدی سے ایک دنیا واقف ہے۔ انہوں نے ”جرنیلی سڑک“ جیسی کتاب کے علاوہ بھی بہت کچھ لکھا ہے۔ وہ افسانہ نگار بھی ہیں عام اردو بولنے والے تو خبروں اور ”سیربین“ کے حوالے سے ان کے حسین لہجے کے دیوانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میر کا کلام اعلیٰ درجے کا ہے۔ انہوں نے محاوراتی زبان کی شان پر مُہر لگا دی ہے۔ میر نے شاعری کو ”دل کا نگر“ کہا ہے۔ وہ صرف خدائے سخن ، نہیں بلکہ خدائے اردو زبان بھی سمجھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی نے جو کلیدی مقالہ نگار تھے اپنے مخصوص اور دل نشین اسلوب میں میر# کی زندگی، شخصیت اور فن پر بھرپور گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ میر# لکھنئو پہنچے جو نواب آصف الدولہ کی سربراہی میں ایک نیا تہذیبی مرکز تھا۔ یہاں میر# کے جوہر کھلے، اعلیٰ شاعری کی، بہت اونچے اڑے۔ ریختہ کوبلند کیا، زندگی کے مسائل دل نشین انداز سے بیان کئے ان کا کلام سن کر تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید دلائل دیئے اور کئی اشعار سنا کر سماں باندھ دیا۔ اس کے بعد آوازوں کی دنیا کے بادشاہ لطف اللہ خان صاحب تشریف لائے۔ انہیں حال ہی میں اکادمی ادبیات پاکستان کی جانب سے ”کمال فن“ ایوارڈ بھی عطا ہوا ہے۔ انہوں نے میر# کے متعلق نہایت عمدہ باتیں کیں اور برسبیل تذکرہ یہ بھی کہا کہ ان کے پاس میر# کے موضوع پر ایک طویل ریکارڈنگ موجود ہے جس سے نئی نسل استفادہ کر سکتی ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری تشریف لائے تو انہوں نے میر# پر جاری سیمینار کو تاریخی واقعہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ میر# نے سہل زبان میں یعنی دو مصرعوں میں فکری گہرائی کے ساتھ بڑی باتیں کی ہیں جس کی بنیاد پر ان کا کلام آج بھی شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ یوں لگتا ہے میر# شعر نہیں کہتے بلکہ سامعین وقارئین سے باتیں کرتے ہیں۔ اقبال# سے قبل میر# اور غالب# ہی تھے۔ میر# نے خود نوشت اورتذکرے کی بنیاد ڈالی اوروہ بہت ذہین شاعر تھے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کو آرٹس کونسل کی جانب سے انکی طویل ادبی و علمی خدمات کے اعتراف میں ایک شیلڈ بھی دی گئی ہے۔ اردو افسانے اور ناول کے قد آور فن کار انتظار حسین نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا کہ ہم نے غالب# کا وظیفہ جی بھر کر پڑھا۔ یہ وظیفہ طویل عرصے جاری رہا۔ اب ہمیں پتا چلا کہ کہتے ہیں کہ اگلے زمانے میں کوئی میر# بھی تھا تو صاحبو! اب ہم ان کا وظیفہ پڑھ رہے ہیں وہ بھی غالب# کی طرح بڑے شاعر ہیں۔ انہیں عشق کے تجربے کے حوالے سے یاد کیا جاتاہے مگر وہ تو زندگی کے دوسرے مسائل کی بھی تصویر کشی کر رہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ غزل کی بھی محدودات ہوتی ہیں۔ میر# نے یہ کیا کہ وہ جو باتیں غزل میں نہ کہہ سکے مثنوی میں کہہ ڈالیں۔ جس میں غم ذات، غم روزگار اور غم کائنات سب کچھ ہے۔ انہوں نے معاشرے کا بھی حال چال لکھا ہے اور یہ کہ مثنوی ان کی غزل کا توسیعی استعارہ ہے۔
اس اردو کانفرنس سے اخذ نتائج اور مباحث خیال میں حاصل بحث کے طورپر نہایت اعتماد کے ساتھ یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ اردو ادب اپنے نئے خیالات کی حسن افروز شان، اظہار کی متانت اور بیان کی پرزور قوت لئے اپنی اثر پذیری کے ساتھ نہایت کامیابی سے اپنے ارتقاء کی منزلوں پرسرگرم سفر ہے۔ ادب کی اس اثرگر کامیابی اور اس کے اظہار میں کیا عالمانہ تجمل اور انسانی ادب و احترام کی کیا کیا حالتیں ظہور پذیر ہورہی ہیں۔ اس اجتماع کو کانفرنس، مجلس خیال، سیمینار خواہ کوئی بھی نام دے لیجئے اہل نظر کے سنجیدہ چہروں کو دیکھیے جن کی قوت ادراک کا ہر پہلو ہمہ تن متحرک نظر آتا ہے۔


تازہ ترین