• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انتخابی حلقہ بندیوں کے جس ترمیمی بل کی قومی اسمبلی نے دوتہائی اکثریت سے منظوری دے دی تھی سینیٹ میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان اختلافات کے باعث تعطل کا شکار ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی عام انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد بھی کھٹائی میں پڑتا دکھائی دینے لگا ہے۔ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیوں کا کام شروع کرے گا جس کے تحت پنجاب کے لئے قومی اسمبلی کی 9نشستیں کم ہو جائیں گی جبکہ خیبرپختونخوا کے لئے پانچ، بلوچستان کے لئے تین اور اسلام آباد کے لئے ایک نشست کا اضافہ ہو جائے گا۔ بل کی منظوری میں رکاوٹ پیپلزپارٹی کے تحفظات ہیں جنہیں دور کرنے کی اب تک کئی کوششیں کی گئیں جو بے سود ثابت ہوئیں۔ اس مسئلہ پر پیر کو سینیٹ کی ہائوس بزنس مشاورتی کمیٹی کا اجلاس بھی کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگیا۔ اب یہ معاملہ قائد ایوان راجہ ظفرالحق کے سپرد کیا گیا ہے جو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کر کے انہیں پیپلزپارٹی کی شرائط سے آگاہ کریں گے اور ان سے ہدایات لیں گے تاکہ معاملے کو یکسو کیا جا سکے۔ سینیٹ کے گزشتہ دو اجلاسوں میں بھی یہ مسئلہ پیش کیا گیا مگر حکومت کو بل کی منظوری کے لئے مطلوبہ 69ارکان کی حمایت حاصل نہ ہو سکی جس کی وجہ سے تعطل دور نہ ہوا۔ پیپلزپارٹی نے بل کی منظوری کے لئے گیارہ شرائط پیش کی ہیں جن میں سے اکثر کو وزیراعظم مستردکرچکے ہیں۔ ایک بڑی شرط 5فیصد بلاکس کی دوبارہ مردم شماری کا مطالبہ بھی ہے۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ اس مقصد کے لئے بین الاقوامی ماہرین کی نگرانی میں مردم شماری کے مخصوص بلاکس کا آڈٹ کرایا جائے کیونکہ شماریات بیورو اس کی نظر میں متنازع ہو گیا ہے۔ دوبارہ مردم شماری میں ضلعی سطح پر کمپیوٹر کے ذریعے بلاکس منتخب کئے جائیں اور متعلقہ علاقوں میں کرفیو لگایا جائے۔ فوج کو گنتی میں شامل نہ کیا جائے عارضی طورپر اپنے علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو شمار کرنے کے لئے مناسب بندوبست کیا جائے۔ ڈیمو گرافرز پر مشتمل تین رکنی کمیشن قائم کیا جائے جو تین ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے۔ یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ مردم شماری کے معاملات مشترکہ مفادات کونسل میں طے کئے جائیں۔ کونسل کا ایک اجلاس پہلے بھی ہو چکا ہے جس میں بعض معاملات پر اتفاق ہو گیا تھا مگر اب نئے مسائل پیدا ہونے سے اس کا اجلاس دوبارہ بلانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ پیپلز پارٹی سینیٹ کی اکثریتی جماعت ہے اس کی حمایت کے بغیر ترمیمی بل منظور نہیں کرایا جا سکتا وہ اپنی شرائط میں لچک پیدا کرنے جبکہ حکومتی پارٹی اس کے تحفظات دور کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتی اس کی وجہ سے ایک انتہائی اہم قومی معاملے پر ڈیڈ لاک طوالت اختیار کر رہا ہے۔ گومگو کی یہ صورت حال قومی مفاد کے منافی ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں سیاسی افہام و تفہیم متنازع معاملات کو طے کرنے کا بہترین طریقہ ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی یہی راستہ اختیارکریں۔ دونوں کو ایک دوسرے کے اعتراضات اور موقف پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔ کچھ باتیں مان لینی اور کچھ منوا لینی چاہئیں اور کسی بھی بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ بات پھر بھی نہ بنے تو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا لینا چاہئے۔ متنازع امور پر قوم کو بھی اعتماد میں لینا چاہئے اور عوامی بحث مباحثے کے ذریعے جو اجتماعی سوچ سامنے آئے اسے قبول کرنا چاہئے۔ فی الوقت ترمیمی بل پر جو تعطل جاری ہے اس سے سارا سیاسی منظر دھندلا گیا ہے۔ وزیراعظم نے درست کہا تھا کہ جب سیاستدان خود سسٹم کے درپے ہوجائیں تو خرابیاں کیسے دور کی جا سکتی ہیں۔ انہیں ایک دوسرے کے موقف کو مثبت سوچ اور نیک نیتی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہوشمندی سے کام لے کر درمیانی راستہ نکالنا چاہیئے۔ قوم موجودہ بحرانی کیفیت سے نکلنے کے لئے آئندہ انتخابات کی منتظر ہے۔ منتخب نمائندوں کو انتخابات کا بروقت انعقاد یقینی بنانے کے لئے انتخابی حلقہ بندیوں کا ترمیمی بل جلد منظور کرانا چاہیئے تاکہ الیکشن کمیشن انتخابی عمل آئین کے تقاضوں کے مطابق مکمل کر سکے۔

تازہ ترین