• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امیر تحریک لبیک یارسول اللہ ﷺ مولاناخادم حسین رضوی نے جہا ں اپنے منفرد اورسادہ انداز سے عام لوگوں کو اپنا بنایا ہے وہیں پر بعض طبقات ان کے اندازِ تکلم سے شدید ناراض ہیں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم مولانا کو کچھ آراء پیش کریں۔اپنی تقاریر میں ناموس رسالت کے علاوہ سخت لہجہ میں کی گئی گفتگو سے پرہیز کریں، بہتر ہوگا کہ سابقہ سخت اورترش لہجے پر معذرت کر لیں، وضاحتوں کی کوفت سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں۔ اکثریتی مکتب فکر کے بے ہنگم ہجوم کواپنی لفاظی اورصوتی اثرات سے تربیتی نظم کے اندر لا کر اس اسٹریٹ پاورکو ووٹ کی طاقت کے طور پر استعمال کریں۔ آپ خوش نصیب ہیں جس کے مسلک کی آبادی ملک میں 80فیصد ہے ان ووٹرز میں اعتماد کی فضا قائم کریں۔ گدی نشینوں، علما اورمدارس کے ذمہ داران کو اپنے سے دور کرنے کی بجائے قریب کریں۔ کسی سے لڑائی کیے بغیر اپنی مساجد مدارس،خانقاہوں کو سیاسی دفاتر کا درجہ دیں۔ روایتی مذہبی سیاسی جماعتوں سے اپنے آپ کو بچا کررکھیں وہ کسی صورت میں آپ کواپنے جال میں پھنسا نہ لیں۔ لیکن بڑی جماعتوںسے اپنے منشور کے مطابق ملنے میں حرج نہیں، مگر ان کے نام نہاد جمہوری دھوکوں سے بچ کر رہیں۔ ان کی شاطر سیاسی چالوں سے بچنا، ورنہ جو ساکھ بنی ہے وہ بھی ضائع ہو سکتی ہے۔ کیونکہ ان کے طرز سیاست کو عوام اب پسند نہیں کرتے۔ ساتھ بڑی جماعتوں کی اے پی سی وغیرہ میں اپنے آپ کو شامل کرنے کی ضرورت اور افادیت کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ ناموس رسالت کے مسئلہ پر عوام نے حق ادا کردیا اب خواص کو اپنے ساتھ جوڑیں اور اعتدال پسند فکرسے اہل دین کے اوپر اٹھنے والے سوالات کا سامنا کریں۔ دین کی تفہیم ایسے کریں کہ آج جو ساتھ کھڑے ہیں وہ بڑھتے جائیں ناکہ آنے والے دنوں میں ہر فرد دوسرے کی قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے کمربستہ ہو جائے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کندھے سے کندھا ملا رہے نہ کہ مزید دوریاں پیداکی جائیں۔ اپنے ماننے والوںکو ساتھ منظم رکھیں تاکہ وہ کبھی بھی روایتی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی طرف رجوع پر خود کو مجبور نہ پائیں۔ ناموس رسالت کے علاوہ اپنے سرگرم مومنانہ خصوصیت کے حامل کارکنوں کو اب بار بار مظاہروں، ریلیوں اوردھرنے سے محفوظ رکھیں۔ حضرت داغ جہاں بیٹھ گئے، بیٹھ گئے کی روش ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ عدلیہ سے آپ کی جماعت سے متعلق کوئی بھی فیصلہ سنایا جاسکتا ہے۔ کارکنوں کو بہادری کے بعد فہم وفراست کا درس بھی دیا جائے۔ اپنے کارکنوں کو سختی سے ہدایت کریں کہ وہ کسی کی زندگی کو خاص طور پر سوشل میڈیا پر تختہ مشق نہ بنائیں اپنے کارکنوں میں دینی فہم کے ساتھ دنیاوی فہم اور سیاسی بصیرت لیکر آئیں تشدد پسندی، نفرت انگیزی عامیانہ جملوں اورمرچ مسالہ سے پرہیز کریں اور منفی رویوں پرنہ اکسائیں نہ کسی کو اس بات کی اجازت دیں۔ کارکنوں کوسنہرے خواب دکھانے کی بجائے زمینی حقائق کے مطابق ہمیشہ بات کریں اپنے کارکنوں کی کردار سازی ایسی کریں کہ بندگان خدا کی خدمت ان کے ذہنوں میں سمو سکے۔ ان کو باورکرائیں کہ عدم برداشت، تنگ نظری اور نفرت آمیز رویے انسانیت کو تباہ کرسکتے ہیں۔ یہ ثابت کریں کہ ناموس رسالت پر شدت میرا ہی نہیں امت مسلمہ کے ایمان کا حصہ ہے لیکن جہاد کا اعلان ریاست کا ہی حق ہے۔ ریاست کو ایک مخلص کے طور پر رائے دیں کہ وہ آئندہ کوئی مذہبی فیصلہ اسلامی نظریاتی کونسل کی مشاورت کے بغیر نہ کرے اوراس کونسل کو سیاست سے پاک کروانے میں اپنا کردار اداکریں۔ ہنگامی بنیادوں پر خود فیصلے کرنے کی بجائے تھنک ٹینک تشکیل دیں اوران کے اچھے فیصلوں کو ترجیح دیں۔ انتخابات کے حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر اپنے امید واروں کے نام فائنل کر یں اورابھی سے ان کوالیکشن کی تیاری کا حکم دیں۔آنے والے الیکشن میں تقریباً ایک کروڑ ووٹر کو اپنے قریب لانے کی الگ سے جنگی بنیادوں پرحکمت عملی بنانے کے لیے تھنک ٹینک کو رپورٹ مرتب کرنے کی ہدایت جاری کریں۔ تحریک لبیک کو حالیہ الیکشن این اے 120میں 5.62فیصد7130ووٹ پڑے جس کوہر ممکن طریقے سے بڑھانے کی کوشش کریں۔ اس تاثر کو ختم کریں کہ آپ صرف پریشر گروپ کے طور پر کام کریں گے، اس لیے الیکشن میں کچھ نشستوں پر کامیابی اپنی یقینی بنائیں۔ کم از کم قومی اسمبلی کے 10اور چاروں صوبوں میں 10،10ایسے علاقے منتخب کریں جن سے آپ کامیاب ہو سکیں۔ یاد رکھیں الیکشن والے دن قومی اسمبلی کے ایک حلقہ میں 200سے 250پولنگ اسٹیشن بنتے ہیں ایک کامیاب پولنگ کے لیے 15سے 40مردوخواتین درکار ہوں گے۔ ان کو نان قیمہ، حلیم، بریانی وغیرہ بھی درکار ہوگی۔ یاد رہے قومی اسمبلی کے 15 امیدواروں کے بعد آپ کو ایک غیر مسلم ایم این اے کا نام بھی دینا ہوگا اسی طرح خواتین ایم این اے اور ایم پی اے بھی آئینی طور پر بنیں گی لہٰذا خواتین کو اپنے ساتھ سیاسی عمل میں شامل کریں۔ اپنے ہم خیال امیدواروں سے مقابلہ کی بجائے ان سے اتحاد کریں۔ 70فیصد دیہی آبادی پر خصوصی حکمت عملی بنائیں اور وہاں سے آپ زیادہ ووٹ لیں سکتے ہیں اور یہ نعرہ لگائیں کہ اب’’ امیر‘‘ امیر تر اسی وقت ہوگا جب وہ قانون کی پاسداری کرے گا،کرپشن نہیں کرے گااورریاست کو ٹیکس دے گا۔ٹیکس چوروں کے خلاف پرزور آواز بلند کریں۔ خواتین، بچوں، معذوروں، غریبوں، کسانوں، ہاریوں، مزدوروں، کے حقوق کی شد ومد کے ساتھ بات کریں۔ مذہبی جماعتوں کے مشکوک کردارکو صاف کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی سیاست کو اکثریت سے جوڑیں کسی اقلیتی مسلک ومذہب کا ذکر نہ خود کریں اور نہ ہی اپنے اسٹیج سے ایسی کوئی بات ہونے دیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ کارکنوں کو فہم سیاست کورسز بھی کروائیں۔ عوام کو یہ سوچنے پر مجبور کریں کہ وہ چور دروازے سے آنے والے حکمرانوں کا راستہ اب ہمیشہ کے لیے روکنے کی کوشش کریں۔ دہشت گردی، انتہا پسندی کے خلاف کھل کر بات کریں اور یہ یقین دلائیں کہ آپ کی جماعت انتہا پسندی اور دہشت گردی سے جہاں شدید نفرت کرتی ہے وہیں پرامن، انصاف، اخوت، محبت بھائی چارہ سوسائٹی کے باقی لوگوں کی طرح ہی چاہتی ہے۔ اپنے اردگرد مخلص قیادت کو اپنا دست وبازو بنائیں۔ خوشامدی افراد کی بجائے پرانے ساتھیوں کو نئے آنے والے ساتھیوں کی نسبت ترجیح دیں۔ افکار، نظریات، سیاسی منشور، دستور سازی میں جوہری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ موجودہ سیاسی ذہنوں کو آگے لیکر آئیں اور مذہبی ذہنوں سے مذہبی کام لیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہبی بنیادوں پر حکومت کے قیام کی جدوجہد خطرناک ثابت ہو تی ہیں ان کے نظریے کو غلط ثابت کریں۔ مذہبی جماعتوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ فرقہ وارانہ تشخص اورترجیحات ہیں آپ ان امور سے پرہیز کریں۔ یہ تاثر ختم کریں کہ لوگ مذہبی جماعتوں کو نوٹ تو دیتے ہیں لیکن ووٹ نہیں، اپنے کارکنوں کو لوگوں میں گھل مل کر رہنے کا شوق پیدا کریں اور لوگوں کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھیں اور ہر ممکن ان کی مدد کریں۔ تھانوں اور کچہریوں میں اپنے کارکنوں کی ڈیوٹی لگائیں کہ وہ لوگوں کے مسائل حل کرانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ لوگوں کو یقین دلائیں کہ سیاست میں دین محمد ﷺکے استعمال سے خون خرابہ نہیں بلکہ سکون آئے گا۔ ایک تفصیلی ملاقات پیر حمیدالدین سیالوی اور دیگر قیادت سے ضرور کریں۔

تازہ ترین