• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رپورٹ: ایشیا امن فلم میلہ

تحریم ظفر

کراچی کے قلب میں واقع، ایکسپو سینٹر گزشتہ دنوں رنگ و نور کا مرکز بنا رہا، اس کا سبب23 سے 26 فروری تک حکومتِ سندھ کے محکمۂ ثقافت، سیّاحت اور آثارِ قدیمہ کے اشتراک سے جاری رہنے والا’’ ایشیا امن فلم میلہ‘‘ تھا، جس میں پاکستان کے علاوہ، دیگر ایشیائی مُمالک سے بھی فلم میکرز، ڈائریکٹرز، فن کار، اینی میٹرز، اداکار، میڈیا پرسنز، ارکانِ پارلیمان، اساتذہ، امن پسند کارکنان، سینما فوٹو گرافرز اور طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ 

اس چار روزہ میلے کی تمام ہی نشستیں، حاضری اور جوش وخروش کے لحاظ سے بھرپور رہیں، جس کا مبصرین نے خاص طور پر ذکر کیا۔ منتظمین کے مطابق اس فیسٹیول کا بنیادی مقصد، کراچی کی تخلیقی صلاحیتوں کا جشن منانا اور یہ پیغام دینا تھا کہ’’ کراچی سب کا ہے۔‘‘ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ اس فیسٹیول کے ذریعے شرکاء کو باہمی تبادلۂ خیال کے مواقع بھی دیے گئے، جس سے تخلیق کاروں کے درمیان ثقافتی تبادلے اور باہمی دِل چسپی کے نکات تلاش کرنے میں مدد ملی۔ 

فیسٹیول کا ایک بنیادی جزو، تین روزہ’’ فلم کانفرس‘‘ تھی، جس کا مقصد فنونِ لطیفہ سے وابستہ افراد کو بذریعہ فلم قیامِ امن کے لیے اکٹھا کرنا تھا، تو امن کے لیے کوشاں افراد کے درمیان تجربات کا تبادلہ کرنا بھی، تاکہ ایک دوسرے سے کچھ سیکھا جا سکے۔ ان چار دنوں میں کئی پینل ڈسکشنز، ماسٹر کلاسز اور فلم اسکریننگز ہوئیں، جس سے شرکاء خُوب لطف اندوز ہوئے۔

رپورٹ: ایشیا امن فلم میلہ
پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹو زرداری اختتامی تقریب میں شریک ہیں

 فیسٹیول میں کُل 109ایشین فلمز دِکھائی گئیں، جن میں 24پاکستانی تھیں۔ شارٹ فلم کیٹیگری میں فیضان شورو کی فلم’’ مَیں کون ہوں‘‘ نے بہترین فلم کا ایوارڈ حاصل کیا، تو آزاد فلم میکرز کی کیٹیگری میں نعمان خانزادہ کی’’ بے نام‘‘ نے بہترین فلم کا ایوارڈ جیتا۔ 

فیسٹیول کے باقاعدہ افتتاح سے پہلے وزیرِ اطلاعات، سیّد ناصر حسین شاہ نے ایکسپو سینٹر کا دَورہ کیا اور تیاریوں کا جائزہ لیا۔ اس موقعے پر اُن کا کہنا تھا کہ’’ امن و محبّت کا پیغام پہنچانے کے لیے اس طرح کے میلوں کا انعقاد ازحد ضروری ہے۔‘‘ اُنھوں نے اتنی بڑی تعداد میں غیر مُلکی مہمانوں کی آمد کو سندھ کے لیے ایک اعزاز قرار دیا۔

وزیر اعلیٰ سندھ، سیّد مراد علی شاہ نے ایک پُروقار تقریب کے ذریعے فیسٹیول کا باقاعدہ افتتاح کیا۔ اس موقعے پر اُنہوں نے کہا کہ’’ 18ویں ترمیم کے بعد سینما اور فلم کے معاملات صوبائی حکومت کے پاس آگئے ہیں، جس کے بعد سے پی پی پی حکومت فلمز کی ترویج کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ فیسٹیول کا موضوع’’ کراچی سب کا‘‘ بھی بہت اچھا اور حالات سے مطابقت رکھتا ہے۔ 

یہاں مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے بستے ہیں اور یہ شہر اُن سب کا ہے۔ یہ مشترکہ احساسِ ملکیت، مختلف زبانیں بولنے اور مذاہب کو ماننے والوں کے درمیان بھائی چارہ پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ’’ صوبائی حکومت فلم اور سینما انڈسٹری کی ترقّی کے لیے کوشش کرتی رہے گی۔‘‘ ایشیاء امن فلم میلہ کے چیئرمین، امجد بھٹی نے تقریب سے خطاب کے دَوران میلے کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی۔ 

اس موقعے پر بھارت سے تعلق رکھنے والی ماریہ سیّد، ایران کی فلم میکر فاطمہ موسوی، بوسنیا کے پروفیسر نیند اور دیگر مُمالک سے آنے والے مہمانوں نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا، جن میں فلم سازی کے مختلف پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کی گئی۔

رپورٹ: ایشیا امن فلم میلہ

پہلے دن کی پینل ڈسکشن کا عنوان’’ ایشیاء میں امن کی صُورتِ حال‘‘ تھا، جس کی میزبانی بی بی سی اُردو کے ثقلین امام نے کی، جب کہ بوسنیا، چین، کوریا، ایران، انڈونیشا اور آسٹریلیا کے فلم میکرز، ڈائریکٹرز اور مصنّفین مہمانوں میں شامل تھے۔ شرکاء نے اپنے تجربات کی روشنی میں قیامِ امن کے لیے ثقافتی تبادلوں کی ضرورت اور افادیت پر روشنی ڈالی۔

 اُس روز کا دوسرا سیشن، فلم پروڈکشن کے حوالے سے ماسٹر کلاس پر مشتمل تھا، جو بھارتی ڈائریکٹر، ماریہ سیّد اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے دھنشکا گناتھلک نے لی۔ اس کلاس میں کراچی کی متعدّد یونی ورسٹیز کے شعبۂ ابلاغِ عامّہ کے طلبہ نے بھی شرکت کی۔ اگلے سیشن میں ایشیاء میں فلم سازی کے مختلف رُجحانات کے حوالے سے بحث ہوئی۔ اس پینل میں چین، انڈونیشا، افغانستان، فلپائن، بوسنیا اور اسپین سے تعلق رکھنے والے مہمانوں نے شرکت کی۔ سری لنکا سے تعلق رکھنے والے فلم نقّاد، بوپاتھی نالن نے میزبانی کے فرائض سرانجام دیے۔

دوسرے روز کا آغاز’’ فلم اور عورتوں کی نمایندگی‘‘ کے عنوان سے پینل ڈسکشن سے ہوا، جس کی میزبانی پاکستان کی معروف مصنّفہ، فریال علی گوہر نے کی، جب کہ ڈسکشن میں برطانیہ، کوریا، بھارت، آسٹریلیا، بوسنیا اور ایران کے فلم میکر شامل تھے۔ شرکاء نے سینما میں خواتین کے کردار پر بحث کی کہ کس طرح اس میں عورت کی نمایندگی کی جاتی ہے اور کس طرح عصرِ حاضر کا سینما عورتوں کی روایتی ترجمانی کے پدر شاہی اُصولوں سے ہٹ کر ایک نئے زاویے سے نمایندگی کا فریضہ سرانجام دے سکتا ہے۔ 

رپورٹ: ایشیا امن فلم میلہ
وزیر اعلٰی سندھ، سید مراد علی شاہ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے

اگلا سیشن ڈاکومینٹری بنانے کے حوالے سے تھا، جس میں انڈونیشیا کے فلم ڈائریکٹر، انٹونیکس ٹونی نے معاون کا کردار ادا کیا، جب کہ ایران کے فلم ساز، کو میل سہیلی نے میزبانی کے فرائض انجام دیے۔ طلبہ کی ایک بڑی تعداد نے نہ صرف یہ کہ اس پروگرام میں شرکت کی، بلکہ مہمانوں سے بہت سے سوالات بھی کیے۔ اگلا پینل ڈسکشن’’ امن اور ثقافت‘‘ کے عنوان سے تھا، جس کی میزبانی ثقلین امام نے کی۔ پاکستان، ایران اور انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے ڈراما نگاروں، فلم میکرز اور صحافیوں نے قیامِ امن کے لیے سینما کے کردار پر سیر حاصل بحث کی۔

تیسرے روز کا پہلا پروگرام’’ امن کی تعلیم کے فروغ میں فلم کا کردار‘‘ کے عنوان سے پینل ڈسکشن تھا، جس کی میزبانی کے فرائض ثقلین امام نے سرانجام دیے، جب کہ پرتگال، پاکستان، اسپین، فلپائن، افغانستان، سری لنکا، جنوبی کوریا، تُرکی اور ایران سے تعلق رکھنے والے فلم میکرز نے قیامِ امن میں فلم کے کردار پر انتہائی جان دار گفتگو کی۔ آخری پینل ڈسکشن کا عنوان’’ آزادیٔ اظہار اور ریگولیٹری قواعد‘‘ تھا، جس کی میزبانی انیق ظفر نے کی۔ 

اس گفتگو میں شامل شرکاء نے، جن کا پاکستان، ایران، بھارت، اسپین، تُرکی اور تائیوان سے تعلق تھا، آئینی ضمانتوں، ریگولیٹری قواعد اور آزادیٔ اظہار کا تقابلی جائزہ لیا۔ اس حوالے سے ایشیا کے مختلف مُمالک کی صُورتِ حال کا بھی موازنہ کیا گیا، جس سے ایشیائی مُمالک میں نفرت آمیز مواد اور اظہار کی آزادی کے حوالے سے سمجھ بوجھ میں کافی مدد ملی۔ 

شام کو محفلِ موسیقی کا انعقاد کیا گیا، جس میں عوام کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔ اس شامِ موسیقی کاخاص پہلو کینیڈین، انڈین آرٹسٹ، ازالے رے کی پرفارمینس تھی، جنہوں نے اپنی شان دار پرفارمینس سے سُننے والوں کے دِل موہ لیے۔

رپورٹ: ایشیا امن فلم میلہ
پینل ڈسکشن میں شریک پاکستانی اور غیر ملکی فلم ساز

یہ’’ ایشیا امن فلم میلہ‘‘ بے نظیر بھٹو کے نام موسوم کیا گیا تھا، سو اُن کی یاد میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی، جس میں اُن کی زندگی اور جدوجہد کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ مقرّرین نے جمہوری معاشرے کے قیام کے لیے قربانیوں پر اُنھیں خراجِ عقیدت بھی پیش کیا۔ چوتھے روز منعقد ہونے والی اس کانفرنس کی صدارت چیئرمین سینیٹ، میاں رضا ربّانی نے کی۔ 

وزیرِ ثقافت و سیّاحت اور آثارِ قدیمہ، سیّد سردار علی شاہ نے اپنے افتتاحی خطاب میں میلے میں شرکت کے لیے آنے والے مُلکی اور غیر مُلکی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ چیئرمین سینیٹ، میاں رضا ربانی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ’’ بے نظیر بھٹّو کی جدوجہد جمہوریت کے لیے تھی، جس کے دَوران اُنھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور طرح طرح کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ وہ ایک اُصول پسند خاتون تھیں اور کبھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔

 انھوں نے نامساعد حالات کے باوجود اپنے والد، ذوالفقار علی بھٹّو کے نقشِ قدم پر چل کر دِکھایا۔‘‘ کانفرنس سے ظفر اللہ خان، ڈاکٹر قیصر بنگالی، سعید غنی، ثقلین امام، بیگم شہناز وزیر علی، ڈاکٹر اسحٰق بلوچ، ڈاکٹر توصیف احمد خان، چوہدری منظور احمد اور غازی صلاح الدّین نے بھی خطاب کیا۔

میلے کی اختتامی تقریب کے مہمانِ خصوصی، پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹّو زرداری تھے۔ صوبائی وزیر، سیّد سردار علی شاہ کے ابتدائی کلمات کے بعد، ازالے رے نے ریشماں کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔ بعدازاں، آسٹریلیا کی اینے ڈیمی جیروئے، تُرکی کے یوسف بہار، بوسنیا کی ملانا مجر، سری لنکا کے بوپاتھی نالن، پرتگال کے انٹونیو ویلنٹے، افغانستان کی معصومہ ابراہیمی سمیت کئی غیر مُلکی مہمانوں نے چار روزہ میلے کے حوالے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔

رپورٹ: ایشیا امن فلم میلہ
بھارتی فن کارہ، ازالے رے سُر بکھیر رہی ہیں

 انڈونیشیا کے سفیر، ایوان ایس آمری نے ایشیا میں امن کے قیام کے لیے اس فیسٹیول کی کوششوں کی تعریف کی۔ مہمانِ خصوصی، بلاول بھٹّو زرداری نے تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اُمید ظاہر کی کہ کراچی میں اُن کا قیام خوش گوار ثابت ہوا ہوگا۔ اُنہوں نے اے پی ایف ایف کے کراچی ایڈیشن کو بے نظیر بھٹّو کے نام سے موسوم کرنے پر بھی شُکریہ ادا کیا۔ 

اُنہوں نے کہا کہ’’ یہاں اکٹھے ہونے والے لوگوں کی گفتگو سے ہمیں نہ صرف فلم سازی کے تیکنیکی پہلو سمجھنے میں مدد ملی، بلکہ مختلف مُمالک کی ثقافت، فن اور وَرثے کے بارے میں بھی معلومات میں اضافہ ہوا۔‘‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ’’ پاکستان ایک ایسا مُلک ہے، جہاں صدیوں سے مختلف مذاہب اور عقائد سے تعلق رکھنے والے اکٹھے رہ رہے ہیں اور آج کا پاکستان، اس ثقافتی اور تہذیبی برداشت کا عکّاس ہے۔ سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا، بلوچستان، کشمیر اور گلگت بلتستان کے لوگ اس پُرکشش ثقافت کی کڑیاں ہیں۔

 سندھ، صوفیوں کی سرزمین ہے اور یہاں کے باسیوں نے ہمیشہ امن کا پیغام پھیلایا اور رواداری پر یقین رکھا ہے۔ ہم نہ صرف اپنے مُلک کے لیے بلکہ دیگر مُمالک کے لیے بھی ایسی ہی طرزِ معاشرت کے خواہاں ہیں۔‘‘ بلاول بھٹّو زرداری نے امن میلے کے انعقاد پر آرگنائزرز کو سراہتے ہوئے کہا’’ مجھے یقین ہے کہ اس اقدام سے ایک متبادل سینما وجود میں آئے گا، جو مختلف معاشروں اور عقائد سے تعلق رکھنے والوں کے افکار کی ترجمانی میں معاون ثابت ہوگا۔ 

ان تمام فن کاروں کو مبارک باد پیش کرتا ہوں، جن کا کام اس فیسٹیول میں دِکھایا گیا۔ مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اپنی فلمز اور فنّی مہارت سے دِل گداز پیغامات لوگوں تک پہنچاتے رہیں۔‘‘ بلاول بھٹّو زرداری نے تقریب کے اختتام پر انعامات بھی تقسیم کیے۔

تازہ ترین