• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند سال قبل راقم کوا مریکہ میں جمعہ کی نماز پڑھنے کا موقع ملا تھا۔میرے میزبان نے بتایا کہ جمعہ پڑھنے کا مزہ دارالعلوم اسلامی کی جامع مسجد فلوریڈا میں آئے گاجو ہمارے دوست کے گھر سے تقریباً 20کلومیٹر دورتھی ۔چنانچہ خطبہ ایک بجے شروع ہوا۔مولانا صاحب کا تعلق شام سے تھا۔نوجوان خطیب نے عربی میں خطبہ پڑھا پھر اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا ایک گھنٹہ تک وہ انگریزی میں مسلمانوں کو جن میں عربی ،پاکستانی ،ہندوستانی ،امریکی اور افریقی شامل تھے ۔اسلام اور دنیا کے بارے میں بڑے بڑے دلائل سے سمجھاتے رہے ۔میں نے اپنی زندگی میں اتنا پر مغز خطبہ نہیں سُنا ۔ اتنا مختصر اور جامع الفاظ کا ذخیرہ اس نوجوان سے سُن کر اللہ تعالیٰ کی شان دیکھی ۔تمام مسجد مسلمانوں سے بھری ہوئی تھی ۔اتنی خاموشی اور لگن سے تمام حاضرین ہمہ تن گوش خطیب صاحب کو سُن رہے تھے ۔معلوم ہوتا تھا کہ مسجد میں جیسے کوئی بھی نہیں ہے ۔وہ فرمارہے تھے کہ اللہ کے رسولﷺ سے کسی صحابی نے سوال کیا کہ حضور ﷺ میں ایک چیز پر عمل کرسکتاہوں ۔مجھے صرف ایک عمل بتائیں فرمایا کہ سچ بولو کیونکہ میرے بعد اگر کسی کا درجہ ہوگا تو صادقین کا ہوگا ،یعنی میرے ساتھ جنت میں سب سے نزدیک سچے لوگ ہوں گے ۔حتیٰ کہ شہدا کا درجہ بھی صادقین یعنی سچ بولنے والوں سے بعد میں ہوگا گویا کہ اسلام کی بنیاد سچ پر ہے اور آج اگر ہم دیکھیں تو مسلمانوں نے سچ کو ترک کرکے جھوٹ کو اپنالیا ہے اور ان غیر مسلموں نے ہمارے اصول اپنالئے ہیں آج ہم پر کوئی اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ہے خود اپنے مسلمان ایک دوسرے سے کھل کر جھوٹ بولتے ہیں اور ایک دوسرے کو دھوکہ دینے سے باز نہیں آتے۔ہمارا آپس کا اعتبار اُٹھ چکا ہے ۔غیر مسلم کیسے اعتبار کرے گا ۔وہ مسلمانوں کو جھوٹا ،فریبی ،مطلب پرست سمجھتے ہیں۔جبکہ آپس میں غیر مسلم ایک دوسرے پر اعتبار کرتے ہیں ۔جو بات کرتے ہیں سچ کرتے ہیں اور سچ کی بدولت وہ آج کاروبار میں دنیا میں چھا چکے ہیں ۔اور ہم پستی کی طرف چلے جارہے ہیں ہمارا اعتبار (Credit)ختم ہوچکا ہے کاروبار میں دکھاتے کچھ اور ہیں بھیج کچھ اور دیتے ہیں ۔اگر خراب مال کی نشاندہی بھی کی جائے تو وہ نہیں مانتے اور خراب مال تبدیل نہیں کرتے۔ایک زمانہ تھا جب اسلام مسلمان تاجروں ہی کے ذریعے سب سے زیادہ مختلف ممالک تک پھیلا کیونکہ تجارت میں مسلمانوں کی مثالیں دی جاتی تھیں کہ وہ زبان کے پکے اور وعدے کے کھرے ہوتے تھے ۔یہودی اور نصاریٰ مسلمانوں کی اس خوبی سے سب سے زیادہ متاثر ہوکر اسلام قبول کرتے تھے ۔یہاں تک کہ مسلمانوں کا بدترین دشمن بھی مسلمانوں کی سچائی کی گواہی دیتا تھا جب عیسائیوں کے شہنشاہ ہرقل نے اسلام کے بدترین دشمن ابوسفیان جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے،سے حضور ﷺ کے بارے میں صرف ایک سوال پوچھا کہ کیا وہ سچ بولتے ہیں تو اسلام کا بدترین دشمن ہونے کے باوجود بھی وہ انکار نہیں کرسکا ۔اس نے کہا کہ ان سے زیادہ سچا اور وعدہ کا پکا اصول پرست انسان میں نے آج تک نہیں دیکھا گویا کہ مسلمانوں کا وتیرہ ہی سچائی پر مشتمل تھا ۔اسی وجہ سے دن رات مسلمانوں کو اللہ نے فتح ہی فتح کی طرف گامزن رکھا ۔مگر جب دنیاوی مصلحت میں پڑ کر جھوٹ کو اپنایا توآج ہم دنیا میں ذلیل و خوار ہورہے ہیں اور اگر یہی حالت رہی تو نہ معلوم کل کیا ہوگا ۔دوسرا خاص نکتہ اس نوجوان خطیب نے مسلمانوں کو سمجھایا وہ یہ کہ امریکہ میں رہتے ہوئے ان کا حق ہے کہ وہ اپنے آپ کو امریکی شہری ہونے کے ناطے الیکشن کیلئے رجسٹرکروائیں اور گلی کوچے کے انتخابات سے لے کر نائب صدارت تک کیلئے اپنے آپ کو تیار کریں کیونکہ امریکی قانون کے تحت صدارت کیلئے صرف کرسچن ہی امیدوار ہوسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ امریکہ میں یہودی صرف چند لاکھ ہیں جو گلی کے الیکشن سے لے کر ججوں ،پولیس ،اسکولوں ،کالجوں ،ایم پی،پارلیمنٹ اور سینیٹ تک جاپہنچے ہیں اور اب کے تو ان یہودیوں کی لابی اتنی مضبوط ہوگئی ہے امریکن پارلیمنٹ میں یہودیوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور تمام پالیسیاں وہی مرتب کررہے ہیں ۔ جبکہ امریکہ میں ڈھائی تین کروڑ مسلمان آباد ہیں اور آج تک کسی بھی معمولی عہدہ پر ایک مسلمان منتخب نہیں ہوسکا حتی ٰ کہ وہ ووٹر لسٹ میںبھی نام نہیں لکھواتے اور الیکشن والے دن اپنے گھر ہی بیٹھے رہتے ہیں ۔نوجوان خطیب نے کہا کہ اس لئےامریکہ کی تمام مسلم تنظیموں نے مل کر متحدہ مسلمانوں کا دن مناتے ہوئے آج سے تمام مساجد ،مدرسوں میںمتحدہ الیکشن مہم (Campaign) چلانے کا اعلان کیا ہے اور تمام مسلمانوں سے تمام اختلافات ختم کرکے صرف اور صرف اپنے آپ کو ووٹرلسٹوں اور الیکشن میں ووٹ ڈالنے کیلئے تیار کرنا شروع کردیا ہے اور آج یعنی جمعہ سے یہ آغاز کیا ہے کہ تمام لوگ نماز سے فارغ ہوکر مسجد کے باہر رضاکار وں سے فارم لے کر پڑھیں ، رجسٹریشن کاکام ہماری تنظیمیں کریں گی تاکہ مسلمان بھی امریکہ میں اپنے حقوق استعمال کرکے اپنا مقام بناسکیں اور پھر جب جمعہ کی نماز ختم ہوئی مسجد کے باہر واقعی رضاکار بڑی تعداد میں مسلمانوں کے فارم بھرنے کیلئے تیار کھڑے تھے اور اکثر لوگ ان سے فارم لے کر بھر رہے تھے ۔ کم از کم پہلا مرحلہ تو شروع ہوا بعد میں میرے معلوم کرنے پر ایک دوست جو گزشتہ20سال سے امریکہ میں مقیم ہے، نے بتایا کہ یہ مسجد اور اسکول انہی عالم دین کی کوششوں سے صرف دوسال میں تیار ہوا ہے ۔اس میں کسی عرب نے بغیر سود کے ادھار روپیہ دیا جس سے یہ اتنی جلدی تیار ہوا اور اب یہاں کے مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق یہ ادھار اتار رہے ہیں۔ انہی عالم دین کی رہنمائی میں دو اور اسکول و مساجد بھی تیار ہورہے ہیں ۔یہ اخبارات میں بھی امریکیوں کیلئے کالم لکھتے ہیں جس میں اسلام کی تبلیغ ہوتی ہے اور اب تو ان کو یہودی عبادت گاہوں میں بھی وعظ کیلئے بلایا جاتاہے ،ان کا ٹی وی پر بھی کئی مرتبہ خطاب نشر ہوتا رہا ہے جس کی وجہ سے ہر ہفتے کئی امریکی نوجوان مردوعورتیں ان کے خطاب سے متاثر ہوکر مسلمان ہورہے ہیں ۔دن رات مسلمانوں کی ترقی ،یکجہتی اور اسلام کی تبلیغ کیلئے یہ دوسرے ممالک کا بھی دورے کرتے ہیں اور اسلام کے سنہرے اصولوں کا پرچار کرتے ہیں ۔یہ چندہ خود نہیں لیتے اسی عربی شخصیت کے اکائونٹ میں ڈالر جمع کرواتے ہیں ۔ان کا ایک بینک ہے جو نفع نقصان کی بنیاد پر امریکہ میں کام کرتا ہے اور انہوں نے ہی اس مسجد اور مدرسہ کیلئے قرضہ فراہم کیا تھا جس کا فیض آج امریکہ کے تمام مسلمان اٹھارہے ہیں ۔نماز کے بعد مولانا کو لوگوں نے گھیر لیا اور وہ سب سے ہاتھ ملارہے تھے ۔ان کے مسائل بھی سن رہے تھے اور اس کا حل بھی بتا رہے تھے ۔مگر ہمارے ملک میں حکومت کے خلاف دھرنا دیئے جاتے ہیں ۔
کاش ہمارے ملک کے یہی عالم دین اس نوجوان خطیب کی پیروی کریں اورپاکستان میں گروہی اختلافات ختم کرکے پاکستان کو امن کا گہوارہ بنادیں ۔آمین

تازہ ترین