• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہندوستان پر مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی اور یہاں کی تہذیب و تمدن پہ گہرے اثرات چھوڑے۔ شہنشاہ اورنگزیب کے انتقال کے بعد مسلمانوں کو ایسا زوال آیا کہ 1857ء میں برطانوی راج قائم ہو گیا۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے حکومت چھینی تھی، اس لیے انہوں نے ہندوؤں کو ساتھ ملا کر اُن کی سیاسی، علمی اور معاشی قوت ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ 1906ء میں مسلمانوں کے حقوق کی نگہداشت کے لیے ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ قائم ہوئی جس کے پہلے صدر آغا خاں اور سیکرٹری جنرل نواب وقار الملک تھے۔ کوئی ستر برس تک ہندوستان میں وحدانی حکومت قائم رہی اور 1935ء کے ایکٹ میں ایک وفاقی حکومت کی اسکیم دی گئی جسے مسلم قیادت نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا، کیونکہ اس کا مطلب اقتدار انڈین نیشنل کانگریس کے حوالے کر دینا تھا۔ اس پر حکومتِ برطانیہ کو وفاقی حکومت کی اسکیم واپس لینا پڑی، تاہم صوبوں میں پہلی بار انتخابات ہوئے۔ گیارہ میں سے آٹھ صوبوں میں کانگریس کی حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس فتح یابی پر پنڈت نہرو نے اعلان کیا کہ ہندوستان میں صرف دو طاقتیں ہیں ایک انگریز اور دوسری ہندو قومیت۔ اس پر قائداعظم نے انہیں ٹوکتے ہوئے بڑے گرجدار لہجے میں کہا تھا کہ تیسری طاقت مسلمان ہیں جن کی منظوری کے بغیر کوئی آئینی سسٹم نافذ نہیں کیا جا سکتا۔
وہ آٹھ صوبے جن میں کانگریسی حکومتیں قائم ہوئیں، وہ مسلمانوں کے لیے جہنم زار بنا دیے گئے تھے۔ وہاں مسلمان مساوی مواقع سے محروم کر دیے گئے، تعلیم کے لیے وڈیا مندر کھولے گئے۔ گورنمنٹ اسکولوں میں پڑھائی کا آغاز کانگریس کے جھنڈے کو سلامی دینے، مسلم دشمن ترانہ بندے ماترم اور گاندھی کی پوجا سے ہوتا تھا۔ اُردو کی جگہ ہندی کی سرکاری سرپرستی شروع ہو گئی اور اسے قومی زبان کا درجہ دے دیا گیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں اُردو اسکول بند ہوتے گئے اور مسلم طلبہ میں سامراجیت کے خلاف نفرت گہری ہوتی گئی۔ مسلم زمینداروں کو معاشی طور پر تباہ کرنے کے قانون بنائے گئے جبکہ ہندو مہاجنوں کے مفادات کو مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا رہا۔ گائے ذبح کرنے پر فسادات ہونے لگے اور مسجدوں کے سامنے بینڈ باجے بجانے کا فسادی عمل تیز ہوتا گیا۔ مسلمان شدت سے محسوس کرنے لگے کہ وہ اپنی دینی میراث سے محروم کیے جا رہے ہیں اور انہیں ہندو بنانے کی منظم کوششیں ہو رہی ہیں۔ مسلم لیگ کی قیادت نے کانگریسی حکومتوں کی اسلام دشمن سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لیے دو کمیٹیاں قائم کیں۔ ایک پیرپور کمیٹی اور دوسری شریف کمیٹی۔ دونوں نے تفصیلی جائزے کے بعد رپورٹ دی کہ مسلمانوں کو تہذیبی، معاشی اور سماجی اعتبار سے شدید نقصان پہنچایا گیا ہے اور پورے ہندوستان میں اس غیر قانونی، غیر اخلاقی اور غیر سیاسی طرزِعمل کے خلاف شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے ستمبر 1939ء میں دوسری جنگِ عظیم شروع ہوئی اور برطانوی حکومت سے جنگ کی پالیسی پر کانگریس وزارتوں سے مستعفی ہو گئی۔ اس پر قائداعظم نے 22دسمبر 1939ء کو یومِ نجات منایا جو جمعۃ المبارک کا دن تھا۔
ان دو برسوں کے دوران مسلمانانِ ہند کو آل انڈیا مسلم لیگ کی اہمیت اور قائداعظم کی عظمت کا گہرا احساس ہوا، چنانچہ اکتوبر 1937ء میں لکھنؤ میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں مسلمانوں کی صفوں میں زبردست یکجہتی کا منظر دیکھنے میں آیا۔ اس اجلاس میں وزیراعظم پنجاب سرسکندر حیات خاں، وزیراعظم بنگال مولوی فضل الحق اور وزیراعظم آسام سر محمد نصراللہ نے کُل ہند معاملات میں مسلم لیگ کی حمایت کرنے اور قائداعظم کو اپنا لیڈر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد مسلم لیگ کی تمام صوبوں میں اَن گنت شاخیں قائم ہو گئیں اور مسلمانوں کے اندر سیاسی بیداری پھیلتی گئی۔ یہی وہ زمانہ ہے جب کانگریس کے زیرِاثر بعض علمائے کرام یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کرتے رہے کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں، اس لیے ہندوستان کے مسلمانوں کو کانگریس کے ساتھ مل کر آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے۔ حکیم الامت علامہ اقبال اس نظریے کو فلسفیانہ دلائل سے بہت پہلے رد کر چکے تھے کہ’’ خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ‘‘۔ اس موقع پر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی عظیم تصنیف ’مسئلۂ قومیت‘ میں ثابت کیا کہ مسلم قوم وطن کے بجائے نظریات سے قائم ہوتی ہے۔
مسلمانوں کی ہمہ گیر بیداری میں آل انڈیا مسلم لیگ کا تاریخی اجلاس بہت اہمیت رکھتا ہے جو لاہور کے منٹو پارک میں منعقد ہوا جس میں پورے ہندوستان سے ایک لاکھ سے زائد مندوبین شریک ہوئے اور قائداعظم کی صدارت میں قراردادِ لاہور منظور ہوئی جسے بعد ازاں قراردادِ پاکستان کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ قراردادِ پاکستان کی منظوری سے مسلمانوں کی منزل کا تعین ہوا اَور ان کے جوش و خروش میں بے پایاں اضافہ ہوتا گیا۔ ہمارے شہر سرسہ میں جب یہ خبر پہنچی، تو میرے ہندو ہم جماعتوں نے کہا کہ یہ انگریزوں کی کارستانی ہے جو مسلمانوں اور ہندوؤں کو تقسیم کر کے ہندوستان پر اپنا اقتدار قائم رکھنا چاہتے ہیں،جبکہ مسلم زعما اس خیال کے حامل تھے کہ انگریز پاکستان کی راہ میں پوری طرح مزاحم ہوں گے اور انہیں یہ خطرہ لاحق ہو گا کہ قیامِ پاکستان سے اسلامی دولتِ مشترکہ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ یہی کچھ ہوا اَور برطانوی حکومت نے تقسیمِ ہند کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگایا، مگر جب 1945-46ء کے انتخابات میں آل انڈیا مسلم لیگ نے 99فی صد مسلم نشستیں جیت لیں، تو پاکستان کا قیام یقینی ہو گیا ۔ قائداعظم کی قیادت میں عظیم الشان جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان 14؍اگست 1947ء کی شب معرضِ وجود میں آیا جو ہماری خوش قسمتی سے لیلۃ القدر تھی۔ وقت گزرنے کے بعد اب یہ تاریخی حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ قراردادِ لاہور کے بعد 4؍اپریل 1940ء کو اس وقت کے وائسرائے لارڈ لنلتھ گو (Linlithgow)نے سیکرٹری آف اسٹیٹ کو ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اس خطرے کی نشان دہی کی تھی کی قیامِ پاکستان سے مسلم دولتِ مشترکہ قائم ہو سکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ کہ اس راز کے افشا ہو جانے کے باوجود بعض حضرات آج بھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ قراردادِ لاہور انگریزوں کی تخلیق تھی۔
پاکستان کی تشکیل میں دوسرا اہم کردار 23مارچ 1956ء کو اس موقع پر ادا کیا گیا جب دستور نافذ ہوا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان وجود میں آیا۔ اس سے قبل ہماری حیثیت ایک ڈومینن کی تھی جس کے ذریعے ہمارا تاجِ برطانیہ سے ایک تعلق موجود تھا۔ اس اہم سنگِ میل کو ہم یومِ پاکستان کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اسی روز پاکستان اپنی دفاعی طاقت کا مظاہرہ کرتا اور عالمی برادری کو اپنی خود مختاری کا احساس دلاتا ہے۔ اس دستور کا دیباچہ قراردادِ مقاصد پر مشتمل تھا جس میں یہ اصول طے پایا تھا کہ اقتدار اللہ تعالیٰ کی ایک مقدس امانت ہے جسے استعمال کرنے کے مجاز صرف عوام کے منتخب نمائندے ہیں۔ اس میں عدلیہ کی آزادی کے علاوہ آزادیٔ اظہار، آزادیٔ تحریر، آزادیٔ اجتماع کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کی مذہبی آزادی، ثقافتی ترقی اور معاشی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔ آٹھویں آئینی ترمیم سے یہ قراردادِ مقاصد آئین کا حصہ بن چکی ہے اور ہم پر اسلام کی آفاقی تعلیمات کی قندیلیں ضوفشاں ہیں جو روشن ضمیری، اعلیٰ ظرفی اور بلند نظری کی آئینہ دار ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین