• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
New Challenges For Media

پاکستانی الیکٹرونک میڈیاگزشتہ چندسالوں میں نئی بلندیوں پرپہنچ چکا ہےاوریہ ریاست کا ایک مضبوط اور طاقتورجزبن چکاہے۔ اس نے بےشماراندرونی اوربیرونی مشکلات اور دبائو کاسامنا کیاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے بہت سے مثبت پہلو ہیں اوریہ معلومات کاایک طاقتور ذریعہ بن چکاہے لیکن مشکل وہاں ہوتی ہے جہاں ریٹنگزاور’جعلی خبر‘پیشہ ورانہ اقدار کو یرغمال بنا لیتی ہےاورغلط معلومات حقیقی معلومات کی جگہ لےلیتی ہیں۔

میڈیا ایجنڈا سازی کیلئے نہیں ہےلیکن اس کی بنیادی ذمہ داری حقیقی معلومات کی فراہمی ہے اور حقائق پر مبنی خبریں دیناہے۔ سچائی صحافت کی بنیادہے۔ ان مشکلات کاحل مسائل پرتوجہ دینے پرمنحصرہے۔ جب تک چینلز یا پروگرام کی ریٹنگ منافع کا ذریعے رہےگی، تب تک اینکرز اور ڈائریکٹرنیوزاور پروگرامنگ مستقل دبائو میں رہیں گی اوراس طرح کےمسائل اعلیٰ سطح یعنی پاکستان سپریم کورٹ میں زیرنگرانی رہےہیں گے۔

مسئلےکا ایک بنیادی حل یہ ہے کہ خبروں اورپروگرامنگ ڈیپارٹمنٹ سےریٹنگ کاپریشرکم کیاجائےاوراِسے مارکیٹنگ کی طرف منتقل کیاجائے کیونکہ اشتہارات لانا کسی صحافی یا اینکرکاکام نہیں ہے۔ اُن کا کام حقائق پرمبنی خبریں اکٹھی کرناہے اورایک اینکرکاکام مضبوط مواد پرمشتمل پروگرام کرناہے۔ وہ اداکاریا مارکیٹنگ کے لوگ نہیں ہیں وہ ایسا کام نہیں کرسکتے جس کی انھیں تربیت ہی نہیں دی گئی۔

اگر میڈیاہائوسزاور مشتہرین ’ریٹنگز‘ کاحل نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور ’منفی‘ اور غلط معلومات پر مبنی خبروں اور شوز کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں تو صحافی اوراینکرزاپنا کام مزیدپیشہ ورانہ انداز میں کرسکیں گے۔

پاکستانی میڈیا کو’عطا ئیوں‘ کی بجائےاچھے پیشہ ورانہ صحافیوں، ایڈیٹرزاور نیوز اورپروگرام ڈائریکٹرزکی ضرور ت ہے۔ اگرہم ریٹنگ کا حل نکالنےمیں ناکام رہے توممکن ہےکہ خبروں کو توڑمر وڑکرپیش کرنے کارجحان جاری رہےگا۔

اتوار کولا ہور میں سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی گئی جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نامور اینکر ڈاکٹرشاہد مسعود کی جانب سےاپنے شومیں دی گئی مبینہ ’معلومات‘ کی تحقیقات کرےگی اور وہ اپنے دعوے پرقائم ہیں لہذا سچائی کوجےآئی ٹی میں پیش کرنے کابوجھ اب اُن پر ہے۔

اگر اینکراپنے دعوؤں کے مطابق ملزم کےبینک اکائونٹس اور وفاقی وزیراوراُن کے دوستوں کےتعلقات سے متعلق شواہد یا ریکارڈ جےآئی ٹی کےسامنے پیش کرنےمیں کامیاب ہوتے ہیں تویہ رپورٹ کسی بھی ’تحقیقاتی صحافت‘ کی کتاب کا حصہ بن سکتی ہے۔

تازہ ترین