• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یارانِ صحافت کی رائے مختلف ہے مگر مجھے تویوں لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں ایک طوفان اٹھے گا اور ماضی کی یادگاروں کو بہا لے جائے گا۔مجید امجد کا شعر ہے تو مختلف مضمون کا مگر یاد آیا
اک لہر اٹھی اور ڈوب گئے ہونٹوں کے کنول ، آنکھوں کے دئیے
اک گونجتی آندھی وقت کی بازی جیت گئی ، رت بیت گئی
نواز شریف کا نکتہ اگریہ تھا کہ دفاعی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش ہو تو یہ مشترکہ اجلاس میں اٹھانا چاہئیے تھا۔ اگر وہ چاہتے یہ ہیں کہ ادارے جواب دہ ہوں تو آغاز ہو چکا ۔ جنرل شجا ع پاشا نے خود کو ایوان کے سامنے پیش کیا۔ نہ صرف جواب دہی پر آمادگی بلکہ گھر جانے کے لیے تیار ۔ میاں صاحب کا مقصود اگریہ تھا کہ ایجنسیاں سیاست سے دور رہیں تویہ بحث اجلاس میں ہوئی بلکہ بہت دن سے جاری ہے۔مشترکہ اجلاس میں مشترکہ موقف کے فوراً بعد انہیں سبو تاژ کردینے والی پریس کانفرنس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔ اپوزیشن لیڈر کے ارشادات کی بنیاد مفروضوں پر تھی ۔دلائل اور قرائن و شواہد انہوں نے پیش نہ کئے۔ جمعہ کی شب آخر کار قوم اطمینان کے ساتھ سوئی تھی کہ امریکہ سے تعلق کی نوعیت اور دہشت گردی کی جنگ میں بالآخر ایک اتفاق رائے ہوا۔ نون لیگ کا اس میں قابلِ قدر حصہ تھا بالخصوص تحقیقات کے لیے قومی کمیشن کی تشکیل ، جارحیت جاری رہنے کی صورت میں نیٹو کی سپلائی روکنے پر اس کا اصرار اور دونوں ملکوں میں مراسم کی نوعیت کا از سر نو جائزہ ۔ جرأت مندی اور سلیقہ مندی کے ساتھ چوہدری نثار کی قیادت میں اپوزیشن نے جو شاندار خدمت انجام دی تھی ، میاں صاحب نے اس پر پانی پھیر دیا۔ اس کے باوجود ان صاحب کے فدائین انہیں مدبّر قرار دینے پر مصر ہیں
پاپوش میں لگادی کرن آفتاب کی
جو بات کی ، خدا کی قسم لاجواب کی
ذوالفقار علی بھٹو بے شک حریفوں کے مقابلے میں مقبول بہت تھے۔تنہا ایک تہائی ووٹوں کے نمائندہ لیکن جب انہیں فخرِ ایشیاء کہا جاتا تو حیرت ہوتی۔ لیاقت باغ کے جلسہ ء عام پر فائرنگ ، بے شمار سیاسی قتل ، بلوچستان میں فوجی کارروائی ، ایف ایس ایف کی تشکیل ،دلائی کیمپ، پریس پر پابندیاں ، کتنی چیزیں آسانی سے نظر انداز کر دی جاتیں ۔ میاں صاحب کے مدّاح جب کمال رسان سے انہیں قائد اعظم ثانی کہتے ہیں تو اور زیادہ تعجب ہوتا ہے ۔ قائد اعظم تو وہ تھے ، جنہیں عمر بھر ان کا کوئی دشمن بھی غلط بیانی یا مالی بے قاعدگی کا الزام نہ دے سکا۔ وہ فہم و فراست ، پیہم ایثار اور خیرہ کن عزم کہاں ۔ فوج اور ایجنسیوں کی گود میں آنکھ کھولنے والی سیاست اور سرکاری مناصب سے فائدہ اٹھا کر کاروبار کا فروغ کہاں۔ کاسہ لیسی کا کلچر اور شخصیت پرستی کی بیماری کہ عام آدمی کو دیوتا بنا دیا جاتاہے ۔ صدر زرداری نیلسن منڈیلا اور میاں صاحب قائد اعظم ثانی۔ سبحان اللہ ۔
دعویٰ یہ ہے کہ ایجنسیاں سیاست میں دخیل ہیں ۔ ثبوت چاہئیے اور تب متعلقہ لوگوں کا محاسبہ خواہ وہ کتنے ہی اہم ہوں ۔ چوہدری صاحب نے کہا تھا کہ وہ کردیں گے ۔
تھی خبر گرم کہ غالب# کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
اخبار نویسوں کی ادھوری سی معلومات ہیں ۔ سیاستدان ہی تصدیق یا تردید کر سکتے ہیں کہ حکم لگایا جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ ریمنڈ ڈیوس والے واقعہ کے بعد وزیر داخلہ نے خادم پنجاب اور لندن میں تیمار داری کے ہنگام وزیر اعظم نے میاں صاحب سے کہا کہ فوج ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کرنے پر تلی ہے۔ تب بھی عرض کیا تھا کہ کسی کے پاس قطعاً کوئی منصوبہ نہیں ۔ ژولیدہ فکری کے عالم میں تجاویز ہیں۔ یہ بھی کہ عدلیہ کی منظوری اور میڈیا کی تائید کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ۔ عدلیہ کیوں تائید کرے گی اور صحافت کیونکر حمایت ۔ اب تومعاملہ اور بھی مختلف ہے اور عملی طور پر مختلف ۔ جنرل کیانی بلوچستان سے فوج کی واپسی چاہتے ہیں اور اعلان کر چکے ۔ مرکزی حکومت کے ساتھ وابستہ ہونے سے قبل قاف لیگ نے عساکر کی منشا معلوم کرنے کی کوشش کی تو جواب ملا ، جو مرضی کیجئے۔ ان میں سے آدھے قبل ازیں یونیفیکشن بلاک کی نذر تھے۔ ایجنسی کو دخل اندازی کرنا ہوتی تو سرکارسے نالاں ایم کیو ایم ، قاف لیگ اور قبائلی ارکان سے بات کرتی اور غبارہ پھٹ جاتا۔ رہی عمران خان کے دھرنے کی بات تو گٹھ جوڑ کہاں ہے۔
عسکری قیادت یقینا خوش ہوئی ہوگی،مسلسل جو امریکہ سے مطالبہ کر رہی ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں تعاون کی حدود طے کی جائیں۔ پورا امریکی پریس، انتظامیہ اور سیاست اسی لیے تو پاکستانی فوج پر پل پڑے ہیں۔ اسی لیے آج کل پاکستان کے باب میں واشنگٹن میں سارا زور جمہوریت کو بچا لینے پر ہے یعنی صدر زرداری کی حمایت ۔ 2مئی کی سحر شتابی سے جنہوں نے امریکہ سے اظہارِ وفاداری کیا اور وزیر اعظم گیلانی جنہوں نے پاکستان کی حدود میں امریکی ہیلی کاپٹروں کے دندنانے کو عظیم فتح قرار دیا۔ ہر چند کہ میاں صاحب کی دولت بھی سمندر پار پڑی ہے ، ہر چند کہ صدر کلنٹن کی مدد سے انہوں نے مشرف کی قید سے رہائی پائی تھی اور ہرچند کہ نیگرو پونٹے ، رچرڈ باؤچر اور ڈیوڈ ملی بینڈ کے اصرار پر ہی انہوں نے 2008ء کے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی حمایت میں ان کی مگرحدود ہیں۔ اگرچہ پوری قوم کی تائید سے مگر ایٹمی دھماکے بہرحال انہی نے کئے تھے( اور محترمہ مخالف تھیں)۔ میاں صاحب کمزور آدمی ہیں ، تضادات رکھتے ہیں ۔ پا نہیں سکتے، مگر ان میں امریکہ سے رہائی پانے کی تھوڑی سی آرزو تو یقیناہے ۔ صدر زرداری تو اتنے بھی نہیں کہ
قریب آؤ دریچوں سے جھانکتی کرنو
کہ ہم تو پابہ رسن ہیں ، ابھر نہیں سکتے
حیرت کہ واشنگٹن سے فیاضی کے ساتھ سی آئی اے کے ایجنٹوں کو ویزے جاری کرنے پر میاں صاحب نے احتجاج کیوں نہ کیا؟تعجب کہ ریمنڈ ڈیوس کو رہا تو مرکزی حکومت نے کیا۔رانا ثنا ء اللہ اورپرویز رشیدایجنسی کو موردِ الزام کیوں ٹھہراتے رہے؟اسی طرح بار بار سوال کیا مگر کوئی جواب نہیں دیتاکہ عمران خاں کے دھرنے میں آئی ایس آئی نے روپے دئیے یا آدمی بھیجے؟ سب جانتے ہیں کہ کپتان کارندہ نہیں بن سکتا۔ نون لیگ نے ہزارہ کھو دیا، جنوبی پنجاب اور جاویدہاشمی بھی۔ عمران خان کے خلاف اب کردار کشی کی مہم ہے ۔ شاید اسی لیے احسن اقبال ، خواجہ آصف اورسینیٹر پرویز رشید پر مشتمل کمیٹی بنی ہے ۔ بر سبیل تذکرہ میرانہیں ، یہ سابق سینیٹر طارق چوہدری کا الزام ہے ۔ انہی کا یہ بھی کہنا ہے کہ دس کروڑ روپے اس مہم پر صرف ہوں گے ۔ سینیٹر پرویز رشید روپے کے ذکر پر ناراض ہیں ۔ بات شاید واضح نہ ہو سکی۔ کمیٹی الگ اور وہ اپنا کردار خوبی سے نبھا رہی ہے ۔ فنڈ جدا اور ظاہر ہے کہ اگر موجود ہیں تو ہائی کمان کی تحویل میں ۔ سینیٹر پرویز رشید توالگ کہ میں ان کی مالی دیانت ہی نہیں، دردمندی کا بھی قائل ہوں، خواجہ آصف کے بارے میں بھی یہ گمان مجھے نہیں کہ دامن آلودہ کریں۔ تیز بالنگ پر تلے کپتان سے پارٹی بچانے کے لیے حواس باختگی البتہ ۔ رہ گئے احسن اقبال تو
شریکِ حکم غلاموں کو کر نہیں سکتے
خریدتے ہیں ، فقط ان کا جوہرِ ادراک
روپوں سے بہرحال ان کا بھی تعلق نہیں۔ آخری تجزیے میں وہ مہمل ہیں ۔ 12اکتوبر 1999ء کو بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے نواز شریف کی مذمت اور جنرل مشرف کی تائید کر دی تھی ۔ ایسے آدمی کے بارے میں کچھ زیادہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔
جو بہترین احتیاط اور بہت غور و فکر کا وقت تھا، اسی وقت ژولیدہ فکری ہے ، اسی وقت بدترین بے احتیاطی۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ 1970ء کی طرح ، سیاست میں گردنوں کی فصل پک چکی۔یارانِ صحافت کی رائے مختلف ہے مگر مجھے تویوں لگتا ہے کہ آئندہ الیکشن میں ایک طوفان اٹھے گا اور ماضی کی یادگاروں کو بہا لے جائے گا۔ مجید امجد کا شعر ہے تو مختلف مضمون کا مگر یاد آیا
اک لہر اٹھی اور ڈوب گئے ہونٹوں کے کنول ، آنکھوں کے دئیے
اک گونجتی آندھی وقت کی بازی جیت گئی ، رت بیت گئی

تازہ ترین