• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض آباد دھرنے کا اختتام ہوئے کئی روز بیت چکے ہیں۔ اس دھرنے کے اثرات مگر تادیر باقی رہیں گے۔ ابھی تو 2014 کے دھرنے کے اثرات بھی کامل طور پر زائل نہیں ہو سکے۔ہماری سیاست، معیشت اور سماج پر اس زمانے کے نقوش محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ فیض آباد دھرنے کا معاملہ بھی مختلف نہیں۔ یہ دھرنا اپنے پیچھے بہت سے اہم سوالات چھوڑ گیا ہے۔ صرف مسلم لیگ (ن) کیلئے نہیں، بلکہ ریاست اور ریاست سے جڑے مختلف ادارو ں اور طبقات کیلئے بھی۔دھرنا ختم کروانے کی خاطر حکومت نے مظاہرین کیساتھ معاہدہ کیا اور انکے تمام مطالبات کو من وعن تسلیم کر لیا۔ یعنی حکومت وقت نے چند سو نفوس پر مشتمل جتھے کے آگے گھٹنے ٹیک دئیے۔درحقیقت یہ صرف حکومت کی نہیں بلکہ ریاست اور ریاستی رٹ کی سبکی تھی۔اگریہ مسلم لیگ (ن) کو درپیش کوئی سیاسی یا جماعتی سطح کامعاملہ ہوتا اور اسے شکست تسلیم کرنا پڑتی تو کوئی قابل تشویش بات نہ تھی۔ تب ہم سمجھ لیتے کہ ایک گروہ نے دوسرے گروہ کو پچھاڑ دیا ۔ یہ معاملہ حکومت پاکستان کو در پیش تھا۔ جسے ایک سیاسی گروہ (جیسا کہ آئی ۔ایس۔آئی نے عدالت عظمیٰ میں رپورٹ دی)کے آگے سر جھکاناپڑا۔ قابل افسوس امر ہے کہ مسلم لیگ (ن)کی حکومت نے اپنے قائد میا ں نواز شریف کے قائم کردہ اصول کی خود ہی نفی کر دی ۔ 2014 میں تحریک انصاف وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے پر مصر تھی۔ 126 روزہ دھرنے کے دوران بہت کچھ ہوا ،مگر میاں نواز شریف اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے ۔ وہ وقت بھی آیا جب ایوان وزیر اعظم کے باوردی افسر نے انہیں اطلاع دی کہ مشتعل مظاہرین وزیر اعظم ہائوس کے داخلی دروازے تک آن پہنچے ہیں اور کسی بھی لمحے اندر داخل ہو سکتے ہیں۔ لہذا وزیر اعظم ہائوس میں انکا مزید ٹھہرنا خطرے سے خالی نہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف کا جواب تھا کہ وہ کہیں نہیں جائیں گے، خواہ مظاہرین وزیر اعظم ہائوس میں داخل ہو جائیں۔ا س کڑے وقت میں بھی میاں نواز شریف ہجوم کی طاقت کے آگے سر جھکا کر ایک غلط مثال قائم کرنے پر آمادہ نہیںتھے۔فیض آباد دھرنے میں مگر یہ مثال قائم کر دی گئی کہ فقط چند سو افراد کی مدد سے حکومتی رٹ کو چیلنج کیا جا سکتا ہے اور جائزو نا جائز مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔ ریاستی سطح سے یہ پیغام دیا گیا کہ یہاں قانون کی طاقت کے بجائے طاقت کا قانون رائج ہو سکتا ہے۔ایسا توہین آمیز معاہدہ دستخط کرنے سے کہیں بہتر تھا کہ حکومت آغاز میں ہی اپنی غلطی تسلیم کرتی اور وزیر قانون سے استعفیٰ لے لیا جاتا۔ اس قضیے میں " اپنے لوگوںــ" کی جو اصطلاح استعمال ہوئی، اس پر بجا طور پر بہت سے سوالات اٹھے۔ کاش اس امر کی تفہیم کی جاتی کہ نیشنل ایکشن پلان، آپریشن رد الفساداور داخلی امن کے قیام سے جڑی دیگر سرگرمیوں کا اصل مقصد اپنے لوگوں کا قبلہ درست کرنا ہوتا ہے۔ نظام قانون و انصاف اپنے شہریوں اور اپنے لوگوں کو دائرہ قانون کا پابند بنانے کیلئے ہی قائم ہوتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں قائم جزا اور سزا کا نظام صرف غیر ملکیوں کیلئے مخصوص نہیں ہوا کرتا۔
دھرنے کے دوران پارلیمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے موثرکردار کی بھی کمی شدت سے محسوس کی گئی۔اصل میں یہ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ دھرنے والوں کا معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھتی۔ اگر اسے کسی قسم کے دبائو کا سامنا تھا (جیسا کہ تاثر دیا جاتا رہا)، تو سیاسی جماعتوں کے قائدین سے مشاورت کی جاتی اور اتفاق رائے سے کوئی لائحہ عمل طے کرنے کی کاوش کی جاتی۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں کا طرز عمل کی قابل تحسین نہیں۔ تقریبا تمام سیاسی جماعتیں دور کھڑی تماشا دیکھتی رہیں۔ دھرنے والوں کے غیر اخلاقی زبان و بیان اور غیر قانونی طرز احتجاج کی وجہ سے دنیا بھر میں ہمارے ملک اور مذہب اسلام کا انتہائی منفی تاثر گیا۔اس صورتحال میں کسی سیاسی جماعت نے مظاہرین کے غیر قانونی اقدام کی حوصلہ شکنی کی غرض سے کچھ کہنے کی زحمت نہ کی۔ غالبا حکومت کو دبائو میں دیکھ کر سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی تسکین کا سامان کیا۔ خاص طور پر ان جماعتوں کی خاموشی سے دکھ ہوا ،جو مذہب کے نام پر سیاست کرتی ہیں۔سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کو کہنا پڑا کہ " احتجاجی مظاہرین اپنے عمل سے آئین اور قانون کو نظر انداز کرنے کیساتھ ساتھ اپنی ہٹ دھرمی کے سبب نہ صرف قرآن پاک کے احکامات کو فراموش کر رہے ہیں بلکہ اسلام کی عظمت کو داغدار کر رہے ہیں۔۔۔ اور یہ کہ کسی کو بھی اسلامی مقصد کے لبادے میں اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کیلئے گالی گلوچ اور گندی زبان استعمال کر کے اسلام کی عظمت کو داغدار کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی"۔
کم از کم ایسے واضح ریمارکس کے بعد مولانا فضل الرحمن، سراج الحق اور ساجد میر اور دیگر شخصیات کو آگے بڑھ کر کوئی کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ خود علمائے کرام جو دین کی تبلیغ کرتے اور اسلام کا روشن چہرہ اجاگر کرنے کیلئے متحرک رہتے ہیں، انکی بھی ذمہ داری تھی کہ اسلام کی عظمت کو داغدار کرنے والوںکی گرفت کی جاتی۔ اس صورتحال میں مگر ہر ایک نے اپنا دامن بچائے رکھا۔ اس صورتحال میں خود میڈیا کا کردار بھی قابل تحسین نہیں تھا۔جب مظاہرین پولیس اہلکاروں کی مار پیٹ میں مصروف تھے ، تب کچھ ٹی وی چینلز ان مظاہرین کو "عاشقان رسول" اور " مجاہدین" قرار دے کر فتنہ انگیزی میں مصروف رہے۔ ایسی صورتحال میں حکومت کو تمام چینلز بند کرنا پڑے۔ اصولاََ صرف ان چینلز کو بند کیا جانا چاہیے تھاجو اشتعال انگیزی پھیلانے میں مصروف تھے۔ سپریم کورٹ نے اپنے عبوری آرڈر میں ایسے میڈیا چینلز کے بارے میں جو کچھ کہا ہے وہ میڈیا کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ میڈیا مالکان کی تنظیم پی بی اے اور دیگر صحافتی تنظیموں کو اس حکمنامے پر غور کرنا چاہیے۔ اگر میڈیا میں شامل ایسے منفی عناصر کی بیخ کنی نہیں کی جاتی تو یہ صورتحال میڈیا کی مجموعی ساکھ پر منفی طور پر اثر انداز ہو گی۔ سچ یہ ہے کہ فیض آباد دھرنے میں جو کچھ ہوا اس میں ہم سب ہی کسی نہ کسی طور ذمہ دار ہیں۔ بہت اچھا ہو کہ ہم اس حوالے سے اپنی اپنی سطح پر رہتے ہوئے اپنا محاسبہ خود کریں۔
اب سنتے ہیں کہ داکٹر طاہر القادری ایک اور دھرنے کی تیاری میںہیں۔سابق صدر آصف علی زرداری،چوہدری برادران اورتحریک انصاف کے سربراہ عمران خان انکی حمایت کا اعلان کر چکے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ ماڈل ٹائون سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین ضرور ہو نا چاہیے اورانہیں سزا بھی ملنی چاہیے۔ مگر اس معاملے کو یا کسی بھی دوسرے قصے کو جواز بناتے ہوئے سڑکوں اور شاہراہوں پر سرکس لگانے کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔
غیر قانونی اور غیر اخلاقی طریق احتجاج کا خاتمہ ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اگر اب بھی ایسا نہ کیا گیا تو پھر وہ وقت دور نہیں جب جتھوں اور گروہوں کی مددسے لوگ اپنے فیصلے خود صادر کرنے لگیں گے اور پھر کوئی بھی شخص اور ادارہ اس روش کی زد سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔

تازہ ترین