مسلمان تو کیا، انسان بھی کہلانے کا مستحق نہیں جس کی ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ نہ ہوں۔ روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر نہ تڑپے تو دل نہیں پتھر ہوگا۔ شام اور یمن میں مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کے قتل عام پرنمناک نہ ہو تو مسلمان کی آنکھ نہیں ہوسکتی اور وہ پاکستانی نہیں جو افغانستان کی بدحالی سے پریشان نہ ہولیکن سوال یہ ہے کہ ہماری ترجیحات کیا ہیں۔ یقیناً یہ نبی رحمتﷺ ہی کا ارشاد ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں لیکن یہ بھی تو اسی نبی مہربان ﷺ کا فرمان ہے کہ تم سے پہلے اپنے گھراور اپنے دائرہ اختیار کا پوچھا جائے گا۔ پھر کیا یہ حقیقت نہیں کہ اپنا پاکستان کچھ حوالوں سے شام ہے تو کچھ حوالوں سے فلسطین، کچھ حوالوں سے ایتھوپیا ہے تو کچھ حوالوں سے روہنگیا۔ ہمارا اپنا مقبوضہ کشمیر ستر سال سے ہندوستان کے زیرتسلط ہے۔ ہم اس کو تو آزاد نہیں کراسکے لیکن ہم کبھی فلسطین تو کبھی عراق کی آزادی کا بیڑہ اٹھائے پھرتے ہیں۔ اپنے ملک میں لاکھوں لوگ بھوکے سوتے ہیں ، کروڑوں غربت سے نیچے زندگی گزارتے ہیں لیکن ہم عرب و عجم کی لڑائیوں کو اپنے گھر کے اندر لے آتے ہیں۔ پاکستان میں بھی شام کی طرح مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل روز کا معمول ہے لیکن اس کا حل نکالنے کی بجائے ہم شام ، ایران، عراق اور سعودی عرب کی لڑائیوں کو اپنے گھر میں لڑرہے ہوتے ہیں۔ فاٹا، گلگت بلتستان کے پاکستانیوں کو ان کے بنیادی انسانی اور آئینی حقوق تونہیں دلواسکتے لیکن اپنی سڑکوں کو کبھی برما تو کبھی چیچنیا کی خاطر بند کرتے رہتے ہیں۔ یوں تو پوری پاکستانی قوم اور قیادت کا بحیثیت مجموعی یہ رویہ ہے لیکن مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے بعض رہنمائوں نے تو اس روش کو مستقل دھندہ بنا رکھا ہے۔ وہ جیسے انتظار کررہے ہوتے ہیں کہ دنیا کے کسی خطے میں مسلمانوں سے متعلق کچھ ہو تاکہ وہ اس پر پاکستان میں اپنی سیاسی دکان چمکا سکیں۔ وہ کبھی یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی اس روش کا پاکستان کو فائدہ ہوگا یا نقصان بلکہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ جس خطے کے مسلمانوں کے نام پر وہ یہ سب کچھ کررہے ہوتے ہیں ، ان کو کوئی فائدہ بھی پہنچے گا یا نہیں۔ وہ بس یہ دیکھتے ہیں کہ کونسا ایشو ہوگا کہ جس پر وہ پاکستان کے سادہ لوح مسلمانوں کے جذبات سے کھیل سکیں گے۔ چند دن اس سے سیاست کرکے پاکستان کے دشمنوں میں اضافہ کرلیتے ہیں اور پھر اسے بھلا کر نئے ایشو کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ آج افغانستان کے حوالے سے پاکستان پر جو غیرمعمولی عالمی دبائو ہے ، حقیقت میں اس کے ذمہ دار بعض ریٹائرڈ جرنیل اور یہی لوگ ہیں۔ یہ مولانا فضل الرحمان ، مولانا سمیع الحق اور قاضی حسین احمد مرحوم تھے جنہوں نے دفاع پاکستان کو چھوڑ کر دفاع افغانستان کونسل بنائی تھی۔ اس کی آڑ میں وہ افغانستان سے ہمدردی رکھنے والے پاکستانی مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتے رہے۔ مولانا فضل الرحمان نے تو دھمکی دی تھی کہ اگر امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہ امریکی بحری بیڑے کو بحیرہ ہند میں ڈبودیں گے۔ پھر وہ امریکہ افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ تب انہوں نے دفاع افغانستان کونسل کو ایم ایم اے میں بدل کر اس کے نام پر اقتدار حاصل کیا۔ نہ ایم ایم اے کے کسی لیڈر نے اپنے بچے کو افغانستان بھیجا اور نہ کسی نے امریکی بیڑے کا کچھ بگاڑا۔ان مظاہروں کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچا۔ ہزاروں پاکستانیوں کے بچے افغانستان میں لقمہ اجل بنے اور یہ صاحبان خیبرپختونخوا کے حکمران بن کر سترویں آئینی ترمیم کے ذریعے پرویز مشرف کی حکمرانی کو سند جواز فراہم کرتے رہے۔ پھر انہوں نے عراق کے نام پر دکان گرم کردی اور پاکستان کے دشمنوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔ صدام حسین اور معمرقذافی تو بعض لیڈروں کے ذاتی محسن تھے لیکن آج کوئی صدام کانام لیتا ہے اور نہ قذافی کا۔ جو کچھ کرنا تھا ، امریکیوں نے کرلیا۔ پھر کچھ عرصہ یمن اور شام کے نام پر پاکستان میں سیاسی دکانیں گرم رہیں اور سب نے کماحقہ کوشش کی ایران اور سعودی عرب کی جنگ کو پاکستان منتقل کردیں۔ دفاع پاکستان کونسل ہو، ملی یکجہتی کونسل یا پھر کوئی اور دھندہ۔ کہیں ایران کا پیسہ استعمال ہورہا ہے اور کہیں کسی برادر ملک کا۔
باقی ایشوز تو بدلتے رہتے ہیں اور جہاں معاملہ گرم ہواس کی آڑ میں سیاست چمکائی اور پاکستان کے دشمنوں میں اضافہ کیا جاتا ہے لیکن فلسطین ایک ایسا ایشو ہے جو مستقل ہے۔ مکرر عرض ہے کہ مکہ اور مدینہ کے بعد بیت المقدس مسلمانوں کے لئے مقدس ترین جگہ ہے۔ وہ مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں کہ جس کا دل فلسطینی مظلوموں کے ساتھ نہ دھڑکے لیکن سوال یہ ہے کہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن یعنی ہندوستان سے برسرپیکار پاکستان اس کے لئے اور کیا کرسکتا ہے ؟۔ خود درجنوں عرب ممالک نے فلسطین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں لیکن پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس کے پاسپورٹ پر لکھا ہے کہ یہ اسرائیل کے لئے کارآمد نہیں۔ عالمی فورمز پر جب بھی موقع آیا ، پاکستان میں کوئی بھی حکومت رہی، اس نے فلسطین کا ساتھ دیا۔ حالیہ دنوں میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کرنے کا اعلان کیا تو حکومت پاکستان نے بھرپور انداز میں مذمت کی۔ اقوام متحدہ کے فورم پر پاکستان نے فلسطین کے سب بڑے وکیل کا کردار ادا کیا۔ فلسطین کے مامے چاچے بننے والے عرب حکمران خود اسی ڈونلڈ ٹرمپ کے قدموں میں بیٹھے ہیں لیکن امریکی اور عرب ممالک کی امداد پر پلنے والے اس غریب پاکستان کی حکومت نے اس معاملے پر بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو للکارا تاہم موقع چونکہ پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیلنے کا تھا ، اس لئے مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے سیاسی رہنما میدان میں اترے۔ وہ حضرت مولانا فضل الرحمان جن کو کشمیر کمیٹی کا سربراہ بنا کر ہم نے انہیں اس کی آزادی کا ٹاسک سونپ رکھا ہے اور ماشاء اللہ ابھی تک اس معاملے میں رتی بھر پیش رفت بھی نہیں کرسکے ، کی جماعت بھی میدان میں نکل آئی۔ اور تو اور جنوبی وزیرستان میں فلسطین کے نام پر مظاہرہ کیا اور اس نام پر لوگوں کو اکٹھا کرکے اس میں فاٹا کے عوام کو اپنے بنیادی حقوق سے محروم رکھنے کے لئے انضمام کے خلاف بینرز اٹھا لئے۔ اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے دھمکی دی تھی کہ اگر دسمبر کے آخر تک فاٹا کو پختونخوا میں ضم نہ کیا گیا تو وہ اسلام آباد میں دھرنا دیں گے لیکن اسے بھلا کر وہ فلسطین کے نام پر ملین مارچ کرنے لگے۔ مولانا سمیع الحق نے سوچا کہ وہ کیوں پیچھے رہیں چنانچہ انہوں نے دفاع پاکستان کونسل اور ملی یکجہتی کونسل کو متحرک کرکے سیمیناروں اور کانفرنسوں کا انعقاد شروع کیا۔ یہ تماشہ الگ رہا کہ منصوبہ بندی دنیا کے سب سے بڑے ’’مجاہد‘‘ شیخ رشید احمد کی لال حویلی میں ہوتی رہی۔ جماعت الدعوۃ کے حافظ سعید صاحب نے سوچا کہ وہ کیوں پیچھے رہیں۔ یہ نہیں سوچا کہ ہندوستان ان کے پیچھے پڑا ہوا ہے۔ امریکہ ہندوستان کا ہمنوا ہے اور ان کے نام پر پوری دنیا میں پاکستان کو بلیک میل کیاجارہا ہے۔ تنظیم انہوں نے کشمیر کی آزادی کے لئے بنائی تھی جو بدستور غلام ہے لیکن وہ اب کبھی امریکہ اور کبھی اسرائیل کو پاکستان کے خلاف برہم کرتے رہتے ہیں۔ جیل سے رہا ہوئے ان کو چند روز گزرے تھے اور ابھی ان کی رہائی پر امریکہ اور ہندوستان کا شوروغوغا گرم تھا کہ وہ سیدھے مولانا سمیع الحق کی قیادت میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف جلسے میں شرکت کے لئے راولپنڈی پہنچ گئے۔ ظاہر ہے ان جلسوں سے امریکہ یا اسرائیل کا کیا بگڑنا تھا لیکن انہوں نے اپنے ساتھ پاکستان میں فلسطینی سفیر کو بھی اسٹیج پر بٹھا دیا۔ یہاں ان سب نے تقریریں کیں کہ وہ فلسطین کی خاطر امریکہ اور اسرائیل تو کیا پوری دنیا سے ٹکر لینے کو تیار ہیں۔ جلسہ کرکے اور سیاست چمکا کے یہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو واپس چلے گئے لیکن اگلے دن ہندوستان نے فلسطینی اتھارٹی سے شکایت کی۔ چنانچہ آئو دیکھا نہ تائو اور فلسطینی اتھارٹی نے پاکستان میں سالوں سے متعین اپنے سفیر کو فوراً واپس بلا لیا۔ صرف اس پر اکتفا نہیں کیا بلکہ فلسطینی اتھارٹی نے پاکستان کو رسوا کرنے کے لئے ایک بیان بھی جاری کیا جس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہندوستان کے کردار کو سراہتے ہوئے اسے فلسطین کا قریبی دوست اور اتحادی قرار دیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ چونکہ راولپنڈی میں القدس کی حمایت میں منعقدہ جلسے میں ان کے سفیر ایک ایسے شخص (حافظ سعید) کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھے جو دہشت گرد ہے اس لئے اس اقدام کو ناقابل برداشت قرار دے کر پاکستان سے فوراً واپس بلا لیا گیا ہے۔ اس بیان میں فلسطین کی آزادی کے لئے ہندوستان(جو اسرائیل کا قریب ترین دوست اور اتحادی ہے ) کی خدمات کو سراہا گیا ہے جبکہ فلسطین کی خاطر اسرائیل اور امریکہ کو اپنا دشمن بنانے والے پاکستان کو عالمی سطح پر رسوا کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اسرائیل کے اسٹرٹیجک اتحادی ہندوستان کو یہ صلہ اور وہ پاکستان کو اس انداز میں بدلہ۔ اس پر افسوس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے ، سوائے اس کے کہ دنیا بھر کی جنگوں کو پاکستان میں لانے والے ان صاحبان سے کہا جائے کہ ٹھنڈ پڑ گئی؟ لیکن مجھے یقین ہے کہ ٹھنڈ ابھی بھی نہیں پڑے گی کیونکہ یہ سیاسی دھندہ ہے اور اس دھندے کو اسی طرح گرم رکھا جائے گا خواہ اس کی قیمت مشکلات میں گھرے پاکستان کو کسی بھی شکل میں ادا کرنا پڑے۔