سب سے پہلے اک معذرت، اک تصحیح اور اعتراف لیکن اس سے بھی پہلے اس کی مختصر سی تمہید اور پس منظر۔ میرے ساتھ داد بیداد کا کھیل اکیس برس کی عمر سے ہی شروع ہو گیا جب میں نے سرور سکھیرا صاحب کی دعوت پر ان کا نوزائیدہ ماہنامہ ”دھنک“ جوائن کر لیا۔ اس ”دعوت“ کا بیک گراؤنڈ بھی دلچسپ ہے۔ میں نے حلقہ ارباب ذوق میں اک نظم پڑھی جس نے میرے کیریئر کی بنیاد رکھ دی ورنہ تب میرا فوکس شاعری پر تھا۔ ”دھنک“ نے دیکھتے ہی دیکھتے تہلکہ مچا دیا اور یوں داد بیداد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر چند سالوں کے اندر اندر کیفیت کچھ ایسی ہو گئی کہ تعریف اور تنقید سب کچھ ثانوی ہو کر رہ گیا۔ نہ تعریف اچھی نہ تنقید بری، دونوں کو ہی ”پارٹ آف دی گیم“ سمجھ کر نارمل ہو گیا۔ ایک کان سے سنا، دوسرے سے نکال دیا۔ نہ دماغ پر کوئی اثر نہ دل پر لیکن ایک کمزوری ہمیشہ موجود رہی اور اب بھی ہے کہ جب کبھی کسی صاحب کمال و جمال نے سراہا تو اک ناقابل بیان قسم کی سرخوشی طاری ہو گئی جیسے کسی کو ضعف میں گلوکوز کی ڈرپ لگ جائے مثلاً اپنی زندگی کے چند آخری سالوں میں لازوال گیتوں کے خالق شاعر قتیل شفائی بہت محبت سے یاد کیا کرتے۔ ان کا بیٹا نوید قتیل میرے قریبی دوست ابرار کا کولیگ ہے۔ قتیل صاحب نوید کو… نوید ابرار کو اور وہ مجھے پیغام دیتا یوں ہم مل بیٹھتے۔ اسی طرح اقبال بانو میری فیورٹ گلوکارہ تھیں جس دن آپ نے فون پر بتایا کہ میری ”فین“ ہیں اور ساتھ ہی فیملی سمیت اپنے گھر مدعو کیا تو وہ اپنی ہی قسم کا تجربہ تھا۔ پھر میری نعت پر احمد ندیم قاسمی صاحب کی آنسوؤں میں بھیگی فون کال اور اک ایسی پیش گوئی جس کا حوالہ مناسب نہیں۔ ہندوستان کے اک سفر دوران دی عبداللہ حسین جیسے شخص سے پہلی ملاقات جس میں بولے… ”تمہارے جملے تو ہمارے گھر میں ”کوٹ“ ہوتے ہیں، اہلیہ کہتی ہیں ”تورا بورا کر دوں گی“۔ چند ماہ پہلے میں بیرون ملک تھا جب عطاء الحق قاسمی کی طرف سے ”اقربا پروری“ میں ڈوبا ہوا اک تبصرہ عطاء ہوا اسی طرح شکیل عادل زادہ جیسے مسحور کن اور قادر الکلام نثر نگار جو مجھے کمزوری کی حد تک پسند ہیں۔ ان کی طرف سے داد تو کیا عرض کروں… ”کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔“ پچھلے دنوں میں نے کالم میں ”عش عش“ کیا تو محبی و محترمی شکیل عادل زادہ نے یاد فرمایا اور بتایا کہ ”عش عش“ ”عین“ سے نہیں ”الف“ سے ہوتا ہے، ڈکشنری دیکھ لیجئے۔ شکریہ کے بعد عرض کیا ”شکیل بھائی! آپ ڈکشنری سے کم مستند نہیں۔ میرے لئے آپ کا کہا ہی کافی ہے“ سو میں اپنے قارئین سے اس ”عش عش“ پر معذرت خواہ ہوں اور اس بات پر ”اش اش“ میں مصروف ہوں کہ زندگی بھر جہاں دیکھا ”عش عش“ ہی دیکھا۔ سچ یہ ہے کہ انسان زندگی بھر سیکھتا رہتا ہے اور وہ خوش بخت ہے جسے کوئی بتانے سکھانے والا بھی ہو۔
اور اب آخر پر پھر وہی روٹین کی جھک جھک مثلاً
حسب معمول امریکہ کے خلاف بیان بازیاں جاری ہیں تو میں بھی حسب معمول وہی بات کروں گا جو مختلف انداز میں اکثر کرتا رہتا ہوں کہ اللہ کے بندو! عظیم لیڈرو! امریکہ کی طاقت سے لڑنے کی خواہشیں پالنے کی بجائے اپنی کمزوریوں سے لڑنا شروع کرو تو کہیں بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں لیکن افسوس یہ ”مرگ بر امریکہ گروپ“ گمراہ لوگوں کو راہ راست کی طرف آنے ہی نہیں دیتا۔
ادھر صدر زرداری نے کمال کر دیا۔ فرماتے ہیں … ”عدلیہ سے کہا ہے کہ بھٹو کا کیس دوبارہ کھولیں۔ انہیں تاریخ میں جائز مقام دلانے کے لئے ایسا کہہ رہے ہیں۔“ کیا صدر صاحب نہیں جانتے کہ تاریخ کا ترازو باقی ہر ترازو سے ماورا و بے نیاز ہوتا ہے اور اگر تاریخ کا یہ ترازو بھٹو کو اس کا مقام نہ دے چکا ہوتا تو آج آپ صدر مملکت کیسے ہوتے؟ تاریخ کا ترازو بھی گبر سنگھ کے غصہ کی مانند ہے جس نے کہا تھا … ”کبر کے غصہ سے تمہیں صرف ایک ہی شخص بچا سکتا ہے …خود گبر۔“ تاریخ کے فیصلے بھی صرف تاریخ ہی کرتی ہے جسے یقین نہ آئے وہ سقراط، جون آف آرک اور گیلیو سے لے کر بھگت سنگھ تک جیسی لاتعداد داستانیں دیکھ لے۔
عجیب لوگ ہیں ہم بھی۔ اسے گئے کتنے دن ہو گئے لیکن ”ریمنڈ ریمنڈ“ کی رٹ لگائے جا رہے ہیں لیکن کب تک؟ ہر چھوٹی بڑی بات کو اک تماشہ بنا کر تماش بینی شروع کر دیتے ہیں۔ شاید ہی کبھی کسی شور شرابے اور تماشے کا کوئی نتیجہ بھی نکلا ہو لیکن ”کھایا پیا کچھ نہ گلاس توڑا چار آنہ“ والی بیشمار بے فیض ایکسرسائزز کے باوجود سیکھنے سوچنے سمجھنے کی طرف مائل نہیں ہوتے تو اس قابل رشک ”عزم و استقلال“ اور ”ثابت قدمی“ پر اش اش نہ کریں تو کیا کریں؟