• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ امر انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ خطے میں بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے گرمی کے موسم کا دورانیہ بھی بڑھ رہا ہے اور عالمی ماہرین جو اس صورت حال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں خبردار کر رہے ہیں کہ پاکستان پانی کے خطرناک بحران کی جانب بڑھ رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں قلت آب کے شکار ملکوں میں پاکستان تیسرے نمبر پر پہنچ چکا ہے۔ اس کی وجہ پانی کی ذخیرہ نہ کرنا اور اس کا نامناسب استعمال ہے۔ اس حوالے سے پانی کے عالمی دن کے موقع پر ایک خصوصی سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جامعہ کراچی میں مقررین کی یہ بات حکومت خصوصاً منصوبہ بندی کے اداروں کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ آئندہ بیس سال میں چالیس فی صد لوگوں کو پانی دستیاب نہ ہو گا ۔یہ بات گزشتہ ایک دہائی سے کہی جا رہی ہے کہ اب اگر کسی مسئلہ پر عالمی جنگ چھڑی تو وہ پانی کا مسئلہ ہو گا مگر حیرت ہے کہ سیاستدانوں سے لے کر سوشل میڈیا تک ہم بے شمار غیر ضروری امور پر لایعنی بحث مباحثے میں تو الجھے رہتے ہیں مگر قلت آب جیسا سنگین معاملہ کسی سطح پر زیر گفتگو نظر نہیں آتا حالانکہ اس جانب فوری توجہ نہ دی گئی تو کسی دشمن کی کارروائی کے بغیر اس ملک کی آبادی کا بہت بڑا حصہ پانی نہ ملنے کے باعث ہولناک تباہی اورجانی ومالی نقصانات سے دوچار ہوسکتا ہے۔ ملک میں اس وقت ذخیرہ آب کے لئے صرف منگلا اور تربیلا دو ہی بڑے ڈیم ہیں وہ بھی سطح آب میں ڈیڈ لیول پر ہیں جس کے باعث فصل خریف کے لئے پانی کی قلت کا سامنا ہے۔ ادھر بھارت نے پاکستان پر آبی جارحیت مسلط کرتے ہوئے دریاؤں کا پانی روک لیا ہے، سرزمین پاکستان کی خوش قسمتی کہئے کہ شمالی علاقہ جات، خیبر پختونخوا، بلوچستان، آزاد کشمیر اور شمالی پنجاب میں ایسے ہزاروں قدرتی مقامات ہیں جنہیں ڈیموں میں تبدیل کر کے مون سون کی بارشوں کا پانی سال بھر کے لئے ذخیرہ کیا جا سکتا ہے حکومت اور پالیسی ساز اداروں کو بلا تاخیر اس بارے میں سوچنا چاہئے۔

تازہ ترین