پشاور(ارشد عزیز ملک)خیبرپختونخوا حکومت کی سرکاری دستاویزات نے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے حوالے سے عمران خان کے دعوئوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے پیش کردہ اعدادوشمار کو غلط قرار دیا ہے جبکہ ساڑھے 12ارب روپے کے منصوبے کے اخراجات پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں،پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے دعویٰ کیا تھا کہ خیبرپختونخوا حکومت نے مختصر وقت میں صوبے کے مختلف علاقوں میں ایک ارب 18کروڑ پودے لگائے ہیں جس کو وہ ایک بڑی کامیابی قرار دے رہے تھے تاہم اب سوالات اٹھ رہے ہیں کہ اتنے مختصر وقت میں اتنی بڑی تعداد میں پودے کیسے لگائے جا سکتے ہیں‘ خیبرپختونخوا حکومت کی سرکاری دستاویزات کے مطابق65فیصد یعنی 75کروڑ 90لاکھ پودے قدرتی طور پر جنگلات میں اُگے ہیں‘ شجر کاری کے ذریعے 20فیصد یعنی 24کروڑ پودے لگائے گئے‘ 13فیصد یعنی 15کروڑ 30لاکھ پودے لوگوں میں مفت بانٹے گئے‘ خیبرپختونخوا حکومت نے مختلف فورمز پر دعویٰ کیا کہ بڑی تعداد میں پودے صوبے کے مختلف علاقوں میں لگائے گئے ہیں جبکہ چیئرمین پی ٹی آئی نے مختلف مواقع پر پودوں کی تعداد لگائے گئے پودوں سے 5گنا زیادہ ہونے کا دعویٰ کیا جو کہ حقیقت کے برعکس ہے‘ سرکاری دستاویزات کے تحت منصوبے پر اٹھنے والے اخراجات کی شفافیت پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں اور خیبرپختونخوا کی اپوزیشن جماعتوں نے بھی اس پر اعتراضات اٹھائے ہیں‘ ساڑھے12 ارب روپے کے پراجیکٹ میںنرسریوں کے انتخاب ٗپودوں کی خریداری ‘ تقسیم اور شجرکاری کے حوالے سے بھی بے قاعدگیوں اور بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے سارے عمل کی نگرانی محکمہ جنگلات کا نچلا سٹاف ہی کرتا رہاجس نے معاملات کو مشکو ک بنادیا ہے ۔300سے زائد اہلکاروں کو کرپشن‘ بدعنوانی‘ بے قاعدگیوں کے باعث معطل اور برطرف بھی کیاگیا ‘ڈبلیو ڈبلیوایف نے پراجیکٹ کے کنسلٹنٹ کے طورپرکام کیا اورتھرڈ پارٹی مانیٹرنگ بھی کی‘اس حوالے سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں بھی حکومتی اعداد وشمار پر اپوزیشن نے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا ٗمحکمہ انسداد رشوت ستانی کےاس وقت کے ڈائریکٹر ضیاء اللہ طورو نے بلین ٹری سونامی کے حوالے سے ملنے والی شکایات پر سابق چیف سیکرٹر ی کے بھائی کے خلاف کارروائی کی تو انھیں عہدے سے ہٹا کر کھڈے لائن لگادیا گیا۔ سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا حیدر ہوتی نے کہاہےکہ عمران خان کبھی سچ نہیں بولتے، یہ مالم جبہ طرز کا میگا اسیکنڈل ہے،نیب کو معاملہ کی تحقیقات کرنی چاہیے۔سیکریٹری جنگلات کا کہناہےکہ یہ ایک شفاف منصوبہ ہے،کئی اداروں نے پراجیکٹ کی مکمل جانچ پڑتال کی ہے۔ ادھر ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کہنا ہےکہ خیبر پختونخوا حکومت نے مشاورت کےلئے ڈیڑھ کروڑ دئیے، منصوبے کا صرف 20 فیصد چیک کیا۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق صوبہ بھر میں بلین ٹری سونامی کے تحت صرف 24کروڑ پودے لگائے گئے ہیںجبکہ 15 کروڑ 30 لاکھ تقسیم کئے گئے‘‘ پودوں کی خریداری کیلئے ٹینڈر جاری نہیں کیاگیا بلکہ پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر 6اور 9روپے کے حساب سے مہنگے داموں پودے خریدے گئے ‘مارکیٹ میں نرسری مالکان پودے مختلف قیمتوں پر فروخت کر تے ہیں تاہم ان کا موقف ہے کہ لاکھوں اور کروڑوں پودوں کیلئے ریٹ انتہائی کم بھی کیا جاتا ہے‘ محکمہ جنگلات نے جو پودے زیادہ تعداد میں لگائے ان کی مارکیٹ میں قیمت 2سے 5روپے کے درمیان بتائی جاتی ہے‘ سیکرٹری جنگلات نذر شاہ نے اعداد وشمار کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے کبھی بھی ایک ارب 18کروڑ پودے لگانے کا دعویٰ نہیں کیا ‘ صوبے میں 24کروڑ پودے لگائے گئے ہیں جبکہ 15کروڑ 30لاکھ پودے مفت لوگوں میں شجری کاری کیلئے بانٹے گئے ہیں جبکہ 73کروڑ 20لاکھ پودے نوپوداور2 کروڑ 70 لاکھ خودرو ہیں جو جنگلات میں حکومتی اقدامات کی بدولت خود بخود اگ آئےجن کو ملا کر ایک ارب 18کروڑ تعدادبتائی جاتی ہے ‘ پراجیکٹ ڈائریکٹر طہماسپ نے اعتراف کیا کہ مارکیٹ میںپودوں کی قیمت کم ہو سکتی ہے لیکن چونکہ حکومت نے براہ راست عوام سے خریدنے کی ہدایت کی تھی لہٰذا ٹینڈر کے بغیر 6اور 9روپے میں عام لوگوں سے تمام پودے خریدے گئے جوکہ توانا تھے‘ نرسریوں میں کمزور اور خراب پودے بھی ہوتے ہیں‘ اے این پی کے سابق وزیر اعلیٰ اور صوبائی صدر حید رخان ہوتی نے بلین ٹری سونامی کو ایک جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کبھی سچ نہیں بولا ہمیشہ جھوٹ کے ذریعےعوام کو گمراہ کیا ہے۔نیب فوری طور مالم جبہ کی طرح اس سکینڈل کی تحقیقا ت کرےاور ذمہ داروں کو سزا دے ۔اطلاعات تک رسائی کے قانون 2013ء کے تحت حاصل کردہ دستاویزات میں ایک ارب 18کروڑ پودے لگانے کا دعویٰ حقائق کے برعکس نکلا‘ محکمہ جنگلات کی دستاویزات کے مطابق 2014ء میں بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کاآغاز کیا گیا جس کے تحت صوبہ بھر میں ایک ارب پودے لگانے کا اعلان کیاگیا ‘ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے خط نمبر 2920/BTAP مورخہ 18دسمبر 2017ء کے مطابق 40فیصد پودوں کی بووائی کی گئی جبکہ 60فیصد پودے بذریعہ قدرتی نوپود آئے ہیں‘ قدرتی طور پر اگنے والے پودوں کی تعداد 73کروڑ 20لاکھ ہے جو 309683ہیکٹر رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں‘یوں شجرکاری کے ذریعے صرف 24کروڑ پودے بنجر زمینوں پرلگانے کا سرکاری ریکارڈ موجود ہے جس کی آزاد ذرائع سے باقاعدہ تصدیق نہیں ہو سکی ‘ریکارڈ کے مطابق 15کروڑ 30لاکھ پود ے لوگوں میں مفت بانٹے گئے تاکہ وہ اپنے گھروں میں شجرکاری کرسکیں جن میں سفیدہ ٗبیر ٗلاچی اورشیشم شامل تھے۔2کروڑ 70لاکھ خودرو پودے نکلے ‘27ٹن بیج ہیلی کاپٹر کے ذریعے پھینکا گیا‘ 24کروڑ پودوں کے لئےکیلئے 80فیصد پودے پرائیویٹ سیکٹر سے بذریعہ نرسری حاصل کئے گئے ‘سرکاری سطح پر 20فیصد نرسریاں اگائی گئیں‘نجی نرسریوں سے فی ٹیوب پودا 6روپے جبکہ چوڑی پتی والا فی پودا 9روپے کے عوض خریدا گیا‘پودوں کی خریداری کے حوالے سے بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کیونکہ بلین ٹری سونامی کیلئے کوئی سرکاری ٹینڈرہی طلب نہیں کیاگیا تھا‘ دستاویزات کے مطابق حکومت نے پودوں کی خریداری کیلئے 6اور 9روپے کا رخ مقرر کر رکھا تھا جبکہ اوپن مارکیٹ میں بڑی تعداد میں پودے خریدنے کی صورت میں ان پودوں کے نرخ 3گنا کم تھے البتہ پودوںکی خریداری کیلئے پی سی ون کے تحت کچھ شرائط رکھی گئیں جن کے مطابق نرسری لگانے والا مقامی باشندہ ہو‘ اس کی زمین اپنی ہو‘نرسری اگانے کی مکمل سہولیات میسر ہوں‘اس کے علاوہ پودوں کا نرخ ایک ہی ہونے کی وجہ سے بڑے زمینداروں کو بھی پراجیکٹ میں شامل کیا گیا ‘ مجموعی طور پر 13260 افرادسے پودے خریدے گئے جنھوں نے اپنی نرسریاں لگائیں۔ نوجوانوں سے 40فیصد‘ خواتین سے 10 فیصد ‘ بزرگ شہریوں سے10 فیصد اور نرسری مالکان سے 40 فیصد پودے خریدے گئے ‘ دستاویزات کے مطابق 25ہزار پودوں سے لیکربعض نرسریوں سے10لاکھ تک پودے خریدے گئےیوں بڑے زمینداروں اور منظورنظر افراد نے خاندان کے مختلف افراد کے ناموں پر پودوں کے بڑے آرڈر حاصل کئےجن کی بازگشت اسمبلی میں بھی گونجتی رہی ‘ پودوں کی خریداری اور دوبارہ اگانے کا عمل بھی مشکوک رہا کیونکہ اس کام کیلئے کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی تھی بلکہ محکمہ کا ایک فارسٹر یا فارسٹ گارڈ پودے خریدنے اور دوبارہ لگانے کا ذمہ دار تھا‘محکمہ انسداد رشوت ستانی کے سابق ڈائیریکٹر ضیاء اللہ طورو نے بلین ٹری سونامی کے حوالے سے ملنے والی شکایات پر کاروائی کی تو انھیں عہدے سے ہٹا کر کھڈے لائن لگادیا گیاحالانکہ انھیں پرویز خٹک خود بلوچستان سے خیبرپختونخوا لائے تھے۔بلین ٹری سونامی کے پہلے پی سی ون کے تحت کسی کو بھی چا ریونٹ یعنی ایک لاکھ سے زائد پودوں کی فراہمی کاآرڈز نہیں دیا جاسکتا تھا لیکن منظور نظر 100 افراد کو دس دس لاکھ پودوں کی فراہمی کاآرڈر دیا گیا جو قانون کی صریحا خلاف ورزی تھی تاہم میڈیا میں خبریں انے پر پی سی ون میں تبدیلی کرکے ایک لاکھ کی حد کو ختم کردیا گیا۔محکمہ انٹی کرپشن نےمردان میں سابق چیف سیکرٹری امجد علی خان کے بھائی ارشد علی خان کے گھر پر چھاپہ مارا جس پر چیف سیکرٹری ناراض ہوگئے ۔ارشد علی خان اعلی سرکاری افسر تھے اور انھیں دس لاکھ پودے فراہم کرنے کا آرڈر ملا تھاتاہم چھاپے کے دوران پودوں کی تعداد انتہائی کم تھی جس پر حکومت اور چیف سیکرٹری شدید برہم ہوئےانھیں اختلافات کے باعث انھیں عہدے سے ہٹادیا گیا تاہم ضیا ءاللہ طورونے اپنے تبادلے کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کرلیا جس میں تمام حقائق موجود ہیں ۔ذرائع کے مطابق مبینہ طورپر پرویز خٹک ٗ ملک قاسم خٹک اور دیگر رہنمائوں کے رشتہ داروں ٗدوستو ں اور حلقے کےلوگوں کودس دس لاکھ پودوں کی فراہم کرنے کے لئے کروڑروں روپے اداء کئے گئے جبکہ بعض اپوزیشن جماعتوں کے عہدیداروں نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئےاور خاموشی اختیار کی ۔مطلوبہ دستاویزات کے مطابق پرویز خٹک کے ضلع نوشہر ہ میں تین افراد کو دس لاکھ پودوں کاآرڈر ملا جن میںن شجاعت علی ٗ عارف خان اور خالد خان شامل ہیں اسی طرح مردان کے ارشدخان ٗچارسدہ کے عبدلصمد اور کاٹلنگ کے ظفر اقبال کو بھی دس دس لاکھ پودوں کی فراہمی کاآرڈر ملاجبکہ عام لوگ فتروں کے چکر لگاتے رہے ‘ کرپشن‘ بدعنوانی اور بےقاعدگی پر 300افراد کو معطل اور برطرف کیاگیا ٗدلچسپ امر یہ ہے کہ بلین ٹری سونامی کیلئے42 اقسام کے پودوں کی خریداری میں کیپرا رولز پر عملدرآمد نہیں کیاگیا‘کیپرا رولز کے سیکشن 14 اور14A کے مطابق تمام محکموں کے لئے خریداری کا عمل صاف وشفاف بنانے کے لئےٹینڈر جاری کرنا لازم ہے جس سے مقابلے کی فضاءپیداہو اورکم ریٹس مل سکیںدستاویزات کے مطابقحکومت نے 9انچ کے ٹیوب پودوں کا ریٹ 6روپے اور 5فٹ کے پودوں کا نرخ 9روپے مقرر کیا حالانکہ مارکیٹ میں وہی پودے انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہیں‘ محکمہ جنگلات ٹینڈر کے ذریعے لاکھوں پودے آرزاں نرخوں پر حاصل کر سکتا تھا لیکن پودوں کی خریداری میںمبینہ طورپر بندر بانٹ کی گئی ‘ سرکاری دستاویزات کے مطابق محکمہ جنگلات نے سب سے زیادہ چیڑکے پودے 21فیصد یعنی 5کروڑ 90ہزار خریدے اور اُگائے ‘جن کیلئے 6روپے کے حساب سے ادائیگی کی گئی حالانکہ چیڑکا پودا مارکیٹ میں 4روپے کے حساب سے دستیاب ہے‘ اسی طرح لاچی کے پودے 19فیصد یعنی 4کروڑ 56لاکھ خریدے اورلگائے گئے ‘ حکومت نے فی پودا 6روپے کے حساب سے خریداجبکہ عام مارکیٹ میں لاچی کا 9انچ کا پودہ 2روپے میں فروخت ہو رہا ہے‘ محکمہ جنگلات نے 8.35فیصد پودے ولایتی کیکر کے لگائے ہیں جس کیلئے ادائیگی 9روپے کے حساب سے کی گئی جبکہ ٹینڈر کی صورت میں 2روپے کے حساب سے پودے مل سکتے تھے‘ اسی طرح عام کیکر کے 7فیصد پودے یعنی ایک کروڑ 68لاکھ پودے 9روپے فی پودا کے حساب سے خریدے گئے جو بازار میں 2روپے کے حساب سے دستیاب ہیں‘ سفیدہ کے پودے پراجیکٹ میں 6.64فیصد یعنی ایک کروڑ 59لاکھ 4ہزار لگائے گئے جن کیلئے 9روپے کے حساب سے ادائیگیاں کی گئیں‘ اس قسم کا پودا بازار میں 2یا اڑھائی روپے میں پودا دستیاب ہے‘ پھولائی کے پودے 4فیصد یعنی 96لاکھ 6روپے کےعوض خریدے گئے جن کی بازار میں قیمت 3روپے بتائی جاتی ہے‘پراجیکٹ میں 4فیصد 96لاکھ پودے ٹالی کے خریدے گئے جن کیلئے فی پودا 6روپے ادا کئے گئے جبکہ بازار میں ٹالی کا 9انچ کا پودا تین روپے میں دستیاب ہے ‘ غز پودے 3فیصد یعنی 72کروڑ لگائے گئے ‘ فی پودا 9روپے کے حساب سے خریدا گیا جبکہ مارکیٹ میں یہ پودا 5روپے میں دستیاب ہے‘ 2فیصد یعنی 48لاکھ بیر کے پودے لگائے گئے یہ بھی عام مارکیٹ کے نرخ سے زائد پر خریدے گئے‘ 1.94فیصد دراوا نامی پودے یعنی 47لاکھ لگائے گئے جو 9روپے کے عوض فی پودا خریدا گیا جبکہ مارکیٹ میں یہی پودا 3روپے میں بھی مل سکتا ہے‘ ایپل ایپل نامی پوے 1.81فیصد یعنی 43لاکھ لگے جو فی پودا 9روپے میں خریدا گیا‘ یہی پودا بازار میں صرف2روپے میں مل جاتا ہے‘ 1.69فیصد یعنی 40لاکھ 8ہزار دریک کے پودے لگائے گئے یہ پودا بھی 9روپے میں خریدا گیا جبکہ بازار میں صرف 3روپے میں دستیاب ہے‘ 1.58فیصد دیار کے پودے لگائے گئے جن کی تعداد 38لاکھ بنتی ہے‘ بازار میں 4روپے فی پودا دستیاب ہونے کے باجود پراجیکٹ کیلئے 6روپے میں فی پودا خریداگیا‘ 1.5فیصد کیکر کے پودے یعنی 36لاکھ پودے لگائے گئے جو فی پودا 9روپے میں خریدا گیایہی پودا بازار میںصرف 2روپے میں دستیاب ہے‘ سنتہ نامی پودا 1.1فیصد یعنی 26لاکھ لگائے گئے ہیں یہ پودا بھی 9روپے میں خریدا گیا جبکہ عام مارکیٹ میں اس کا نرخ 2روپے فی پودا ہے‘ ایک فیصد یعنی 24لاکھ چلغوزہ کے پودے لگائے گئے اور فی پودا 6روپے کے حساب سے خریدا گیا جبکہ عام مارکیٹ میں فی پودا 5روپے میں دستیاب ہے‘ منو‘کچنار ‘ اوک ‘پرشیئن پائن نامی پودے بھی 12‘12لاکھ لگائے گئے ہیں۔جنگ کے سروئے کے مطابق مارکیٹ میںموجود بعض انتہائی مہنگے پودے سرکاری نرسیوں سے حاصل کرکے لگائے گئے جن کی تعداد انتہائی کم ہے۔ ‘ سرکاری دستاویزات کے مطابق اس کے علاوہ27ٹن بیج ہیلی کاپٹر کے ذریعے 4روز میں صوبے کے مختلف علاقوں میں پھینکے گئے‘ زیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے ہیلی کاپٹر فراہم کیا اور اس سارے عمل پر 18لاکھ روپے لاگت آئی ‘ یوں تخم پھینکنے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ 3کروڑ 10لاکھ پودے لگے جن کی تصدیق نہیں ہو سکی ‘‘بلین ٹری سونامی کیلئے 28فارسٹ ڈویژن کا انتخاب کیاگیا جس میں پودے لگائے گئے ‘ اعداد و شمار کے مطابق پشاور میں 45 لاکھ 25 ہزار ‘ مردان میں 63لاکھ 5ہزار133‘ کوہاٹ میں 84لاکھ 22ہزار 861‘ بنوں میں ایک کروڑ 31لاکھ 98ہزار 475‘ ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک کروڑ 21لاکھ 23ہزار 958‘گلیز میں 7لاکھ 77ہزار 225‘ ہری پور میں 56لاکھ 49ہزار 175‘ ہزار ٹرائبل میں ایک لاکھ 32ہزار 500‘کاغان میں 14لاکھ 9ہزار 865‘ داوڑ واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 44لاکھ 73ہزار 441‘ کنہار واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 75لاکھ 87ہزار671‘ انہار واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 44لاکھ 12ہزار 953‘بونیر واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 88لاکھ 38ہزار 865‘ کوہستان واٹر شیڈ میں ایک کروڑ 46لاکھ 97ہزار 225‘ اپر کوہستان میں ایک لاکھ 41ہزار 25‘ لوئر کوہستان میں 80ہزار 980‘ سرن میں 2لاکھ 95ہزار 895‘اگرور تناول میں 50لاکھ 24ہزار 550‘تورغر میں 9لاکھ 13ہزار233‘اپر دیر میں ایک کروڑ 43لاکھ 31ہزار 384‘لوئر دیر میں 2کروڑ 14لاکھ 31ہزار 646‘بونیر میں 96لاکھ ‘ الپوری میں ایک کروڑ 2لاکھ 56ہزار825‘ سوات میں ایک کروڑ 12لاکھ 83ہزار500‘ کالام میں 58لاکھ 64ہزار 775‘ دیر کوہستان میں 54لاکھ 38ہزار 11‘ ملاکنڈ میں 2کروڑ 66لاکھ 73ہزار 897 جبکہ چترال میں 69لاکھ 32ہزار 187پودے لگائے گئے ‘ اس کے علاوہ پراجیکٹ کے تحت 42سے زائد اقسام کے پودوں کی بووائی کی گئی۔ محکمہ جنگلات کے مطابق بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کو 3حصوں میں تقسیم کرکے ہر ایک فیز کیلئے الگ سے پی سی ون بنایاگیا اور ہر فیز کیلئے پودوں‘ ماحولیات‘زمینوں سمیت ہر شعبہ کے ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جنہوں نے پورے صوبے کا دورہ کیا اور ایک مفصل رپورٹ مرتب کرکےمحکمہ جنگلات کو دی اور ماہرین کی آراءکے مطابق ہی شجرکاری و تخم ریزی کی گئی ‘محکمہ جنگلات کے مطابق مفت پودوں کی فراہمی کیلئے درخواستیں طلب کی گئیں جو کمیونٹی ڈیویلپمنٹ آفیسر نے وصول کیں اور پھر ہر ڈویژن میں تقریب منعقد کرکے درخواست کنندہ کو مفت پودے فراہم کئے گئے ‘ سیکرٹری جنگلات نذر شاہ سے رابطہ کیاگیا تو انہوں نے تمام اعداد و شمار کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مختلف طریقوں سے خستہ حال اور بنجر جنگلات کو سربز و شاداب بنایاگیا ہے‘ جنگلات کی بحالی بڑا چیلنج تھا جس کیلئے مقامی افراد کے باہمی اشتراک سے ہر قسم کی مال چرائی‘ گاس کٹائی‘ بالن جمع کرنے‘ آگ سے بچائو اور جنگلات سے کھلے راستے بند کرا ئے گئے جس کے ذریعے 309683ہیکڑ پر نوپود آئی جس کو ڈبلیو ڈبلیو ایف نے تین مرتبہ چیک کیااوراسکی پیمائش بھی کی‘ ان جنگلات میں حفاظتی تدابیر کے ذریعے 73کروڑ 20لاکھ پودے اگے ہیں جبکہ 2کروڑ 70لاکھ خودروپودے بھی صفائی کے بعد خود بخود نکلے ہیں‘ انہوں نے اس امر سے بھی اتفاق کیا کہ ایک ارب 18کروڑ پودے لگائے نہیں گئے بلکہ شجر کاری کے ذریعے 24کروڑ پودےلگے جبکہ لوگوں میں 15کروڑ 30لاکھ پودے مفت تقسیم کئے گئے جبکہ تخم ریزی کے ذریعے 2کروڑ 70لاکھ پودے اگے ہیں جبکہ 27ٹن بیج ہیلی کاپٹر کے ذریعے پھینکا گیا ‘ ہیکٹر میں پودوں کی پیمائش کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جہاں پانی کم ہووہاں 10x10فٹ پر پودا لگایا گیا جبکہ جہاں پانی وافر مقدار میں ہے وہاں 5x5فٹ پر پودا لگایا گیا‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ خیبرپختونخوا میں اب جنگلات کا مجموعی رقبہ 26.3فیصد ہے جو دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ ہے‘ جس کا اعتراف بون کانفرنس میں بھی کیا گیا ۔انہوں نے اعتراف کیا کہ پودوں اور بیچ خریدنے کیلئے کوئی ٹینڈر جاری نہیں ہوا بلکہ ہر شخص سے پودے خریدے گئے پراجیکٹ کا ابتدائی تخمینہ ساڑھے 22 ارب تھا لیکن ساڑھے 12 ارب میں منصوبہ مکمل کیا گیا‘منصوبہ 2014ء میں شروع کیاگیا جو 2020ء میں مکمل ہوگا چونکہ پودے لگانے کا عمل مکمل کرلیاگیا ہے اب صرف ان پودوں کی دیکھ بھال کی جائے گی جس کیلئے 6ہزار 509چوکیدار رکھے گئے ہیں‘ انہوں نے کہا کہ نرسریز کے انتخاب کا طریقہ کار بھی صرف اس حد تک تھا کہ نرسری خیبر پختو نخوا میں ہونی چاہیے ‘ مالک کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہو سکتا ہے ‘ ان کا دعوی ہے کہ بلین ٹری سونامی انتہائی شفاف منصوبہ ہے جس کو کئی اداروں نے چیک اور انھوں نے اس کی تعریف کی ۔ بلین ٹری سونامی پراجیکٹ کے ڈائریکٹر محمد طہماسپ کا کہنا ہے کہ اس پراجیکٹ پر کیپرا رولز لاگو نہیں ہوتے کیونکہ ایک پارٹی کو پودوں کا ٹھیکہ نہیں دیاگیا بلکہ بلین ٹری سونامی عوام کی بھلائی اور فائدے کا منصوبہ تھا تاکہ صوبےمیں لوگوں کو روزگار ملے اور غربت کم ہوسکے ‘ انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں بعض پودے کم قیمت پر بھی میسر ہونگے چونکہ یہ پودے عام لوگوں سے خریدے گئے ہیں ‘ بازار میں بعض پودے سستے اور بعض مہنگے ہیں لہٰذا ہم نے سب پودے 6اور 9روپے میں خریدے ہیں ‘اس سکیم میں نوجوانوں‘ خواتین اور بزرگوں نے بھی پودوں کیلئے درخواستیں جمع کرائیں جن سے لاکھوں کی تعداد میں پودے خریدے گئے ‘ انہوں نے کہاکہ بازار میں موجود نرسری مالکان تجربہ کار اور کاروباری افراد ہوتے ہیں جن کے پاس باصلاحیت افرادی قوت کے ساتھ وسیع پیمانے پر پودے موجود ہوتے ہیں لہٰذا وہ کم قیمت پر بھی دیتے ہیں ‘انہوں نے کہا کہ اس سکیم کو انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے سیلز اور انکم ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا تھا‘ درخواستوں کی وصولی کا طریقہ کار انتہائی شفاف تھا‘ اخبارات میں اشتہارات کےذریعے خواہشمند حضرات سے درخواستیں مانگی گئیں ‘ ایک کمیٹی درخواستوں کا جائزہ لیتی تھی جبکہ درخواست گزار کی زمین کا بھی جائزہ لیا جاتا تھا ۔انھوں نے کہا کہ جنگلات کی حفاظت کے لئے 40ہیکٹر پر ایک چوکیدار یا نگہبان مقرر کیا گیا ہے جو مقامی فرد ہے اور اسے حکومت 15000 روپے ماہوار دیتی ہے ۔انھوں نے کہا کہ نرسری لگانے کے لئے 30فیصد رقم پیشگی دی جاتی تھی جبکہ باقی ماندہ رقم مزید دو اقساط میں اداء کی جاتی تھی ۔انھوں نے کہا کہ تمام پودے مخصوص علاقاتی آب و ہوا اور جغرافیائی ماحول کے مطابق لگائے گئے ہیں جن کو درخت بننے میں تین سے 50 سال کا عرصہ درکار ہے‘ لاچی ‘ کیکر اور سفیدہ 10سال میں مضبوط درخت بنتا ہے جبکہ چیڑ اور دیار کو مضبوط درخت بننے میں 50سال کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ پودے خریدنے اور لگانے کا عمل شفاف تھا جس کا مکمل ریکارڈ موجود ہے جس کا کوئی بھی معائنہ کرسکتا ہے متعلقہ افسر بھی پورے عمل کی نگرانی کرتے رہے ۔انہوں نے کہا کہ آڈیٹر جنرل نے بھی پراجیکٹ کا ہر سال آڈٹ کیا ہے جس میں کوئی بڑی بے قاعدگی سامنے نہیں آئی۔ اس حوالے سے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ریجنل منیجر خیبر پختونخوا سید کامران سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ جنگلات کی دیکھ بھال اور حفاظت سے60فیصدنوپود اور40فیصد شجرکاری اورمفت تقسیم کئے گئے اس حوالے سے عوام میں آگاہی ضروری ہےایک ارب 18 کروڑ پودے لگانے کا تاثر درست نہیں 60 فیصد نوپود ہیں ۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف نے پورے پراجیکٹ کے صرف 20فیصد جنگلات کے اعدادوشمار کا جائزہ لیا تھا جس کے مطابق پودوں کی تعداد درست تھی پورے پراجیکٹ کا جائزہ لینا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف اس پراجیکٹ کا کنسلٹنٹ بھی تھا اور اس کے عوض صوبائی حکومت نے ادارے کو ڈیڑھ کروڑ روپے ادا کئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے3,3افراد پر مشتمل چار ٹیمیں تشکیل دی تھیں جن میں پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ اور ماحولیات کے فارغ التحصیل طلبہ بھی شامل تھے ان طلبہ نے خود موقع پر جا کر انکلوژرز کو چیک کیا۔انھوں نے کہا کہ ہم نے ہر ڈویژن کے سب ڈویژن کا معائنہ کیا تاکہ کسی غلطی کی گنجائش نہ رہے۔ انہوں نے تسلیم کیاکہ ہماری گنتی میں5فیصد غلطی کا امکان موجود ہے تاہم رپورٹ مرتب کرتے وقت پودوں کی کی گنتی کی ذمہ داری لیتے ہیںلیکن آج یا اب کیا صورت حال ہے اس حوالے سے ادارہ کسی قسم کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ستمبر2015سے جولائی2017تک ڈبلیو ڈبلیو ایف نے مانیٹرنگ کی اور اعداد و شمار اکٹھے گئے اس دوران جنگلات میں دیار اور چیڑ کے پودوں کی لمبائی5انچ اور9انچ ریکارڈ کی گئی البتہ دیار کا پودا تناوردرخت بننے میں140سال اور چیڑ کا80سال لیتا ہے ۔جب ان سے سوال کیا گیا کہ پودا کب نکلاہوگا تو ان کا جواب تھا کہ 5اور9انچ کا پودا چند سال قبل ہی نکلا ہوگا جس کی حفاظت ضروری ہے ۔گنتی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ 10x10کی بنیاد پر ادارہ ایک ہیکٹر میں1060پودوں کو شمار کرتا ہے انہوں نے کہا کہ اس قسم کے پراجیکٹ کا دورانیہ8سے 10سال ہونا چاہئے تاکہ پودوں کی حفاظت کم از کم دس سال تک ہو سکے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ جن افراد کو مفت پودے تقسیم کئے گئے ہم نے صرف دس فیصد کو چیک کیا جنہوں نے گھروں اوردفاتر میں پودے لگائے۔پودوں کی قیمت کے تعین کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ اس حوالے سے ڈبلیو ڈبلیو ایف کا کوئی کردار نہیں تھاحکومت نے ریٹ مقررہ کیا تھا ۔ نرسریوں کی تقسیم بھی محکمانہ عمل تھاانھوں نے ہی یونٹ تقسیم کئے البتہ ہم نے نرسریوں کا بھی جائزہ لیا تھا ۔ ‘جنگ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعلیٰ اور اے این کے صوبائی صدر حیدرخان ہوتی کا کہنا ہےکہ بلین ٹری سونامی میں سنگین بے قاعدگیاں اور بے ضابطگیاں ہوئی ہیںاور منظور نظر افراد کو نواز گیا ہے۔تین یا چار سالوں کے دوران ایک ارب18کروڑ پودے لگانا ممکن ہی نہیں پورے ملک کو گمراہ کیا جارہا ہے ۔ نیب مالمہ جبہ سکینڈل کی طرح فوری طورپر معاملے کی تحقیقات کرے ،عمران نے کبھی سچ بولا ہی نہیں پچھلے پونے پانچ سالوں سے جھوٹ پے جھوٹ بول رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اربوں کے پودے بغیر ٹینڈر کے خریدے گئے جن کے لئے کوئی طریقہ کار نہیں اپنایا گیا تمام معاملات انتہائی مشکوک ہیں لوگوں کو لاکھوں پودے لانے کا آرڈر دیا گیااور ان سے کم پودے لیکر رقم دے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ پودوں کی مفت تقسیم بھی ایک فراڈ ہے لوگوں نے مفت پودے خرید کر دوبارہ فروخت کردئیے۔ خیبر پختونخوا میں پے درپے سیکنڈل منظر عام پر آرہے ہیں لیکن عمران خان خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں انہوں نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین سے درخواست کی کہ وہ فوری طور پر معاملے کا نوٹس لیں اور تحقیقات کا حکم دیں۔