گزشتہ ہفتے کے احوال میں عرض کیا گیا تھا کہ تاریخ ایک تیز رفتار ٹرین کی کھلی کھڑکی کی مانند ہے جس سے ماضی کے سارے منظر صاف دکھائی دیتے ہیں اور آج کے زمینی حقائق کے تناظر میں یہ بدلتے ہوئے مناظر ہی دراصل ہمارے معروضی تجزیئے کی بنیاد بنتے ہیں۔ اسی حوالے سے جب ہم نے 1988سے2011کی درمیانی مدت کے پاکستان کی شطرنجی سیاست کا معروضی جائزہ لیا تواس25برس کے عرصے میں،آپ یقیناًحیران ہوںگے ،19مرتبہ حکومت تبدیل ہوئی،چہرے بدلے گئے،نئے حکمران نئے حلف اٹھاتے گئے اورخلق خدادیکھتی رہی۔
سچی بات ہے میںتوششدررہ گیاان اعدادوشمار کومرتب کرتے ہوئے،19حکومتیںاور25سال؟؟ اس دوران دومارشل لا(ایک معدوم ہوتاہوااوردوسرا تازہ دم)ایک ریفرنڈم اورایک ایمرجنسی الگ سے شامل کرلیں اس ’’حساب دوستاں‘‘میں۔اگرچہ اس سے فرق تو پڑتا نہیں کوئی، نہ گنتی کے مجموعے میںنہ عوام کی حالت زار میں۔ تو پھر اتنا تردد کیوں؟ کیا صرف کھیل تماشے کے لئے؟ صدیوں پہلے کے ان رومن اکھاڑوںکی طرح جب غلاموں کو شیروںسے مقابلے کے لئے میدان میں اتارا جاتا تھا تاکہ عوام اپنی بھوک اور اپنے مطالبات بھول کر موج اڑائیں اورانہی کھیل تماشوںمیںمگن رہیں تاکہ نیروآرام اورچین کی بنسری بجاسکے۔لیکن مجھے توصرف تجزیہ کرناتھاوہ بھی معروضی۔کوئی تبصرہ وتنقیدنہیں،تاکہ نیروکی بانسری میںخلل نہ پڑے اورنہ ہی گمشدگی کے اشتہار کی نوبت آئے۔چلئے اپنے کام پرواپس چلتے ہیںاورتاریخ کی کھڑکی کوذرامزید کھول کرباہرکے مناظرکوغورسے دیکھتے ہیں،خاموشی کے ساتھ۔
لیکن پہلے،25سال میں19حکومتوںوالا معاملہ نمٹالیتے ہیں۔ان19میںسے11چہرے وہ تھے جنہوںنے وزارت عظمیٰ کاحلف اٹھایا۔وہ براہ راست ووٹوںسے منتخب ہوکرآئے تھے اور 6نگران وزیراعظم تھے جوکبھی کسی آمر،اورکبھی سدابہارصدرغلام اسحٰق اور صرف ایک بارقومی اسمبلی کے قائدایوان اورقائدحزب اختلاف کے نامزدیامنتخب کردہ تھے۔جن کی مدت ملازمت90دن اورذمہ داری غیرجانبدارانہ اورشفاف الیکشن کراناتھی۔اس دوران ان نگرانوںکی کارکردگی کیا تھی؟اپنے فرائض کی انجام دہی میںوہ کیسے رہے؟ کیونکہ وہ اپنے90دنوںمیںوزیراعظم کے مکمل اختیارات انجوائے کررہے تھے اورصرف انہی نے اپنی مدت ملازمت بھی پوری کی اوراحتساب سے بھی ماورارہے ورنہ باقی سب گیارہ کے گیارہ، وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری نہ کرسکے اوربرطرف کردئیے گئے۔لیکن ان میںسے تین کی آمداوربرطرفی ذرامختلف نوعیت کی تھی۔وہ جنرل پرویزمشرف کے اپنے ’’مارشل لا‘‘کوہٹانے کے بعد انہی کے لیگل فریم ورک آرڈرکے تحت ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میںقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ میرظفراللہ جمالی نومبر2002سے جون2004تک وزیراعظم رہے۔باس) (Bossکی ناپسندیدگی کے نتیجے میںمستعفی ہوئے اورچوہدری شجاعت حسین دومہینے کے لئے وزیراعظم بنادئیے گئے۔ ایساچوہدری صاحب کی اپنی خواہش اوردرخواست پرہواتھا،جسے صدرجنرل پرویزمشرف نے منظور فرمایا۔ یوںشجاعت حسین بھی انگلی کٹاکرشہیدوںکی صف میںشامل ہوئے تاکہ ان کانام بھی تاریخ میںپاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے جاناپہچاناجائے ۔اس دوران جنرل مشرف کے وزیرخزانہ شوکت عزیز کواٹک سے خالی کرائی گئی قومی اسمبلی کی سیٹ سے منتخب کروالیاگیااوروہ پاکستان کے وزیراعظم بنادئیے گئے۔ وہ اگست2004سے نومبر2007تک اقتدارمیںرہے۔حیرت ہے کہ مارشل لا کی چھتر چھائوںکے صوابدیدی تین وزیراعظم بھی مل کربمشکل صرف ایک پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر سکے۔ شاید یہ تینوں صادق اور امین تھے۔ اور نیک فرمانبردار تو یہ تھے ہی، اسی لیے ہر قسم کے احتساب سے ماورا ہی رہے۔ البتہ فوجی اور غیر فوجی افسروں کو ہزار سی سی کی معمولی گاڑیوں میں بٹھانے کا حکم دینے والے غیر فرمانبردار محمد خان جونیجو کو صدر جنرل ضیاء الحق نے کاغذ کے ایک پرزے پر اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے فرمان کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے اس وقت بر طرف کر دیا جب وہ چین کے سرکاری دورے سے واپسی پر اسلام آباد ائیرپورٹ اترے تھے۔ جونیجو 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں مجلسِ شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے تھے اور انہیں جنرل نے اپنی ذاتی پسند پر وزیرِاعظم نامزد کیا تھا۔ جونیجو مئی 1985سے مئی 88 تک، تین سال وزیراعظم رہے اور اس طرح وہ بھی اپنی مقررہ آئینی مدت سے دو سال پہلے ہی برطرف کر دئیے گئے۔
پاکستان کی شطرنجی سیاست میں 1988سے1999کا دور انتخابی گہماگہمی، وزرائے اعظم کی بر طرفیوں اور سازشوں سے بھرا پڑا ہے۔ اس دوران محترمہ بے نظیر اور نواز شریف کی حکومتیں دو، دو بار بر طرف کی گئیں۔ محترمہ پہلی باردسمبر88 میں الیکشن جیت کر وزیراعظم بنیں اور اگست 90 میں صرف بیس مہینے بعد انہیں اور ان کی حکومت کو اقرباپروری اور کرپشن کے الزام میں صدر غلام اسحق خان نے آئین کے آرٹیکل 58-2/Bکے تحت برطرف کر دیا۔ غلام مصطفیٰ جتوئی جو پیپلز پارٹی چھوڑ چکے تھے، نگران وزیرِاعظم بنے۔ 90روز بعد الیکشن ہوئے اور پیپلز پارٹی جسے گزشتہ الیکشن میں 85سیٹیں حاصل ہوئی تھیں1990کے الیکشن میں صرف18سیٹیں جیت سکی۔ الزام خفیہ ایجنسیوں پر آیا۔ اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کی جیت ہوئی اور نواز شریف وزیرِاعظم بنے لیکن ڈھائی سال بعداپریل 1993میں صدر غلام اسحق نے کرپشن کے الزامات پر نواز شریف اور حکومت کو اسی 58-2/Bکی تلوار سے برطرف کر دیا۔ نواز شریف نے صدر کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ سپریم کورٹ نے پانچ ہفتے میں حکومت بحال کر دی لیکن صدر اور وزیرِاعظم میں ورکنگ ریلیشن شپ بحال نہ ہو سکی۔ آرمی چیف کی مداخلت سے دونوں اپنے اپنے عہدے چھوڑنے پر آمادہ ہوئے اور نئے انتخابات تک معین قریشی نگران وزیراعظم بنے۔ اکتوبر93کے الیکشن محترمہ بے نظیر بھٹو جیت گئیں۔ لیکن اپنی حکومت کا دوسرا دور محترمہ کے لیے زیادہ مشکل دور ثابت ہوا۔ ان کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کو کراچی میں اس وقت قتل کر دیا گیا جب ان کی بہن ملک کی وزیراعظم تھیں۔الزام اور جوابی الزامات کی بوچھاڑ میں خود ان کے شوہر،پولیس اور ایجنسیوں پر شبے کا اظہار ہوتا رہا۔ ان سازشی حالات میں صدر فاروق لغاری نے نومبر1996 ء میں بے نظیرکی حکومت برطرف کر دی۔ آئین کے اسی آرٹیکل 58-2/B کے تحت ۔اور فاروق لغاری کا تعلق پیپلز پارٹی سے تھا ، وہ پارٹی کے رہنمائوں میں سے تھے اور محترمہ بے نظیر اورپی پی پی کی حمایت سے صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے۔
لیکن یہ افسوسناک کہانی یہیںختم نہیںہوتی۔ایک بارپھرانتخابات ہوئے،یہ ایک دہائی سے بھی کم عرصے میںچوتھے انتخابات تھے۔اسلامی جمہوری اتحاد (IJI)کے بینرتلے نوازشریف نے دوتہائی اکثریت سے یہ الیکشن جیت لیا۔اپوزیشن اورمیڈیا الزامات لگاتارہا کہ اس جیت میںپاکستان قومی اتحاد کوخفیہ اداروںکی بھرپورحمایت حاصل تھی۔نوازشریف کے اسی دورحکومت میںمئی1998میںپاکستان نے اپناپہلا ایٹمی دھماکہ کیا۔اسی سال کے دوران نوازشریف کے تعلقات عدلیہ اورفوج سے بگڑتے چلے گئے۔جنرل کرامت فوج کے چیف آف اسٹاف تھے۔وہ استعفیٰ دے کر ملک سے باہرچلے گئے۔
وزیراعظم نے غیرمتوقع طورپرلیفٹیننٹ جنرل پرویز مشرف کوفوج کاسربراہ بنادیا۔ملکی حالات میںکشیدگی برھتی چلی جارہی تھی۔مئی،جون1999میںکارگل کی مہم جوئی نے اداروںکے مابین تلخی میںمزیداضافہ کردیا۔ وزیراعظم نے جنرل ضیاء الدین بٹ کونیاچیف بناناچاہالیکن فوج نے آگے بڑھ کرنوازشریف کی حکومت ختم کردی اورچیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویزمشرف نے ملک کی باگ ڈورسنبھال لی۔ نوازشریف گرفتارہوئے،فوجی عدالت میںمقدمہ چلا۔ اٹک قلعے میںقیدتھے جب سعودی عرب کی مداخلت سے انہیںایک معاہدے کے تحت دس برس کیلئے سعودی عرب جلاوطن کردیا گیا۔ اور 1988سے 1999 کا گیارہ سالہ افسوسناک دوراپنے انجام کوپہنچا۔
لیکن ہمیںتاریخ کی کھڑکی کوابھی مزید کچھ دیرکھلارکھناہوگا۔ابھی قیام پاکستان کے بعد،ابتدائی برسوں کے ان معنی خیزلمحوںکے مناظرکوضبط تحریر میں لاناباقی ہے جوآنیوالے دنوںکے پاکستان کوپہلے مارشل لا تک پہنچانے میںاصل عمل انگیزثابت ہوئے۔ہمیںکسی مارشل لاکے بارے میں کچھ نہیں کہنا۔ ان کے بارے میںبہت ماتم سرائی ہوچکی۔اب یہ ماضی کا ورثہ ہے جومحض تاریخ کے شوقیہ سیاحوںکی بیک ہوم سیلفیوں کے کام آسکتاہے۔ البتہ ذوالفقار علی بھٹو1972-77اور نواز شریف2013-17کے ان دو ادوار کی گم شدہ کڑیوں کی تلاش ابھی باقی ہے۔ ان موضوعات پر آئندہ' احوال' میں بات ہوگی۔