• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کو پاکستان میں بدقسمتی سے اداکاری، مفادپرستی ، خودغرضی اور حکومت کے حصول کیلئے ہر حد پار کرجانے کا دوسرا نام سمجھاجاتاہے اوراس حوالے سے سیاست دانوں کا تذکرہ منفی اندازمیں کرنا ایک فیشن بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب میں سیاست کو ایک عباد ت قرار دیتا ہوں تو بہت سے لوگ اس بات پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔ میری نظر میں عبادت کو فقط مذہبی رسومات تک محدود نہیں کرنا چاہیےبلکہ کسی کو اچھی بات بتانا، کسی کی مدد کرنا، کسی کی پریشانی کا ازالہ کرنا بھی عبادت میں شامل ہے۔ میری نظر میں آج کا ہر انسان اگرکسی دوسرے کو تکلیف پہنچائے بغیر اچھے طریقہ سے زندگی گزارے تو وہ ایک عبادت ہی کر رہا ہے،مثلاََ ڈاکٹر اپنے مریضوں کا اچھی طرح علاج کرے تو وہ بھی عبادت ہے، سائنسدان اگر انسانی فلاح و بہبود کی خاطر کوئی نئی ایجاد کرتا ہے تو وہ بھی عبادت ہے،میڈیا اگر معاشرے کی بہتری کیلئے سماجی مسائل کی نشاندہی اور حل تجویز کرے تو یہ بھی میری نظر میں عبادت ہی ہے، بیوروکریسی اگر ایمانداری سے دفتری معاملات دیکھتی ہے تو یہ بھی عبادت سے کم اہم نہیں۔گزشتہ دنوں مجھے نیشنل پریس کلب میں میڈیا ایتھیکس پرمنعقدہ ایک تقریب سے اظہار خیال کیلئے مدعو کیا گیا ، میں نے وہاں بھی اس امر پر زور دیا کہ ایک اچھے انسان کی پہچان اخلاقیات، ایمانداری اور وفاداری ہوا کرتی ہے، اعلیٰ اخلاق کا مالک بہت جلد اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے ، اپنے پیشے سے مخلص رہنے والے بھی ہمیشہ کامیاب و کامران ٹھہرتے ہیں۔ چونکہ میرا موضوع سیاست ایک عبادت ہے اس لیے میں اپنے مطالعہ کی بنیاد پر کچھ دلائل آپ کے سامنے پیش کرنا چاہوں گا۔دنیا کے کم و بیش ہر مذہب میں سیاست کے بارے میں مثبت تعلیمات موجود ہیں ، امور مملکت چلانے والے کو سیاستدان کہا جاتا ہے ، اسلام میں سیاست کا بنیادی مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے یعنی کہ لوگوں کو بھلائی کا حکم دینا اور برے کاموں سے روکنا، پیغمبر اسلامﷺ پوری دنیا کے لیے رحمت بن کر آئے تھے اورمیثاقِ مدینہ کی صورت میں انسانی تاریخ کا سب سے متوازن امن کا سیاسی معاہدہ مرتب کیا جو آج بھی ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے۔ بعد ازاں پیغمبر اسلامﷺ کا حجتہ الوداع کا آخری خطبہ اپنے اندر سیاسی لحاظ سے بے پناہ رموز سموئے ہوئے ہے کہ دنیا کا ہر انسان برابر ہے، کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی برتری حاصل نہیں۔سیاست کے حوالے سے قدیم ہندو تعلیمات کا ایک اہم نظریہ رام راجیہ ہے، جدید تاریخ کے نمایاں ہندو سیاستدان مہاتما گاندھی جی کے مطابق رام راجیہ کا مقصد ایک ایسا فلاحی معاشرہ تشکیل دینا ہے جسکی مضبوط بنیادیں اعلیٰ اخلاقی اقدار پر استوار ہوں اور سماج کا کمزور ترین طبقہ بھی بغیر وقت ضائع کیے اور پیسہ خرچ کیے باآسانی انصاف حاصل کرسکے۔ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح نے سیاست کے میدان میں اپنے بہترین اصولوں کو اپنا ہتھیار بنایا، قائداعظم کے سیاسی مخالفین بھی انکی اصول پسندی، بلند کردار اور انتھک جدوجہد کے قائل ہیں، گیارہ اگست کی تقریر اس امر کی گواہ ہے کہ وہ قومی ترقی میں اکثریت اقلیت کی تفریق سے بالاتر ہوکر تمام پاکستانیوں کو ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کےحامی تھے، قائداعظم اور تحریک پاکستان کے اکابرین کی سب کیلئے یکساں سماجی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے آزاد ملک کی جدوجہد میری نظر میں ایک عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ جدید تاریخ کے دیگر نمایاں سیاستدانوں میں ابراہم لنکن ، نیلسن مینڈیلا اور ماؤزے تنگ کے نام سرفہرست ہیں جنہوں نے اپنی قوموں کیلئے بے مثال قربانیاں دیں۔آج سے فقط ڈیڑھ سو برس قبل امریکہ میں کالے اور گوروں کے مابین نفرت عروج پر تھی، آج امریکہ کو سپرپاور کا درجہ دلوانے میں سولہویں امریکی صدر ابراہم لنکن کی ملک سے غلامی کو ختم کرنے کی جدوجہد کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، ابراہم لنکن کے اعلیٰ اخلاقی اصولوں کی ایک مثال اپنے بیٹے کے استاد کے نام تحریر کردہ خط ہے جس میں انہوں نے تلقین کی کہ کم سن بیٹے کو زندگی کے تلخ حقائق کا بہادری سے مقابلہ کرنے کیلئے تیار کیا جائے، امریکی صدر کا خط انٹرنیٹ پر دنیا کی ہر زبان میں موجود ہے۔ نسلی تعصب کے خاتمے کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے والے ایک اور اعلیٰ سیاستدان کا نام نیلسن مینڈیلاہے جنہوں نے اپنے ملک جنوبی افریقہ سے کالے گورے کی تفریق کا خاتمہ کردیا۔آج کے جدید چین کی زندگی کے ہر شعبے میں برق رفتار ترقی قابلِ تحسین ہے لیکن ایک وقت تھا کہ چین بھی شہنشاہیت کے پنجے میں جکڑا سامراجی نظام کا شکار تھا، سماجی انصاف اور مساوات پر مبنی چین کے قیام کیلئے عظیم چینی رہنما ماؤزے تنگ کے لانگ مارچ نے اہم کردار کیا جس میں معاشرے کے پِسے ہوئے طبقات سمیت سب چینی باشندوں نے قومی جذبے سے حصہ لیا۔قائداعظم سمیت ان سب سیاسی لیڈران کی جدوجہد کا محور سماجی تفریق کا خاتمہ کرکے تمام شہریوں کو یکساں سماجی حقوق کی فراہمی یقینی بنانا تھا۔ وطن عزیز کی بات کی جائے تو اس امر میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں سیاست کے نام پر ذاتی مفادات کے حصول نے عام آدمی کو سیاستدانوں سے بدظن کردیا ہے ، اپوزیشن والے حکومت کے ہر اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں تو حکومت اپنی عددی برتری کے زعم میں سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو اپنا حق سمجھتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں حقیقت پسندانہ سیاسی رویوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر ہر اچھے اقدام کی حمایت اور غلط کو غلط کہنا چاہیے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ ا چھے اور برے دونوں طرح کے لوگ ہر جگہ ہر شعبے میں پائے جاتے ہیں ، اسی طرح دولت کے بل بوتے پر یا سیاسی جماعتوں کے لیڈران کی ذاتی پسند ناپسند کی بنیادوں پر مسلط ہوجانے والے نام نہاد سیاستدان بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔ہمارے ملک میں مسائل کی تعداد بے انتہا ہے جنہیں حل کرنے کیلئے ہم انفرادی طور پر کوشش تو کرسکتے ہیں لیکن حتمی حل کی استعدادصرف حکومت کے پاس ہے اور حکومت میں آنے کا راستہ سیاست سے ہوکر گزرتا ہے۔ اگر ہماری سیاست کا مقصد پاکستان اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے قانون سازی کرنا ہے ،اپنی کمیونٹی کے مسائل کو پارلیمنٹ کے مقدس ایوان میں اجاگر کرنا ہے اور حکومت میں آکر معاشرے میں مثبت سماجی رویوں کا فروغ یقینی بنانا ہے تو بلاشبہ ایسی سیاست ایک عبادت ہے۔ بطور سیاستدان اور پارلیمنٹرین میری ہمیشہ خدا سے یہ دعا رہی ہے کہ مجھے وہ طاقت نہ دے جس سے میں دوسروں کو کمزور کروں، مجھے وہ دولت نہ دے جس کی خاطر میں دوسروں کو غریب سمجھوں۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سیاست کو نفرت کی علامت بنانے کی بجائے ملک و قوم کا مفاد اور عوام کی فلاح و بہبود کو اپنی سیاست کا محور بنائیں،میری نظر میں خدا کی مخلوق کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی سیاست ایک عبادت کا درجہ ہی رکھتی ہے۔

تازہ ترین