• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج آپ کو ایک مثالی تعلیمی ادارے کے بارے میں کچھ بتلانا چاہتا ہوں۔ جیسا کہ آپ اندازہ کرسکتے ہیں یہ سرکاری ادارہ نہیں ہوسکتا اور ملک میں جو چند اچھے اور مثالی ادارے ہیں وہ نجی سیکٹر میں ہیں۔ سرکاری اداروں میں HEJ نے اچھا نام پیدا کیا ہے وہ اس وجہ سے کہ وہاں سیاست نے جگہ نہیں بنائی۔
پچھلے دنوں مجھے مہمان خصوصی کے طور پر شفا تعمیر ملّت یونیورسٹی اسلام آباد کے پانچویں کنووکیشن میں مدعو کیا گیا تھا۔ یہ جناح کنوینشن سینٹر میں منعقد کیا گیا تھا۔ مجھے اس میں شرکت کی دعوت دینے کے لئے پروفیسر ڈاکٹر منظور الحق قاضی چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال خان وائس چانسلر، اور میرے نہایت عزیز سابق ساتھی اور اچھے ڈاکٹر کرنل محمد نعیم بذات خود تشریف لائے۔ میں اس اسپتال اور یونیورسٹی کے اعلیٰ کام سے پوری طرح واقف ہوں۔ اس اسپتال کی تعمیر پرانے مرحوم دوست ڈاکٹر ظہور نے اپنے چند امریکہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں سے مل کر کی اور اس میں بہت محنت کی۔ نہ صرف اسپتال کی تعمیر کی بلکہ تعمیر ملت نامی تعلیمی اداروں کی بنیاد بھی ڈالی۔ یہ نہایت اعلیٰ تعلیمی ادارے ہیں۔ میں نے تقریباً 16 برس پیشتر فتح جنگ سے کچھ دور واقع ایک ایسے اسکول کا معائنہ کیا تھا طبیعت خوش ہوگئی تھی۔
تعمیر ملّت یونیورسٹی اسلام آباد میں شفا انٹرنیشنل اسپتال کے قریب واقع ہے۔ یہ حکومت پاکستان، ہائر ایجوکیشن سے منظور شدہ ہے۔ یہ ایک فلاحی ادارہ ہے اور بغیر منافع کے خدمت خلق کام کرتا ہے۔ ان کے پاس امریکہ اور یورپ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر کام کررہے ہیں اور حساس بیماریوں کے علاج کیلئے ماہرین موجود ہیں۔
یہ نا صرف جدید اعلیٰ تعلیم کا درس دیتے ہیں بلکہ ایسے امراض کا علاج بھی کرتے ہیں۔ یہ جوائنٹ کمیشن انٹرنیشنل (JCI) سے منظور شدہ ادارہ ہے اور بین الاقوامی معیار کے علاج اور سہولتیں فراہم کرتا ہے۔ باہر کے مقابلے میں یہاں علاج کے مصارف بہت کم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا یہ واحد تعلیمی اسپتال ہے جہاں جگر اور گردے تبدیل کئے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید اختر اور ڈاکٹر کامران مجید بین الاقوامی شہرت کے حامل ڈاکٹر ہیں۔ اسی طرح دوسرے ڈاکٹر بھی اپنے فن میں بین الاقوامی شہرت کے مالک ہیں۔
شفا انٹرنیشنل اسپتال میں ایک فلاحی سیکشن بھی ہے جہاں مستحق مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے اور تقریباً یومیہ 500 مریض اس سہولت سے فیضیاب ہوتے ہیں جن کا علاج بھی ماہرین ہی کرتے ہیں۔
تعمیر ملّت فائونڈیشن اس وقت تقریباً 400مدارس چلا رہی ہے اس میں ہزاروں طلبہ اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ ڈاکٹر ظہیر نے اس ادارے کے قیام میں بہت محنت کی تھی۔ ان اسکولوں میں اعلیٰ سہولتیں موجود ہیں اور اچھے تجربہ کار، تربیت یافتہ اساتذہ بچوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ اس ادارے کی خاص اور قابل تحسین بات یہ ہے کہ انہوں نے ملک کے پسماندہ علاقوں میں یہ اعلیٰ اسکول کھولے ہیں۔ وہاں کے بچے تعلیم حاصل کرکے ملک کی تعمیر میں ایک مثبت رول ادا کررہے ہیں۔
شفا تعمیر ملت یونیورسٹی اور اس سے ملحقہ ادارے، شفا کالج آف میڈیسن، شفا کالج آف نرسنگ، نیشنل کالج آف بزنس ایند مینجمنٹ سائنسز، شفا کالج آف فارماسیوٹیکل سائنسز، ڈیپارٹمنٹ آف الائیڈ ہیلتھ سائنسز، شفا کالج آف میڈیکل ٹیکنالوجی، شفا اسکول آف ہیلتھ پروفیشنلز ایجوکیشن اور ڈیپارٹمنٹ آف کلینکل سائیکولوجی ملکی اور غیرملکی (بین الاقوامی) معیار پر اُتر رہے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اِس یونیورسٹی میں طلبہ اور اَساتذہ کا تناسب چھ ۔ایک کاہے جو بہت ہی اچھا ہے۔ اس اعلیٰ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ڈاکٹر مُلک میں اور بیرون ملک بہت اچھا نام پیدا کررہے ہیں۔
جب میں چانسلر، وائس چانسلر اور مہمان ِ امتیازی پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد (چیئرمین ایچ ای سی) اور اساتذہ کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تو تمام حاضرین نے کھڑے ہوکر ہمیں خوش آمدید کہا۔ تمام ڈاکٹروں، ان کے عزیز و اقارب نے خاص طور پر میری بہت عزّت افزائی کی اور محبت کا اظہار کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی جس کو چاہے عزّت دیتا ہے۔ پوری قوم جس طرح مجھ سے محبت کا اظہار کرتی ہے وہ کوئی بھی شخص دنیا کی پوری دولت دے کر بھی نہیں خرید سکتا۔ یہی چیز دل کو سکون (اور اللہ کی شکرگزاری) دیتی ہے کہ عوام کو چند لوگ بیوقوف نہیں بناسکتے۔ وہ جانتے ہیں کہ میرے رفقائے کار اور میں نے اپنی جانیں لگا کر اس ملک کو ناقابل تسخیر دفاع مہیا کیا ہے جس کی وجہ سے وہ بے فکر اپنے کام کاج، تلاش رزق اور مذہبی فرائض انجام دے سکتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال خان، وائس چانسلر، نے یونیورسٹی کی کارکردگی پر روشنی ڈالی اور پھر تمام محکموں کے سربراہوں نے اپنے اپنے طلبہ ڈگری کے لئے پیش کئے اور چانسلر ڈاکٹر منظورالحق نے ان کی ڈگریاں منظور کیں۔ طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے چونکہ میں دیر تک کھڑا نہیں ہوسکتا تھا اسلئے Ph.D کی ڈگریاں حاصل کرنے والوں اور گولڈ میڈل حاصل کرنے والوں کو میں نے ڈگریاں اور گولڈ میڈل دیئے۔ باقی ذمّہ داری عزیز و قابل دوست ڈاکٹر مختار احمد نے سنبھال لی۔ تقریب بہت ہی اعلیٰ اور روح پرور تھی۔
ایسے اہم مواقع پر آپ کو چھوٹی تقریر بھی کرنا پڑتی ہے۔ میں نے تمام عہدیداران، مہمان گرامی، تمام فارغ التحصیل طلبہ کو مخاطب کرکے مبارکباد دی اور چانسلر اور وائس چانسلر کا دلی شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس اہم اور پُروقار تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ تمام طلبا اور ان کے عزیز و اقارب، اساتذہ کو مبارکباد دی کہ فارغ التحصیل طلبا اب زندگی کے اہم دور میں داخل ہورہے ہیں اور یہ کہ یہ موقع یقیناً ان کے لئے بہت اہم ہے۔ میں نے تمام ٖڈاکٹروں سے درخواست کی کہ وہ اپنے حلف اور پیشے کے تقدس کا خیال رکھیں۔ اور بلامذہب، برادری، رنگ، رتبہ وغیرہ مریضوں کا علاج کریں۔
میں نے ان کو لاہور میں علامہ اقبال میڈیکل کالج میں دو مرتبہ مہمان خصوصی کے طور پر شرکت کرنے کے تجربہ کے بارے میںبتایا کہ ایک مرتبہ ماہر نفسیات ڈاکٹر مبشر ملک یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر تھے اور پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم (موجودہ وائس چانسلر ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز) اس وقت کالج کے پرنسپل تھے۔
دوسری مرتبہ نہایت عزیز دوست پروفیسر ڈاکٹر جنرل اسلم وائس چانسلر تھے اور پروفیسر ڈاکٹر محمود شوکت پرنسپل تھے۔ اتفاقاً دونوں مرتبہ ’’ینگ ڈاکٹرز‘‘ نے اسٹرائک یعنی ہڑتال کی ہوئی تھی، مال روڈ بند تھی تمام OPD بند تھے اور غریب عوام بے یار و مددگار مارے مارے پھر رہے تھے۔ ہم چونکہ وہاں ایک 300 بستروں پر مشتمل اسپتال (فلاحی) بنا رہے ہیں اور دو سال سے زیادہ عرصے سے OPD اور ڈائلائسیز سینٹر چلا رہے ہیں ہم نے فوراً مقامی اخبارات اور ٹی وی اسٹیشن پر عوام کو یہ خبر دیدی کہ ہمارا OPD وغیرہ چوبیس گھنٹہ اور ہر دن کھلا رہے گا اور مریض مفت علاج ، مفت دوائیں حاصل کرسکتے ہیں۔
ہزاروں مریضوں نے اس سے استفادہ کیا۔ ہم اب تک لاکھوں مریضوں کا مفت علاج کراچکے ہیں اور سینکڑوں مریضوں کا روز علاج کرتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد میں بھی چار فلاحی میڈیکل سینٹر کھولے ہوئے ہیں جہاں سینکڑوں مریضوں کا روز مفت علاج کیا جاتا ہے اور مفت دوائیں دی جاتی ہیں۔ اور کراچی میں دماغی امراض کے علاج کے لئے بھی میں نے ایک اسپتال قائم کیا ہے۔
میں نے فارغ التحصیل طلبہ (ڈاکٹرز) سے درخواست کی کہ وہ انسانوں کی خدمت کریں اور اپنی مہارت سے ملک کا نام روشن کریں۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے نہایت اعلیٰ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا ہے اس سے فائدہ اُٹھائیں۔
میرے لئے یہ بہت ہی خوشگوار، روح پرور فنکشن تھا۔ میری نیک دُعائیں یونیورسٹی کے سربراہ، منتظمین، اساتذہ اور نئے ڈاکٹروں کے لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو تندرست و خوش و خرم رکھے، عمر دراز کرے، فرائض منصبی کی ادائیگی میں رہنمائی فرمائے۔ آمین۔ ثم آمین.

تازہ ترین