• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبول بٹ شہید اور ان کی جدوجہد تحریر:محمد شبیر کشمیری…اولڈہم

11فروری1984کو دہلی کی تہاڑ جیل میں سرزمین کشمیر کے عظیم فرزند مقبول بٹ کو تختہ دار پر چڑھایا گیا۔مقبول بٹ کون تھے، انہیں کس جرم کی پاداش میں تختہ دار پر چڑھنا پڑا۔ وہ کس کردار اور شخصیت کے مالک تھے۔ 11فروری کے واقعہ کی روشنی میں ان سوالوں کے جوابات محب وطن، مخلص اور آزادی پسند افراد کے لیے مشعل راہ کا کام دے سکتے ہیں۔ کشمیر کے یہ عظیم فرزند1936میں وادی کشمیر کے ایک شمالی قصبے تریگام ضلع کپواڑہ میں پیدا ہوتے ہیں۔ زمانہ طالب علمی سے ہی اپنے وطن سے بے پناہ محبت کے باعث جدوجہد آزادی کے قافلے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ جہاں تحریک آزادی کے لیے اپنی خدمات سرانجام دینے کے جرم کی پاداش میں ان کے لیے ایسے ناموافق حالات پیدا کردیئے جاتے ہیں کہ مقبولبٹ1958میں آزاد کشمیر کی طرف ہجرت کرتے ہیں۔ جہاں سے وہ پشاور پہنچتے ہیں اور صحافت کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ اپنی بے پناہ خداداد صلاحیتوں کی بنا پر بہت جلد ایک اہم روزنامہ کے سب ایڈیٹر بن جاتے ہیں، لیکن ان کی زندگی کا اصل مقصد تحریک آزادی میں بھرپور کردار ادا کرنا تھا۔ اپریل1965میں جموں کشمیر محاذ رائے شماری نام کی تنظیم کے قیام پر مقبول بٹ اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور اس کے مرکزی پبلسٹی سیکرٹری منتخب ہوجاتے ہیں۔ محاذ رائے شماری کے مقبول بٹ سمیت تمام عہدیدار پاک کشمیر سرحد پر محکوم مادر وطن کی مٹی ہاتھ میں لے کر حلف اٹھاتے ہیں کہ وہ مادر وطن کی آزادی کے لیے اپنی جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ لیکن چند ہی ماہ کے بعد مقبول بٹ اور ان کے مخلص ساتھیوں کو اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ محاذ رائے شماری کے پلیٹ فارم سے تحریک آزادی کو انقلابی خطوط پراستوار نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ مقبول بٹ، امان اللہ خان اور دیگر ساتھیوں سمیت نیشنل لبریشن فرنٹ کے نام سے ایک زیر زمین تنظیم کا قیام عمل میں لاتے ہیں، جس کا مقصد مسلح جدوجہد سمیت ہر قسم کی جدوجہد کے ذریعے ریاست جموں کشمیر کے عوام کو ریاست کے واحد مالک کی حیثیت سے ریاست کے سیاسی محاذ پر کام کرے گا، جبکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں سیاسی محاذ کے علاوہ مسلح جدوجہد کے لیے بھی میدان ہموار کرے گا۔ چنانچہ جون1966میں این ایل ایف کے دو گروپ حد متارکہ جنگ کو عبور کرکے مقبوضہ کشمیر جاتے ہیں۔ مقبول بٹ ان میں سے ایک گروپ کی قیادت خود کرتے ہیں۔ دونوں گروپ تین ماہ تک مقبوضہ کشمیر میں خاموشی سے اپنا کام کرتے رہے لیکن ستمبر کے اوائل میں مقبول بٹ کے ساتھی اورنگ زیب کے ہاتھوں بھارتی قابض فوج کا ایک انٹیلی جنس آفیسر امر چند قتل ہوجاتا ہے۔ جس کے بعد بھارتی قابض فوج پورے علاقے کو گھیرے میں لے لیتی ہے، مقبول بٹ کے ساتھیوں اور بھارتی قابص فوج کے درمیان مسلح جھڑپوں کے نتیجے میں بہت سے بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد اورنگ زیب شہید ہوجاتے ہیں۔ صوبیدار کالا خان شدید زخمی اور مقبول بٹ اور میر احمد گرفتار ہوجاتے ہیں۔ اس واقعہ کے چند ہی دن بعد وادی کے سیکڑوں افراد کو این ایل ایف کے ممبر یا حامی ہونے کے الزام میں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔مقبول بٹ اور ان کے ساتھیوں پر سرینگر جیل میں مقدمہ چلایا جاتا ہے۔ بنیادی الزام بھارت کے خلاف بغاوت کرنا اور کشمیری عوام کو بغاوت کے لیے اکسانا تھا۔ اگرچہ امر چند کا قتل بھی الزامات میں شامل تھا۔ اگست1968میں مقبول بٹ اور میر احمد کو پھانسی اور کالا خان کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے۔ جبکہ سیکڑوں دوسرے کشمیریوں کو چھ ماہ سے چار سال تک جیلوں میں رکھا جاتا ہے۔ لیکن سزائے موت پر عمل ہونے سے پہلے ہی مقبول بٹ اور میر احمد سرینگر جیل کی دیوار میں سرنگ لگاکر وہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور سولہ دن تک برف پوش پہاڑیوں پر چل کر آزاد کشمیر پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ اب تین ماہ بعد اس وقت رہا کیا جاتا ہے جب ان کے ساتھی ان کی رہائی کیلئے قصر صدارت راولپنڈی کے باہر زبردست مظاہرہ کرتے ہیں این ایل ایف جنوری1971 میں بھارتی جہاز گنگا اغوا کروانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ اصل پروگرام کے مطابق یہ کارروائی اگست1970 میں ہونی تھی، لیکن مقررہ ہائی جیکر کی گرفتاری کی وجہ پروگرام موخر ہوگیا۔ اس کارروائی کا مقصد مسئلہ کشمیر اور تحریک آزادی کشمیر کے بارے میں عالمی رائے عامہ کا حافظہ تازہ کرنا تھا۔ لیکن پاکستان کی اس وقت کی یحییٰ خان کی آمریت اپنے اقتدار کو طوالت بخشنے کیلئے کشمیریوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہے۔ مقبول بٹ سمیت این ایل ایف اور محاذ کے سیکڑوں افراد کو بھارت کا ایجنٹ ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے ان پر شاہی قلعہ لاہور دولائی کیمپ مظفر آباد کے عقوبت خانوں کے علاوہ دوسرے تفتیشی مراکز میں ذہنی اور جسمانی تشدد کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے بعد ستمبر1971میں این ایل ایف کے چھ افراد بشمول مقبول بٹ پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایک خصوصی ٹریبونل میں مقدمہ چلایا جاتا ہے، جہاں باقی اسیروں کو دو سال تک بغیر مقدمہ چلائے قید رکھ کر غیر مشروط طور پر رہا کردیا جاتا ہے آخر مئی1973میں پاکستان کی عدالت عظمیٰ مقبول بٹ سمیت پانچ افراد کو تحریک آزادی کشمیر میں مصروف مجاہد قرار دے کر انہیں بری کردیتی ہے۔ جبکہ چھٹے ملزم ہاشم قریشی کو عمر قید کی سزا دی جاتی ہے، جس کے خلاف اپیل دائر کی جاتی ہے۔ جس کی سماعت کا وقت1980میں ہوتا ہے اور سپریم کورٹ ہاشم قریشی کو رہا کردیتی ہے۔ اس کے بعد1976میں مقبول بٹ اپنے دو ساتھیوں حمید بٹ اور ریاض ڈار کے ہمراہ پھر مقبوضہ کشمیر داخل ہونے میں کامیاب ہوجاتے ہیں، تاکہ تحریک کو منظم کیا جاسکے۔ لیکن ایک بار پھر گرفتار ہوجاتے ہیں جہاں انہیں سرینگر سے تہاڑ جیل دہلی منتقل کردیا جاتا ہے اور ان کی سابقہ سزائے موت بحال کردی جاتی ہے۔ اس دوران مقبول بٹ کی جدوجہد اور قربانیوں سے متاثر ہوکر مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی زور پکڑتی ہے۔ جس سے خوف زدہ ہوکر بھارتی حکومت1981میں مقبول بٹ کو تختہ دار پر چڑھانے کا فیصلہ کرتی ہے، لیکن اندرون وطن کشمیری عوام سراپا احتجاج بن جاتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر لبریشن فرنٹ اپنی کارروائیوں اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ زبردست مہم کا آغاز کرتا ہے، جس کے نتیجہ میں اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے بین الاقوامی کمیشن ایمنسٹی انٹر نیشنل پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات کی طرف سے بھارتی حکومت پر اخلاقی دبائو کے نتیجہ میں مقبول بٹ کی سزائے موت پر عمل کرنے کے فیصلہ کو موخر کردیا جاتا ہے۔ ادھر اگست1983میں آزادی پسند سرینگر میں بموں کے کئی دھماکے کرتے ہیں اور بھارت کے یوم آزادی کے موقع پر فوجی پریڈ کے دوران بھارتی قابضین فوجیوں پر بم پھینکا جاتا ہے۔ اس نئی خطرناک صورتحال سے خوفزدہ ہوکر اور یہ سمجھتے ہوئے کہ کشمیری نوجوان بڑی تیزی سے مقبول بٹ کی راہ کو اپنانے میں مصروف عمل ہیں اور کسی بھی وقت بہت بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔ جنوری1984میں بھارتی کابینہ کی ایک خفیہ میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مقبول بٹ کو خاموشی سے پھانسی دی جائے۔ دوسری طرف لبریشن فرنٹ کے کچھ نوجوان بھارتی سفارت کار کو اغوا کرکے مقبول بٹ کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں، لیکن بھارتی حکومت مطالبہ تسلیم کرنے کے بجائے11فروری1984کی صبح کو مادر وطن کشمیر کے اس عظیم سپوت سالار حریت اور عظیم مجاہد کو تختہ دار پر چڑھا دیتی ہے! اور ان کی جسد خاکی کو ان کے وارثوں کے حوالے کرنے کے بجائے جیل کے احاطے میں دفن کردیتی ہے۔مقبول بٹ آج ہر کشمیری نوجوان کے دل کی دھڑکن ہے۔ اندھیروں کو ختم کرنے کے لیے ایک پہچان بن چکا ہے۔ جبر و غلامی کے خاتمے کا اعلان بن چکا ہے۔ طلوع صبح آزادی کا نشان بن چکا ہے اور آج کشمیری نوجوانوں نے مقبول بٹ کی جدوجہد کو اپنی زندگی کا حاصل قرار دے کر اس طرح سے اختیار کرلیا ہے کہ نہ جیلیں ان کے لیے کوئی رکاوٹ بن سکتی ہیں اور نہ خون کی فراوانی ہچکچاہٹ کا باعث بنتی ہے۔

تازہ ترین