سوال:جب کوئی وصیت کرتاہے اور اس کی وفات کے بعد اس کی وصیت پر اسی طرح عمل کرنا ہوگا یا اس میں کوئی تبدیلی جائز ہے ،جیسے قبر والی جگہ کا معاملہ ہے ،اگر ورثاء کسی شخص کے بیرون ملک انتقال کی صورت میں اس کی میت اپنے ملک مثلاً پاکستان لے جانا چاہیں توکیا حکم ہے ،اگرچہ ان تمام باتوں کا علم وصیت کرنے والے کوہے یا نہیں ،اس سلسلے میں کیا حکم ہے؟ (مولانا عرفان مدنی ،انگلینڈ)
جواب:شریعت میں وصیت کرنے کا مطلب بطور احسان کسی کو اپنے مرنے کے بعد اپنے مال یا کسی منفعت کا مالک بناناہے ،علامہ نظام الدین ؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’شریعت میں ’’اِیصاء‘‘ یعنی وصیت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے مرنے کے بعد کسی کو تبرُّع (فضل واحسان ) کے طورپر اپنے مال یا کسی منفعت کا مالک بنانا ، ’’تبیین ‘‘ میں بھی اسی طرح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد6،ص:90)‘‘۔
فلاں شخص میرا جنازہ نہ پڑھے یا فلاں میرا جنازہ پڑھائے یا کسی خاص جگہ دفن کرنے کی وصیت کرنا باطل ہے ،علامہ نظام الدین ؒلکھتے ہیں:’’(کسی نے) وصیت کی کہ مجھے میرے گھر میں دفن کیاجائے ،تو یہ وصیت باطل ہے ،البتہ اگر وہ وصیت کرے کہ اس کے گھر کو مسلمانوں کا قبرستان بنادیاجائے (تویہ وصیت درست ہے)،’’فتاویٰ ‘‘ اور ’’خلاصۃ الفتاویٰ ‘‘ میں ہے: اوراگر (کسی نے) وصیت کی کہ اسے اس کے گھر میں دفن کیاجائے تو یہ وصیت صحیح نہیں ہے،اُسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیاجائے گااور اگر (کسی نے) وصیت کی:میرا جنازہ فلاں شخص پڑھائے ،تو ’’عیون البصائر ‘‘ میں بیان کیاہے : یہ وصیت باطل ہے ،اور ’’فتاویٰ‘‘ اور ’’خلاصۃ الفتاویٰ‘‘ میں ہے : یہ وصیت صحیح نہیں ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد6،ص:95)‘‘۔
اگر میت نے وصیت میں کوئی خطا کی یا کسی وارث کے حق میں ظلم کیا تو ولی یا وصی اُس وصیت میں تصحیح کرسکتاہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ پھر جسے وصیت کرنے والے سے بے انصافی یا گناہ کا خوف ہو ،پس وہ اُن کے درمیان صلح کرادے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ،بے شک اللہ بہت بخشنے والا بے حد رحم فرمانے والا ہے ،(سورۃ البقرہ:182)‘‘۔اس سے مراد یہ ہے کہ اگر وصیت کرنے والا وصیت کرتے ہوئے کسی زیادتی یا گناہ کا ارتکاب کرے، تو اُسے اصلاح پر آمادہ کرنا چاہیے ۔
تفسیرمعالم التنزیل میں ہے :ترجمہ:’’ جب میت نے وصیت میں خطاکی یاجان بوجھ کر ظلم کیا اور ولی یا وصی یا مسلمانوں کاحاکم اس کی موت کے بعد اُس کے وارثوں اور مُوصیٰ لیہم (جن کے حق میں وصیت کی گئی ہے )، کے درمیان صلح کرادے تو اُن پر کوئی حرج نہیں ہے اور وصیت کو عدل وحق کی طرف لوٹادیاجائے ،تواس میں کوئی گناہ نہیں یعنی کوئی حرج نہیں ہے ،(جلد1،ص:65)‘‘۔
اگرکوئی شخص کسی وارث کو محروم کردے یاکسی شخص کے لیے اس قدر زیادہ وصیت کرے جس سے دوسرے حق داروں کے حصوں میں کمی ہو تو وہ شخص گنہگار ہوگا ،حدیث پاک میں ہے :ترجمہ:’’ایک مرد اور عورت ساٹھ سال تک اللہ کی عبادت کرتے رہتے ہیں ،پھر ان کو موت آجاتی ہے اور وہ وصیت میں (کسی کو) ضرر پہنچاتے ہیں توان کے لیے دوزخ واجب ہوجاتی ہے،(سُنن ابوداؤد: 2868)‘‘۔
علامہ ابوالحیان اندلسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ترجمہ:’’موصی (وصیت کرنے والے)کی موت کے بعد معلوم ہواکہ اس نے اپنی وصیت کے ذریعے کسی پر ظلم کیاہے اور دانستہ کسی وارث کو اذیت پہنچائی ہے تو ورثاء کے درمیان اس اختلاف کو دور کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے ،اور عطاء نے کہا: کوئی شخص اپنی موت سے پہلے ایسی وصیت کرتاہے کہ ورثاء کے درمیان عدل قائم نہیں ہوتا تو ورثاء کے درمیان صلح کرانے میں کوئی گناہ نہیں ہے ،(البحرالمحیط : البقرہ:182)‘‘۔میت کو ایک ملک سے دوسرے ملک منتقل کرنانہ شریعت کا حکم ہے اورنہ ہی شریعت کی نظر میں یہ شعار پسندیدہ ہے،یہ لوگوں کی اپنی خواہشات یا خاندانی روایات ہیں ،جن کو وہ ترک کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔
بالفرض اگرکوئی برطانیہ میں مقیم ہے اورمرنے سے پہلے اس نے وصیت کی کہ اس کی میت پاکستان لے جاکر اس کے آبائی قبرستان میں دفن کی جائے ،توایسی وصیت پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے ۔
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
tafheem@janggroup.com.pk