جو بات الائنس کے لفظ میں ہے وہ اتحاد میں کہاں۔ اور پھر گرینڈ الائنس میں جو رعب و دبدبہ ہے بھلا وہ ”بڑے اتحاد“ میں کہاں ہو سکتا ہے۔ گرینڈ کا ترجمہ بڑا ہی ہو گا نا؟ یعنی بڑا اتحاد ؟عظیم تو بہت ہی بھاری اور ثقیل لفظ ہے اور ہم ثقیل سے ڈرتے ہیں۔ اس لئے الائنس اور گرینڈ الائنس کہتے ہیں کہ یہ الفاظ ثقیل نہیں ہیں ۔اتحاد کہتے ہوئے ایسا لگتا ہے جیسے پھونک نکلا ہوا غبارہ ہوا میں اڑانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ اس لئے اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں ہم اسے الائنس کہتے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں کہ جس طرح نون لیگ اور ایم کیو ایم اکٹھے ہوئے ہیں اسی طرح دوسری جماعتیں بھی اکٹھی ہو جا ئیں تاکہ ہم اسے گرینڈ الائنس کہہ سکیں ۔گرینڈ الائنس ہو جائے تو ہماری ساری پرابلز ختم ہو جائیں گی ۔مہنگائی، بیروز گاری اور مار کٹائی نے تو ہماری جان ضیق میں کر رکھی ہے۔ معاف کیجے ، میں نے پھر ایک ثقیل لفظ لڑھکا دیا ۔دراصل آ ج کل میں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس کا نام ہے Chutnefying English ۔ یہ کتاب ہندوستان میں چھپی ہے بلکہ یہ کتاب ان مضامین کا مجموعہ ہے جو ایک ورکشاپ میں پڑھے گئے تھے ۔یہ ورکشاپ تھا اس موضوع پر کہ ہندوستان کے انگریزی لکھنے والے اپنے ناولوں اور افسانوں میں بلا تکلف ہندوستانی الفاظ استعمال کرتے چلے جاتے ہیں ۔ سوال کیا گیا تھا کہ کیا یہ طریقہ درست ہے؟اس سوال کا جواب ادب لکھنے والوں اور ماہرین تعلیم کے ساتھ فلم والوں نے بھی اپنے مضامین میں دیا ہے۔بعض لکھنے والوں نے ایسے الفاظ اتنے استعمال کئے کہ اب یہ فیشن ہی ہو گیا ہے۔ اب سب یہی کام کر رہے ہیں، ان میں ہمارے پاکستان کے انگریزی ناول لکھنے والے بھی شامل ہیں لیکن کتاب میں صرف انگریزی میں ہندوستانی الفاظ کے استعمال پر ہی بحث نہیں کی گئی ہے بلکہ ہماری اپنی زبان میں جس طرح انگریزی الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں ان پر بھی بحث کی گئی ہے۔کتاب چونکہ ہندوستان میں چھپی ہے اس لئے اس میں ہندی زبان کا ذکر ہی کیا گیا ہے لیکن بھائی، ہم اردو کے ساتھ بھی تو یہی کر رہے ہیں۔ ہماری بول چال میں انگریزی کے اتنے الفاظ آگئے ہیں کہ اب وہ ہماری تحریر میں بھی آنے لگے ہیں۔ ہم جیسے پرانے لوگ اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں لیکن نئی نسل اسی زبان کو آسان سمجھتی ہے۔ عام لوگ بھی یہی ملغوبہ زبان بولتے ہیں۔ انہیں ہماری شستہ اور ثقہ زبان مشکل لگتی ہے ۔اخبار اور ٹی وی چینل چونکہ عام لوگوں کے لئے ہوتے ہیں اس لئے وہ بھی یہی زبان استعمال کرنے لگے ہیں۔
معاف کیجئے، میں اس ملغوبہ زبان کی حمایت نہیں کر رہا ہوں بلکہ یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ آخر ہم نے اس موضوع پر غور کر نے کی کوشش کیوں نہیں کی ؟ ایسے کام ہندوستان میں ہی کیوں ہوتے ہیں، پاکستان میں کیوں نہیں ہو تے؟ ہم زیادہ سے زیادہ ان لوگوں اور اداروں کا مذاق اڑا دیتے ہیں جو یہ ملغوبہ زبان استعمال کرتے ہیں یا پھر افسوس کرتے ہیں کہ ہائے ہماری زبان کے ساتھ کیا ستم کیا جا رہا ہے۔تجزیہ نہیں کرتے کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ڈاکٹر انوار احمد نے ابھی ابھی مقتدرہ قومی زبان کی باگ ڈور سنبھالی ہے۔ میں آتے ہی ان پر یہ بوجھ ڈالنا نہیں چاہتا لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ کام مقتدرہ کا ہے کہ وہ اس موضوع پر ماہرین کو اکٹھا کر کے بحث کرائے۔ مقتدرہ کا ذکر آگیا ہے تو انوار احمد کو یہ بھی یاد دلا دوں کہ افتخار عارف نے اردو انگریزی لغت کا جو کام شروع کرایا تھا اسے ضرور مکمل کرائیں اور جلدی مکمل کرائیں ۔ ڈاکٹر صفوان نے اس پر کافی کام کر بھی لیا ہے۔ شاید اس لغت سے ہی ہم اپنی زبان کی پاکیزگی برقرار رکھ سکیں۔ اخبار اور ٹی وی چینل والے بھی اس سے فائدہ اٹھا لیا کریں گے کہ جہاں انہیں انگریزی لفظ کا اردو مترادف نہ ملا تو فوراً یہ لغت دیکھ لی۔ مگر پھر وہی سوال ہے کہ کیا زبان کی پاکیزگی برقرار رکھنا ضروری ہے؟ اور کیا زبان کی پاکیزگی اس میں سے انگریزی الفاظ نکال کر ہی برقرار رکھی جا سکتی ہے؟ یعنی انگریزی کے وہ الفاظ جو ہماری عام بول چال میں شامل ہو گئے ہیں؟ اب یہاں ایک اور پریشانی بھی ہے ۔ اپنے شاہد حمید جنہوں نے دس سال کی محنت سے ایک ضخیم انگریزی اردو لغت مرتب کرڈالی ہے، کہتے ہیں کہ ہم جو انگریزی لکھتے ہیں وہ صحیح انگریزوں والی انگریزی نہیں ہے، یہ ہماری اپنی انگریزی ہے۔ گویا انگریزوں کو بھی اپنی زبان کی پاکیزگی کا خیال کرنا چاہئے۔ اچھا، چھوڑیئے ان باتوں کو، پہلے وہ کتاب پڑھ لیجئے جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے۔