• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انشاء اللہ العزیز، انشا ء اللہ العزیز...ناتمام…ہارون الرشید

من مانی کرنا وہ جانتے ہیں مگر حکومت نہیں۔ ان کا اثاثہ طاقت اورچالاکی کے سوا کچھ بھی نہیں۔عہدِ نو کے تقاضوں سے یکسر بے خبر لوگ، وقت جنہیں اپنے حال پر چھوڑ کر آگے بڑھ جائے گا۔انشا ء اللہ العزیز، انشاء اللہ العزیز۔
ابھی ابھی میرے موبائل فون پر موصول ہونے والا پیغام یہ ہے "ہمارے جواں سال ڈاکٹروں کے اتفاقِ رائے ، ہمارے محترم اساتذہ ، میڈیا اور پنجاب حکومت کی درخواست پر ، صحت کے عالمی دن کے موقع پر ہم نے ہسپتالوں میں ایمرجنسی کی خدمات بحال کرنے کا فیصلہ کیاہے…مرتے ہوئے لوگوں کو بچانے کے لیے ! " شکر ہے ، اللہ کا شکر ہے کہ ناراض ڈاکٹروں نے بالآخر ادراک کیا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کے مرتکب ہوئے۔ بالآخر میڈیا فیصلہ کن کردار ادا کرنے میں کامیاب رہا۔ خدا کا شکر ہے کہ پنجاب حکومت نے سینئر ڈاکٹروں پر مشتمل اعلیٰ اختیاراتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے وگرنہ معلوم نہیں ، کب تک ہسپتالوں میں بے بس ، غریب اور لاچار مریض ایڑیاں رگڑتے اورمرتے رہتے۔
یہ ایک باقاعدہ کالم نہیں۔ کئی دن سے طبیعت خراب ہے ۔ شب بھر جاگتا اور ظہر تک سویا رہتا ہوں۔ اس سے قبل ایک پورا ہفتہ سفر میں گزرا اور اس حال میں کہ پاؤں پر چوٹ لگی تھی۔ اسلام آباد سے لاہور، لاہور سے ملتان ، ملتان سے لاہور، لاہور سے اسلام آباد ، اسلام آباد سے کوئٹہ اور کوئٹہ سے دبئی۔ کوئٹہ میں ڈاکٹروں نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس حال میں مجھے سفر جاری نہ رکھنا چاہئے۔
بس میں ہوتا تو گریز کرتا مگر کیسے؟ ایک لیکچر کے لیے ملتان کے اخبار نویسوں ، بالخصوص خالد مسعود خاں سے وعدہ کر چکا تھا۔ تقریب کے دعوت نامے تقسیم کیے جا چکے تھے اور منسوخ کرنے کا سوال ہی نہ تھا۔ لاہور میں تاجروں کی ایک تنظیم کے علاوہ اخوت سے پیمان تھا۔ وہ تنظیم ، جس نے غیر سودی قرضوں سے 90ہزار پاکستانیوں کو روزگار فراہم کیا ہے۔
کوئٹہ میں بھی معاملات بے حد اہم تھے۔ دبئی تین دن تک کسی نے چین سے بیٹھنے نہ دیا۔ آخری دن عالم یہ تھا کہ بمشکل بستر سے اٹھا۔ پچھلی شب اس عالم میں گزری تھی کہ رات ایک بجے تک پاکستان ایسوسی ایشن کی شاندار عمارت کے صحن میں کھڑا تصاویر بنواتا رہا۔ درویش نے کہا تھا: خلقِ خدا کی محبت ایک ذمہ داری کو جنم دیتی ہے ، جس سے انحراف کیا ہی نہیں جا سکتا۔ پروردگار کی رحمت سے سب کچھ نبھا دیا لیکن پھر ایک ہفتہ بستر پر پڑا رہا۔ اب ٹھیک ہوں اور ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل نہ کر سکنے کے باوجود زخم مندمل ہے اور الحمد للہ پوری طرح مندمل۔
حیرت اور رنج کے ساتھ اس اثنا میں ٹیلی ویژن دیکھتا اور اخبارات پڑھتا رہا ۔ الیکٹرانک میڈیا نے تو بڑی حد تک توازن برقرار رکھا مگر اخبارات؟ کس قدر المناک کہ زیادہ تر لکھنے والوں نے ڈاکٹروں کے موقف کا بائیکاٹ کر دیا اوریکسر بائیکاٹ۔ ایمر جنسی میں خدمات کے انکار سے انہوں نے ایک سنگین غلطی کا ارتکاب کیا تھا لیکن کیا اس کا مطلب یہ تھا کہ ان کی بات ہی نہ سنی جائے۔ ان کے جائز مطالبات کی طرف سے بھی آنکھیں بند کر لی جائیں؟ان کی توہین کی جائے؟ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کی تنخواہ پولیس کانسٹیبل سے کم کیسے ہو سکتی ہے ؟ یہ کیا مذاق ہے کہ پنجاب حکومت کے مقرر کر دہ سردار ذوالفقار احمد کھوسہ ان کے ساتھ معاہدہ کریں ، سمجھوتہ ہو جائے اورپنجاب حکومت نہ صرف یک طرفہ طور پر مکر جائے بلکہ اس کے ذمہ دار لوگ ٹیلی ویژن پر اعلان کریں کہ ہرگز وہ اس معاہدے کے پابند نہیں۔
پنجاب حکومت کو یہ حق کس نے دیا کہ مذاکرات کرنے کی بجائے وہ ہسپتالوں اور ہوسٹلوں پر چھاپے مارے اور نئے نا تجربہ کار ڈاکٹروں کی بھرتیاں کر کے یہ پیغام دے کہ حکومتی قوت سے احتجاج کرنے والوں کو کچل دیا جائے گا۔ کوئی اورجاننے والا نہ تھا ، گوجرانوالہ میں ڈاکٹر نثار چیمہ سے رابطہ کیا کہ صداقت شعار ہیں۔ ایک ایسا انکشاف انہوں نے کیا کہ یقین ہی نہ آتا تھا۔ انہوں نے کہا: ہمارے ہاں تو ہڑتال نہیں۔ آخر کیوں؟ اس لیے کہ انہوں نے ڈاکٹروں سے بات چیت کی اور قائل کر لیا کہ ہر چند ان کے بعض مطالبات درست ہیں مگر مریضوں کو مرنے کے لیے چھوڑا نہیں جا سکتا۔
چند ماہ قبل ان کے بھائی ذوالفقار چیمہ زیر عتاب آئے تھے اوراس لیے کہ حلقہ این اے 100میں جہاں نون لیگ نے دس عدد پولنگ ایجنٹوں کو اغوا کر لیا تھا، انہوں نے فریق بننے سے انکار کر دیا تھا۔ ان کے بڑے بھائی جسٹس افتخار چیمہ بھی اپنی پارٹی سے ناراض تھے۔ وہ آدمی ، جس کے بارے میں بر سر عدالت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا تھا کہ وہ اپنی دیانت کی قسم نہیں کھاتے مگر جسٹس چیمہ کی امانت و دیانت پر حلف اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے باوجود ، اس کے باوجود اگر نثار چیمہ ناراض ڈاکٹروں کو کام کرنے پر آمادہ کر سکے تو دوسری جگہوں پر کیوں نہیں؟ سامنے کی بات یہ تھی کہ وہ توہین کے احساس میں مبتلا ہیں ۔ اگر ان کی تکریم ملحوظ رکھی جائے ؟ اگر معقولیت کے ساتھ بات کی جائے؟
تحقیق کا آغاز کیا تو المناک انکشافات ہوئے۔ بتایا گیا کہ پنجاب کے سیکرٹری صحت فواد حسین فواد کا روّیہ سنگ دلی پر مبنی ہے ۔ پنجاب سیکرٹریٹ میں ان کے ساتھیوں نے بتایا کہ انیسویں گریڈ کا یہ افسر بیسویں گریڈ کے پروفیسروں اورڈاکٹروں کو انتظار گاہ میں بٹھائے رکھتا اور تلخی سے پیش آتا ہے ۔
دو خواتین معالجوں کے بارے میں بتایا گیا کہ شیخوہ پورہ اور گوجرانوالہ سے وہ طلب کی گئیں۔ دن بھر وہ انتظار کر تی رہیں اور شام کو اگلے دن حاضر ہونے کا حکم دیاگیا۔ ان میں سے ایک ،چھ ماہ کی بچّی کو گود میں اٹھائے کھڑی رہی۔ اسے اگلے دن بھی دو گھنٹے اسی طرح کی اذیت سے گزرنا پڑا۔ اپنے کانوں پر مجھے یقین ہی نہ آیا۔ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے افسر سے پوچھا۔ وہ صداقت شعار لوگ، جن کی گواہی مسترد نہیں کی جا سکتی اور جن میں سے ایک کو میں چالیس برس سے جانتا ہوں۔
علالت کے باعث میں لکھ نہ سکا تھا لیکن پھر بدھ کی شام اس حال میں ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام میں شامل ہوا کہ بمشکل پہنچ سکا۔ آدمی کو گواہی دینی چاہئیے، خاص طور پر اس وقت جب اس کی ذمہ داری ہو۔ شب بارہ بجے ایک دوست کو فون کیا۔ انہوں نے کہا: ابھی کچھ دیر میں آپ سے بات کرتا ہوں۔
دو بجے تک انتظار کرتا رہا۔ سحر شکایت کی تو معلوم ہوا کہ رانا ثنا ء اللہ سمیت ، جنہیں ہمیشہ ایک دشمن کی تلاش رہتی ہے ، ایک ثالث کی حیثیت سے ، صبح تین بجے تک وہ پنجاب حکومت اورڈاکٹروں کے مذاکرات میں شریک رہے ۔ جیسا کہ عرض کیا، یہ ایک باقاعدہ تحریر نہیں ۔ کالم پھر لکھوں گا۔ دل مگر دکھ سے بھرا ہے۔ ہم کس طرح قوم بن گئے۔ یہ کیسے حکمران ہیں، جو معاملات کو بگاڑنے کے سوا کوئی ہنر رکھتے ہی نہیں۔ ایک عامی بھی ادراک کر سکتا کہ بات چیت کے سوا کوئی طریقہ تھا ہی نہیں ۔ وہ مگر طاقت کے استعمال پر تلے رہے۔ کیا یہ لوگ باقی اوربرقرار رہ سکتے ہیں ؟ نہیں ، خدا کی قسم ہرگز نہیں۔ من مانی کرنا وہ جانتے ہیں مگر حکومت نہیں۔ ان کا اثاثہ طاقت اورچالاکی کے سوا کچھ بھی نہیں۔عہدِ نو کے تقاضوں سے یکسر بے خبر لوگ، وقت جنہیں اپنے حال پر چھوڑ کر آگے بڑھ جائے گا۔انشا ء اللہ العزیز، انشاء اللہ العزیز۔

تازہ ترین