• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن


وفاقی بجٹ کے اہداف کا حصول ایک ایسا چیلنج ہے جس سے ہم 70سال سے نبردآزما ہوتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔اور چیلنجوں میں گھرے ہوئے ہیںان میں سرفہرست 268کھرب روپے کا غیر ملکی قرضہ ہےہر سال جتنا اتارا جاتا ہے اس سے زیادہ چڑھا لیا جاتا ہے۔ اس کا اثر بجٹ اہداف پر پڑنا منطقی بات ہے۔ یہ امر انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ ملک کو 2017-18میں محاصل کے ساتھ ساتھ مجموعی پیداوار کی شرح نمو میں بھی اعشاریہ پانچ فیصد کمی کا سامنا ہے۔جبکہ بجٹ میں یہ شرح 6فیصد مقرر کی گئی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس سال گندم کا پیداواری ہدف 26.5ملین ٹن رکھا گیا تھاجو کہ 26ملین ٹن تک رہنے کا امکان ہے۔ سندھ میں کپاس کی پیداوار افسوسناک حد تک12.3فیصد رہی۔ اکتوبر سے دسمبر تک نائیٹروجن کھاد 16.4فیصد جبکہ فاسفیٹ کے استعمال میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی اسٹیل مل بند پڑی ہے،بظاہر ریلوے کو نفع بخش بتایا جا رہا ہےلیکن حالات اچھے دکھائی نہیں دے رہے۔ پی آئی اے فروخت ہونے جا رہی ہے،پانی کی کمی کے بتدریج بڑھتے ہوئے بحران سے زراعت کا شعبہ مزید مشکلات کی طرف بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔دوسری طرف طرز زندگی،نمودو نمائش میں روز افزوں اضافہ، بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سبب تنخواہوں میں ہرسال اضافے کا تقاضا، رواں مالی سال میں نرخ بڑھنے کے باوجود سگریٹ کے استعمال میں 1.13فیصد،گھروں کی تعمیرات میں 42فیصد،بجلی کے ٹرانسفارمرز 46.7فیصد اور موٹروں کے استعمال میں 155اعشاریہ 9فیصد اضافہ ہوا۔ملکی برآمدات مسلسل کم ہو رہی ہیں اور درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ اقتصادی ماہرین اس صورتحال کا حل بجا طور پر موثر ٹیکس کلچر اور محاصل کی سو فیصد وصولی کو قرار دیتے ہیں۔ آئندہ بجٹ کے اہداف حاصل کرنے کے لئے ان تجاویز پر عمل کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998 

تازہ ترین