• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Effects Of Political Military Dialogue

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سینیٹ کی پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی میں تعامل جو بظاہر تعمیری رہا۔ یہ عمل جمہوری اداروں کے استحکام میں بڑا مفید رہے گا۔اس سے طویل عرصہ کیلئے امور مملکت چلانے کیلئے عبوری انتظام اور انتخابات کے التواء کے حوالے سے قیاس آرائیوں اور افواہوں کا خاتمہ ہوگیا۔

حلقہ بندیوں کیلئے بل کی منظوری سے ’’اگر مگر’’کی تکرار بھی ختم ہوگئی۔ اس پیش رفت سے مارچ 2018میں سینیٹ انتخابات کی راہ بھی ہموار ہوگئی۔ گو کہ سیاست غیر یقینی کا کھیل ہے اور پاکستان کی سیاست کے حوالے سے قطعی طور پر کوئی پیشنگوئی نہیں کی جاسکتی۔ اب یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور ساتھ میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ آئندہ عام انتخابات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔

ماضی میں جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر نکتہ چیں رہے(بلاوجہ بھی نہیں) ، ان کیلئے موقع ہے کہ وہ لاجواب سوالات کے بارے میں استفسار کریں۔ آرمی چیف اس لئے آمادہ دکھائی دئے جیسے فیض آبادھرے کے موقع پر تیار ہوکر آئے تھے۔ ۔ یہ اب آگے بڑے کا وقت ہے کیونکہ آرمی چیف دھرنوں کے ذریعہ حکومت ہٹانے سے اتفاق نہیں کرتے۔ انہیں پاکستان کو درپیش چیلنجوں کا ادراک ہے۔ وہ خارجہ امور، بھارت، افغانستان، امریکا، ایران اور سعودی عرب سے تعلقات کے حوالے سے غلط فہمیاں دور کرنے کیلئے ایوان بالاگئے تھے۔

جنرل باجوہ نے مخصوص ملکی امور میں فوج کے مبینہ کردار پر جواب دئے۔ دھرنے کی تازہ لہر کی بھی اطلاعات ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کے پر امن انعقاد اور انتقال اقتدار کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیں، یہ 2008کے بعد دوسرا موقع ہوگا۔ اب تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو قبل ازوقت انتخابات پر زور نہیں دینا چاہئےاور پاکستان عوامی تحریک کے رہنماء ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی دھرنے ضد چھوڑ کر سانحہ ماڈل ٹائون پر سپریم کورٹ سے انصاف طلب کرنا چاہئے۔

سیاسی تدبراور استحکام کیلئے سب سے بھاری ذمہ داری سابق وزیر اعظم نواز شریف کی ہے۔ وزارت عظمیٰ کیلئے آئندہ امیدوار کی حیثیت سے اپنے چھوٹے بھائی وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے نام کا پارٹی امیدوار کی حیثیت سے نام کا اعلان کرکے انہوں نے درست اور ٹھیک سمت میں قدم اٹھایا ہے۔

ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان مکالمہ بھی صحت مند اتبداءہے۔ چونکہ یہ خفیہ اجلاس تھا لہذا کراچی میں سیاسی ڈرائی کلیننگ یا انجینئرنگ کے بارے سوالات کا یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ پوچھے گئے بھی یا نہیں۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایسے کوئی سوالات کسی بھی جماعت کی جانب سے بہیں کئے گئے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز نے فیض آباد دھرے کے تاثر کے حوالے سے ضرور سوالات کئے اور وہ جوابات پر ۔۔۔ بھی دکھائی دئے۔

بہرحال ایوان بالا کا یہ تعمیری سیشن رہا۔ اب پالیسیاں مرتب کرنے ذمہ داری سیاستدانوں، پارلیمنٹ اور حکومت کی ہے۔ ’’ ان کیمرا لیگ، کے حوالے سے چیئر مین سینیٹ میاں رضا ربانی کی تشویش میں خاصا وزن ہے۔ ان کا خدشہ کہ آئندہ کوئی بھی سربراہ ادارہ اس غیر ذمہ داری کے باعث آنے سے گریز کرے گا، ایک بروقت انتباہ ہے۔

آرمی چیف نے ایوان بالا سے ساڑھے چار گھنٹے گزارے، سیاسی قیادت سے کھلا تبادلہ خیالات کیا۔ یہ بداعتمادی کے خاتمے کی جانب پہلا قدم ہے۔ 1993میں اس وقت کے چیف آرمی اسٹاف جنرل (ر) عبدالوحید کاکڑ نے اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان مرحوم اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان تنازع پر مارشل لاء لگانے کی تجویز مسترد کردی تھی۔ 1999 میں جنرل پرویز مشرف نے قبل ازوقت ریٹائر منٹ کیلئے نواز شریف کا فیصلہ قبول کرنے سے انکار کیا اور 2008تک ملک میں فوجی آمریت رہی۔ لیکن ان کے بعد آنے والوں جنرلز اشفاق پرویز کیانی، راحیل شریف اور اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے پارلیمنٹ کا احترام کیا۔ جس کےنتیجے میں انتخابی عمل اور حکومتوں کا انتخاب توار سے ہوا۔

اب آئندہ عام انتخابات جولائی 2018میں ہونے والے ہیں۔ سینیٹرز جو کچھ بتایا اور میں نے سنا، جنرل باجوہ ہر طرح کے سوال کا جواب دینے کیلئے تیار تھے، عوام کا موجودہ جمہوریت پر مختلف موقف ہوسکتا ہے لیکن ایک بات یقینی ہے کہ وہ عوام ہی کے منتخب نمائندے ہیں لہذا انہیں تنقید اور سہنے کا حوصلہ بھی ہونا چاہئے۔

جائزے اور احتساب کا ایک ہی طریقہ انتخابات ہیںسینیٹ کمیٹی میں جنرل باجوہ نے کہا کہ حکومت خارجہ وداخلہ سیکورٹی پالیسیاں مرتب کرے اور فوج ان پر عمل درآمد کرے گی۔ لہذا اب ذمہ داری پارلیمنٹ اور حکومت پر آگئی ہے۔

انتخابات سرپر ہیں اور موجودہ پارلیمنٹ آئندہ کی پارلیمنٹ کیلئے عمل درآمد کی غرض سے عوامل اور رہنماءاصول طے کرسکتی ہے۔ ماضی میں سیاسی قیادت کو خارجہ پالیسی سازی میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مداخلت بے جا کی شکایت رہی۔ تمام خدشات بلاوجہ بھی نہیں کہے جاسکتے۔ فوج کو بھی بطور ادارہ اپنے خدشات اور تحفظات کے اظہار کا حق ہے۔ آرمی چیف کی سینیٹ آمد واضح طور پر جمہوری اداروں اور نظام پر اعتماد کی دلیل ہے۔ اسے جاری رہنا چاہئے اور وقت ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دفن کردیا جائے۔

 

تازہ ترین