• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز کالونی
عدم آباد
مائی ڈیئر ججز آف دی ورلڈ!!
مجھے اس فانی دنیا سے گئے ہوئے 180برس سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ عدم آباد میں جو بھی نیا جج آتا ہے وہ مجھ سے آ کر ضرور ملتا اور اپنے ملک کی سیاست اور حالت ِ انصاف پر بات کرتا ہے۔ گزشتہ روز فاضل چیف جسٹس شیخ انوار الحق، جسٹس مولوی مشتاق حسین اور فاضل چیف جسٹس نسیم حسن شاہ ملنے آئے اور پاکستان کے نظام انصاف اور بعض حالیہ عدالتی فیصلوں کے سیاسی اثرات پر گفتگو ہونے لگی کچھ برطانوی اور امریکی ججز بھی بیٹھے تھے۔ گفتگو طویل ہوئی، بحث میں کئی اہم باتیں اور نکات سامنے آئے، طے یہ ہوا کہ میں دنیا بھر کے فاضل جج صاحبان کو ایک کھلا خط لکھوں جس میں پاکستان کے حالیہ عدالتی فیصلوں اور میرے ماضی کے سیاسی اور عدالتی فیصلوں کا تفصیلی تقابل کیا جائے تاکہ دنیا بھر کے جج صاحبان کے لئے ایک نئی راہِ عمل متعین ہو سکے۔یہ خط اسی سلسلے میں ہے۔
میرے ساتھی جج صاحبان!
آپ سب کو علم ہی ہے کہ مجھے گریٹ چیف جسٹس کہا جاتا ہے اور عدلیہ کے لئے میری 34سالہ (1801-1835)خدمات کے اعتراف میں امریکن سپریم کورٹ میں میرا کانسی کا مجسمہ بھی ایستادہ کیا گیا ہے۔ یہ امریکی قوم کی مہربانی ہے کہ انہوں نے مجھے اس قابل سمجھا وگرنہ میرا اصول تو یہ تھا کہ ریاست کے اندر قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے ججوں کی حکمرانی ہرگز نہیں۔ میرا آج بھی دنیا بھر کے فاضل جج صاحبان کو یہی پیغام ہے کہ ججوں کی حکمرانی غلط ہے البتہ قانون کی حکمرانی درست طریقہ ہے۔
عدم آباد میں پاکستان کے جو فاضل جج صاحبان مجھے ملتے ہیں وہ بڑے ہی ’’سیاسی‘‘ ہیں اور وہ اپنے آپ کو قانون سے بڑا بلکہ خود کو قانون سمجھتے ہیں۔ میں جب 1801ء میں چیف جسٹس بنا تو اس سے پہلے سیاست میں سرگرم تھا مگر چیف جسٹس سپریم کورٹ بننے کے بعد میں نے سیاست چھوڑ دی اور یہ طے کر لیا کہ میں قانون ساز نہیں ہوں بلکہ دوسروں کے بنائے گئے آئین اور قانون کا شارح ہوں۔ فرض کریں کہ عدلیہ ایک سیاسی ادارہ بن جائے اور اپنے تعصب یا غصے کی بنا پر یا پھر نظریات کے زیر اثر فیصلے کرنے شروع کر دے تو پھر عدلیہ مکمل طور پر کرپٹ ہو جائے گی۔
محترم فاضل جج صاحبان!
تیسری دنیا کے فاضل جج صاحبان سے مل کر اور ان کی باتیں سن کر بڑا دکھ ہوتا ہے پاکستان کے عدم آباد میں آباد ججوں کی اکثریت بھی ذاتی لڑائیوں اور جھگڑوں کی وجہ سے فیصلے کرتی رہی ہے۔ مولوی مشتاق کو چیف جسٹس نہیں بنایا تو بھٹو کو پھانسی کی سزا دے ڈالی، جسٹس انوار الحق بھی بھٹو سے شاکی تھے انہوں نے پھانسی کی توثیق کر ڈالی۔ جسٹس نسیم حسن شاہ کہتے ہیں کہ نظرثانی اپیل میں گنجائش نکل سکتی تھی مگر جو کرنا تھا وہ کرنا ہی پڑا۔ یہی فاضل جج صاحبان عدم آباد میں اکثر اپنے ادارے کے حکومت سے تنازعات اور مختلف سیاستدانوں کے شکوے کرتے رہتے ہیں۔ مجھے بڑی حیرانی ہوتی ہے کہ فاضل جج صاحبان کا ایسا رویہ کیوں ہے؟ کیا کسی کو چیف جسٹس نہ بنانے پر ناراض ہو کر سزائیں دینے کا حق ہے؟ یا کسی کا کوئی ذاتی کام نہ ہو تو وہ دوسروں کو لٹکا دے، یہ تو سراسر زیادتی ہے۔
فاضل جج صاحبان!
عدالتیں افراد کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنی ہیں۔ عدالتوں کو ان حقوق کے تحفظ اور افراد کی تکالیف اور دکھوں کو ختم کرنے کے لئے انتظامیہ یا مقننہ سے ضرور متصادم ہونا چاہئے مگر عدالتوں کو تکنیکی قانون دانی کا سہارا لے کر ایسی آئینی تشریح نہیں کرنی چاہئے جو آئین کی سادہ تشریح اور معانی کے خلاف ہو۔ میں نے سنا ہے کہ پاکستانی آئین کے آرٹیکل 184/3کے تحت دو وزرائے اعظم کو فارغ کیا جا چکا ہے، یہ میری رائے میں بالکل غلط ہے۔ پاکستانی آئین کی سادہ تشریح کے مطابق وزیر اعظم کو نکالنے کے دو ہی طریقے ہیں تحریک عدم اعتماد یا استعفیٰ۔ آرٹیکل 184/3کی ایسی تکنیکی آئینی تشریح کی گئی ہے جو زمانے کی آزمائشوں پر پورا نہیں اترے گی اور جس طرح تاریخ نے بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیا تھا اسے ’’عدالتی ظلم‘‘ قرار دیدےگی۔
دنیا بھر کے منصفو!!
یاد رکھو کہ انصاف کے ترازو میں توازن نہ رکھو گے تو تاریخ میں برا نام کمائو گے۔ میں نے 34سال زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں فیصلے کئے جوڈیشل نظرثانی کا اصول لاگو کیا۔ امریکی آئین بنانے والوں جارج واشنگٹن اور ان کے ساتھیوں کے نظریات کو حرزِ جان بنایا اور انہی کے نظریات کی بنا پر آئین اور قانون کی تشریح کی۔ میں نے کبھی سپریم کورٹ سے باہر نکل کر کسی ہسپتال کا دورہ کرنے یا پھر کسی علاقے کے پانی کی کوالٹی چیک کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میرا کام عدالت تک محدود تھا۔ عہدے اختیار تو دیتے ہیں مگر حدود بھی طے کرتے ہیں ان حدود کو پھلانگنے سے عدلیہ کا وقار مجروح ہوتا ہے میں اکثر کہتا ہوں ’’جج نہ تو مصلح ہیں اور نہ پیغمبر اور نہ انہیں کوئی اعلیٰ درجہ حاصل ہے۔ ‘‘
مائی ڈیئر ججز!!
میں خود نہیں بولتا تھا میرے فیصلے بولتے تھے۔ میرا دور تو عرصہ ہوا گزر چکا مگر میں دنیا بھر کی سپریم کورٹس کے ججوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح میں نے امریکی سپریم کورٹ میں ’’عدالت کے فیصلے‘‘ کو رواج دیا تھا وہ طریقہ دنیا بھر کی سپریم کورٹس میں اپنایا جائے یہ درست نہیں کہ ہر جج اپنی انفرادی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ دے اور یوں دو عدالتی فیصلوں کی الگ الگ نظیر قائم ہو جیساکہ حال ہی میں پاکستان میں 5ججوں کے بنچ اور 3ججوں کے بنچ کے فیصلوں میںہوا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک ہونا چاہئے جسے عدالتی فیصلہ کہا جائے نہ کہ اس جج کا فیصلہ یا اُس جج کا فیصلہ!
آپ کا مخلص جان مارشل
چیف جسٹس آف امریکن سپریم کورٹ

تازہ ترین