• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھتہ خور معاشرہ...چوراہا … حسن نثار

زندگی کے تقریباً انتالیس سال باقاعدہ پیشہ ورانہ طور پر لکھائی پڑھائی میں بسر کئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اس طویل دورانیہ میں صرف تین چار مواقع ہی ایسے آئے جب اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے میں لفظوں کے قحط کا شکار ہوا یعنی محسوس کرنے اور کہنے کو بہت کچھ تھا، لکھنے کیلئے لفظ کافی اور مناسب نہیں تھے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ کسی اچانک صدمے کے تحت سنگتراش تیشہ چلانا بھول جائے، مصور کو یہ سمجھ نہ آئے کہ کینوس کے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے، موسیقار سر لگانا مشکل جانے، شاعر مصرعے کے ساتھ انصاف نہ کر سکے یا سپاہی اچانک ہتھیار کے استعمال ہنر کھو دے۔
آج مجھے ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے
کیا ہمارے پلے کچھ بھی باقی رہ گیا ہے؟
ناکام ریاست اور بدنام معاشرہ اور کیسا ہوتا ہے؟
عزت مآب چیف جسٹس کے اس ایک جملے پر غور کریں جس نے میرے اندر کے سائبیریا میں ان گنت خیال اور جملے جامد کر دیئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا …
”ہمیں بتایا گیا ہے کہ بھتہ خوری میں پیپلز پارٹی، اے این پی، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، سنی تحریک اور کالعدم تنظیمیں ملوث ہیں“۔
باقی کیا رہ جاتا ہے؟ باقی کون بچتا ہے؟
سچ تو یہ ہے کہ بھرم بھی باقی نہیں رہ گیا اور پورا سچ یہ ہے کہ حکومتوں سے لے کر صنعت کاروں تک، تاجروں سے لے کر دکانداروں تک … اوپر سے لے کر نیچے تک، دائیں سے لے کر بائیں تک ہر کوئی کسی نہ کسی شکل میں بھتہ خوری کر رہا ہے۔ فرق ہے تو صرف اتنا کہ کہیں یہ بدمعاشی غیر قانونی ہے اور اکثر جگہ اسے ”قانونی“ حیثیت حاصل ہے۔ کہیں بھتے کو چندہ، ٹیکس، فیس، معاوضہ، کنسلٹیشن، رشوت، سپیڈ منی، منافع، کمیشن، جرمانہ، نذرانہ، چڑھاوا، تحفہ، ہدیہ یا کچھ اور کہا جاتا ہے… اور کہیں بھتہ کو صرف بھتہ ہی کہا جاتا ہے تو شیکسپیئر یاد آتا ہے جس نے کچھ یوں سا کہا تھا کہ … گلاب کو کسی بھی نام سے پکارو، وہ گلاب ہی رہے گا۔ شیکسپیئر مسلمان اور پاکستانی ہوتا تو چیخ اٹھتا اور کہتا …
عذاب کو کسی بھی نام سے پکارو، وہ عذاب ہی رہے گا اور بھتے کو جیسا بھی نام دے لو وہ بھتہ ہی رہے گا۔
بدن فروش طوائف کو ”سیکس ورکر“ کہنے سے اس کا کردار نہیں بدل جاتا، ولد الحرام کو ”سنگل پیرنٹ چائلڈ“ کہنے سے بے گناہ کی کہانی نہیں بدل جاتی، معذور بچوں کو ”سپیشل چلڈرن“ کہنے سے ان کی معذوری ختم نہیں ہوتی، تیسری دنیا کے تیسرے درجے کے ملکوں کو ”ترقی پذیر ممالک“ کہنے سے ان کا سٹیٹس نہیں بدلا جا سکتا تو بھتے کو ”ٹیکس“ یا ”منافع“ کہنے سے بھی یہ حرام کبھی حلال نہیں کہلائے گا۔ شراب شربت کی بوتل میں شراب ہی رہے گی اور خنزیر پر زیبرے جیسی لکیریں کھینچ دینے سے وہ زیبرا نہیں ہو جائے گا اور نہ ہی اس پر بکرے کا میک اپ کرنے سے وہ حلال قرار پائے گا۔
میں پوری ذمہ داری، دیانتدری اور غیر جانبداری سے کہتا ہوں کہ اس اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تمام تر معیشت بھتے پر چل رہی ہے۔ کبھی تنکا نہ توڑنے والوں پر زرعی انکم ٹیکس نہ لگانا اور معصوم بچے کی ٹافی کینڈی پر بھی ٹیکس وصولنا سو فیصد بھتہ وصولی ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر منافع کی شرمناک حد تک بڑھی ہوئی شرح بھتہ خوری نہیں تو اور کیا ہے؟ گھمبیر باتیں چھوڑیں اور اپنے ارد گرد غور سے دیکھیں اور پھر گھر بیٹھ کر ورک آؤٹ تو کریں کہ یہاں کوئی دو سو فیصد سے کم منافع خوری پر راضی نہیں مثلاً ذرا حساب لگائیں کہ ایک عام سموسہ گھر میں کتنے کا پڑتا ہے اور کھوکھے پر کتنے میں بیچا جاتا ہے؟ اسی طرح کبھی چاٹ اور دہی بھلوں کی لاگت کا تخمینہ لگا کر موازنہ کریں۔ معلوم کریں کہ کون سا پھل یا سبزی، منڈی میں کس بھاؤ ہے اور ریڑھی پر اس کا ریٹ کیا ہے؟ چکن بریانی گھر میں بنائیں اور پھر اس کا موازنہ موڑا ہوٹل کی پلیٹ سے کریں ۔میں کسی تھری فور، فائیو سٹار ہوٹل سے موازنہ کی بات نہیں کر رہا ۔
عرض کرنے کا مقصد یہ کہ بھائی! ناجائز بلکہ یوں کہئے کہ اک حد تک بڑھا ہوا منافع یا فیس بھی بھتہ کی ہی ایک ”معزز“ شکل ہے اور یہاں ہر کوئی حصہ بقدر جثہ کے تحت بھتہ وصولی میں مصروف ہے۔ جس کی جتنی بڑی چونچ یا جتنا وسیع و عریض جبڑا ہے وہ اتنی ہی بڑی ”بوٹی“ اتار رہا ہے یا بکرا پھڑکا رہا ہے۔
سمجھ نہیں آتی کہ یہاں ظالم کون ہے اور مظلوم کون؟ یہاں قاتل کون ہے اور مقتول کون؟ استحصال کا شکار ہونے والے خود بھی استحصالی ہیں، بھتہ خوری کا نشانہ بننے والے اپنے اپنے طور پر اپنے اپنے طریقوں سے خود بھی بھتہ خور ہیں۔
”اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے“
اور یہی وہ کیفیت ہے جسے ٹھیک سے بیان کرتے ہوئے مجھے الفاظ اور ایکسپریشن کے قحط کا سامنا تھا… ہائے۔ طوفانوں اور گردابوں میں گھری وہ بدنصیب کشتی جس کے ملاحوں اور مسافروں نے اسے غرق کرنے پر ایکا کر لیا ہے!
تازہ ترین