• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اعتدال اور میانہ روی کی اہمیت

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اعتدال اور میانہ روی کی اہمیت

اللہ تعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لیے مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتا۔(سورۃ البقرہ ۱۸۵) سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا چاہئے کہ اس آیت کا سیاق وسباق کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ روزے کی فرضیت نازل فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ جو شخص بھی ماہ رمضان پائے تو وہ اس میں ضرور روزے رکھے۔ 

ہاں اگر کوئی شخص بیمار یا مسافر ہے تو اسے اجازت ہے کہ بیماری کے ایام یا سفر کے دوران روزے نہ رکھ کر بعد میں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا کرے۔ بیماری یا سفر کی وجہ سے روزہ نہ رکھنے کی اجازت اور بعد میں اس کی قضا کرنے کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اللہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرنا چاہتا ہے اور تمہارے لیے مشکل پیدا نہیں کرنا چاہتا۔ 

اسی طرح وہ بوڑھا شخص جو روزہ رکھ ہی نہیں سکتا ،اُسے گزشتہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے اجازت دی کہ وہ روزہ نہ رکھے، بلکہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔

معلوم ہوا کہ آسانی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ہم جو چاہیں، کریں، کبھی نماز پڑھی اور کبھی نہیں، کبھی زکوٰۃ کی ادائیگی کی اور کبھی نہیں، بلکہ دین میں آسانی کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن وحدیث کا کوئی بھی حکم انسانی استطاعت کے باہر نہیں ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: اللہ کسی بھی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ ذمے داری نہیں سونپتا۔ (سورۃ البقرہ ۲۸۶) مثال کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان پر روزانہ پانچ نمازوں کی ادائیگی فرض کی ہے، خواہ مرد ہو یا عورت ، غریب ہو یا مال دار، صحت مند ہو یابیمار، طاقت ور ہو یا کمزور، بوڑھا ہو یا نوجوان، مسافر ہو یا مقیم، بادشاہ ہو یا غلام حتیٰ کہ جہاد وقتال کے عین موقع پر میدان جنگ میں بھی یہ فرض معاف نہیں ہوتا۔ ہاں یہ سہولت ہے کہ اگر کوئی شخص کھڑے ہوکر نماز ادا نہیں کرسکتا تو وہ بیٹھ کر پڑھے، اگر بیٹھ کر بھی نہیں پڑھ سکتا تو لیٹ کر ادا کرے۔ 

اگر مریض قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ سکتا ہے تو اسے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنی چاہئے، لیکن اگر کسی عذر کی وجہ سے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنا ممکن نہیں ہے تو جس طرف ممکن ہو، رخ کرکے نماز پڑھ لے۔ 

اسی طرح مرد کو چاہئے کہ وہ فرض نمازمسجد جاکر جماعت کے ساتھ ادا کرے، لیکن عذر کی وجہ سے گھر پر بھی تنہا نماز پڑھ سکتا ہے۔ نماز کے لیے وضو ضروری ہے، لیکن اگر کوئی بیمار وضو نہیں کرسکتا تو وہ تیمم کرکے نماز پڑھے۔ 

وضو میںجو اعضاء دھوئے جاتے ہیں ،اگر اُس جگہ پر پٹی بندھی ہوئی ہے تو وضو کرنے کی صورت میں جس جگہ پر پٹی بندھی ہوئی ہے، اُس جگہ پر گیلے ہاتھ سے مسح کرلے،باقی اعضاء کو دھولے۔ آسانی کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ وہ حضور اکرم ﷺ کی آنکھوں کی ٹھنڈک یعنی نماز ہی نہ پڑھے۔

اسی طرح زکوٰۃ کے فرض ہونے پر زکوٰۃ کی ادائیگی تو کرنی ہے، لیکن اگر مال زکوٰۃ کے واجب ہونے کے لیے ضروری نصاب تک نہیں پہنچا یا نصاب سے تو زیادہ ہے ،لیکن اُس پر ایک سال نہیں گزرا یا قرضہ موجود مال سے بھی زیادہ ہے تو زکوٰۃ واجب نہیں۔ 

اسی طرح شریعت اسلامیہ میں آمدنی پر زکوٰۃ نہیں لگائی گئی، یعنی انسان اپنے اور گھر والوں کی ضرورت، اسی طرح گھر کے سازوسامان اور بچوں کی تعلیم پر جو رقم خرچ کرتا ہے، اُس پر کوئی زکوٰۃ نہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے تو وہ بھی صدقہ ہے یعنی اس پر بھی اجر ملے گا۔ (بخاری ومسلم)

امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ہر بالغ مردو عورت کو ماہ رمضان کے روزے رکھنا ضروری ہے، لیکن بیمار اور مسافر کے لیے اجازت ہے کہ وہ روز ہ نہ رکھ کر بعد میں قضا کرے، اسی طرح انتہائی بوڑھے شخص کے لیے اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھ کر ہر روزے کے بدلے صدقۃ الفطر کی مقدار صدقہ نکالے۔ 

نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی طرح حج بھی اسلام کا ایک رکن ہے۔ تمام عمر میں ایک مرتبہ صرف اُسی شخص پر فرض ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اتنا مال دیا ہو کہ اپنے وطن سے مکہ مکرمہ تک آنے جانے پر قادر ہو اور اپنے اہل وعیال کے مصارف واپسی تک برداشت کرسکتا ہو۔ جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو، وہ اس کے گھر کا حج کرے۔ (سورۂ آل عمران۹۷)

دین کے بنیادی ارکان کو مثال دے کر سمجھایا گیا کہ دین اسلام میں آسانی کا مطلب اپنی خواہشات کی اتباع نہیں، جیساکہ لامذہب لوگ سمجھتے ہیں ،بلکہ اللہ کے احکام کو نبی اکرمﷺ کے طریقے پر بجالانے کا نام ہی دین ہے، خواہ اس کے لیے کچھ تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں۔ 

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دوزخ خواہشات نفسانی سے ڈھک دی گئی ہے اور جنت مشکلات اور دشواریوں سے ڈھکی ہوئی ہے۔ (صحیح بخاری) انسان اگر اخروی زندگی میں کامیاب ہونا چاہتا ہے، جو یقیناً ہر شخص کی خواہش ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنی خواہشات پر عمل چھوڑکر خالق کائنات کے احکام کے مطابق اور حضور اکرم ﷺ کے طریقے کے مطابق زندگی گزارے، یعنی اخروی کامیابی کے لئے صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے دین اسلام کو اختیار کرنا۔ 

دین اسلام پر عمل کرنا آسان ضرور ہے، یعنی انسان کو اس کی طاقت سے باہر کسی عمل کا مکلف نہیں بنایا گیا ، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ دین اسلام کے مطابق زندگی گزارنے میں دشواریاں ضرور آتی ہیں، مثلاً فجر کی نماز کی ادائیگی کے لئے یقینا ًصبح کو گہری نیند آنے کے باوجود اٹھنا پڑتا ہے، سردی کے باوجود وضو کرنا پڑتا ہے اور مسجد میں جاکر نماز ادا کرنی ہوتی ہے۔ مال کی محبت اور ضرورت کے باوجود زکوٰۃ کے فرص ہونے پر اس کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔

روزہ رکھنے میںبھوک پیاس برداشت کرنی پڑتی ہے، غرض یہ کہ ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے احکام الٰہی پر عمل کرنا ضروری ہے، خواہ اس کے لئے مشکلات اور دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے۔

ہاں یہ بات مسلّم ہے کہ دین صرف عبادات کا نام نہیں۔ عبادات یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی ادائیگی دین اسلام کا ایک اہم حصہ ضرور ہیں، لیکن دین کے دیگر اجزاء مثلاً معاملات اور معاشرت میں بھی شریعتِ اسلامیہ کی تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔

بعض حضرات عبادات میں تو فرائض، واجبات، سنن اور نوافل کا مکمل اہتمام کرتے ہیں، لیکن معاملات میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو بھول جاتے ہیں، چنانچہ نماز وروزے کی پابندی کے باوجود کاروبار میں جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں یا رشوت لیتے ہیں۔ اسی طرح بعض حضرات دوسروں کے ساتھ برتاؤ کرنے میں اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ 

دوسری طرف امتِ مسلمہ کا ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو دین کے تمام ہی شعبوں میں اسلامی تعلیمات سے دور رہنے کے باوجود دوسروں خاص کر نماز وروزہ کی پابندی کرنے والوں پر اعتراضات کرنے کو ہی اپنے لیے دین اسلام کی خدمت سمجھتا ہے۔

اللہ کی اطاعت میں ہمیں میانہ روی اختیار کرنی چاہئے، یعنی حقوق اللہ کی ادائیگی کے ساتھ ہمیں حقوق العباد میں بھی کوئی کوتاہی نہیں کرنی چاہئے۔ نماز وروزے کی پابندی کے ساتھ بیوی، بچوں، دیگر گھر والوں، پڑوسیوں، رشتے داروں اور دوستوں سب کا خیال رکھنا چاہئے، کیونکہ دین اسلام میں رہبانیت نہیں ہے ،یعنی یہ دین نہیں کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں، اُسے چھوڑ کر صرف مسجد کے ایک کونے میں بیٹھ کر اللہ کا ذکر کریں۔ 

یقیناً قرآن کریم کے اعلان کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دلوں کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، اور ذکر نہ کرنے والوں کو نبی اکرم ﷺ نے مُردوں کے مانند قرار دیا ہے، لیکن اللہ کی مخلوقات اور دنیاوی سازوسامان کا جائز استعمال کرکے معاشرےمیں اپنا مقام بنانا اور عصری تعلیم حاصل کرکے ہر جگہ اپنی نمائندگی کو یقینی بنانا بھی تو دین ہے۔ اس ضمن میں نبی اکرم ﷺ کے چند فرامین پیش خدمت ہیں، جن سے اِس موضوع پر خاص رہنمائی ملتی ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تین آدمی ازواج مطہراتؓ کے پاس تشریف لائے اور اُن سے حضور اکرم ﷺ کی عبادت کے متعلق سوال کیا۔ جب اُنہیں اطلاع دی گئی تو انہوں نے اُسے بہت کم سمجھا اور کہنے لگے ہم کہاں اور اللہ کے رسولﷺ کہاں۔ اُن میں سے ایک نے کہا: میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھوں گا۔ دوسرے شخص نے کہا: میں ہمیشہ روزے رکھوں گا۔ 

تیسرے نے کہا: میں عورتوں سے کنارہ کشی اختیار کروں گا ۔ حضور اکرم ﷺ اُن کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: تم وہ لوگ ہو، جنہوں نے اس طرح کہا؟ اللہ کی قسم! میں تم میں سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں اور تم میں سب سے زیادہ اس کا خوف رکھنے والا ہوں، لیکن میں روزہ رکھتا ہوں اور افطار بھی کرتا ہوں۔ نماز پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور ازدواجی تعلق بھی رکھتا ہوں، پس جس نے میری سنت سے اعراض کیا، وہ مجھ سے نہیں۔ (بخاری ومسلم)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ اُن کے پاس تشریف لائے اور اُن (حضرت عائشہؓ) کے پاس ایک عورت بیٹھی تھیں۔ آپ ﷺ نے پوچھا یہ کون ہیں؟ میں نے جواب دیا ،یہ فلاں عورت ہے، جس کی نماز کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: بس ٹھہرو! تم وہ چیز لازم پکڑو جس کی تمہیں طاقت ہو۔ اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نہیں اکتاتا ،بلکہ تم اُکتا جاؤ گے۔ اللہ تعالیٰ کو وہ اطاعت زیادہ محبوب ہے ،جسے کرنے والا اس پر مداومت اختیار کرے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دین میں بے جا تشدد کرنے والے ہلاک ہوگئے۔ آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ (صحیح مسلم) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دین آسان ہے اور جو کوئی بے جاتشدد دین میں اختیار کرتا ہے،دین اس پر غالب آجاتا ہے۔ پس تم میانہ روی اختیار کرو ، خوش ہوجاؤاور صبح وشام اور رات کو کچھ حصے کی عبادت سے مدد حاصل کرو ۔ (صحیح بخاری)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ مسجد میں تشریف لاتے تو آپ ﷺ نے دو ستونوں کے درمیان ایک رسی بندھی ہوئی پائی۔ آپ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ رسّی کیسی ہے؟ بتایاگیا کہ یہ زینب کی رسّی ہے۔ جب تھک جاتی ہیں تو اس سے سہارا لیتی ہیں۔ 

آپ ﷺ نے فرمایا: اسے کھول ڈالو، ہر کوئی طبیعت کے نشاط کی حالت میں نماز (تہجد) پڑھے، جب سستی پیدا ہوجائے تو سو جائے۔ (بخاری ومسلم)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ خطبہ ارشاد فرمارہے تھے۔ اچانک آپﷺ کی نگاہ ایک کھڑے ہوئے آدمی پر پڑی۔ آپ ﷺ نے اس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ صحابۂ کرام ؓنے بتایا کہ یہ ابواسرائیل ہے جس نے نذر مانی ہے کہ دھوپ میں کھڑا رہے گا اور بیٹھے گا نہیں ، نہ سایہ لے گا ، نہ گفتگو کرے گا اور روزہ رکھے گا۔ 

حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اسے کہہ دو کہ وہ بات کرلے اور سایے میں ہوجائے اور بیٹھ جائے اور روزے کو مکمل کرے۔(صحیح بخاری)

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ہمیں زندگی کے تمام شعبوں میں شریعت اسلامیہ پر عمل پیرا ہونا چاہیے، جیسا کہ فرمان الٰہی ہے: اے ایمان والو! اسلام میںپورے کے پورے داخل ہوجاؤ اور شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو۔یقین جانو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔ (سورۃ البقرہ ۲۰۸) لہٰذا جہاں ہمیں مسجدوں کو آباد کرنا ہے، وہیں بازاروں میں بھی اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا ہے اور اپنے اخلاق کو بہتر بنانا ہے۔ 

مدارس ومکاتب کی تعمیر کے ساتھ عصری درس گاہوں کے قیام کی بھی کوشش کرنی ہے۔ اپنے بچوں کو قرآن وحدیث کی تعلیم کے ساتھ عصری علوم پڑھاکر معاشرے کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے اپنی گراںقدر خدمات پیش کرنی ہیں۔ 

اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرکے برے کاموں سے بچنا ہے ،تاکہ مرنے کے بعد والی زندگی میں ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی حاصل ہو۔ احکام الٰہی پر عمل کرنا اور برائیوں سے بچنا اللہ کے خوف کے ساتھ یقیناً آسان ہے ۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین