پی ایس ایل دبئی اور لاہور کے رستے کراچی جا پہنچا۔ لاہور میں کرکٹ میچ کے انعقاد کے لئے جس طرح شہر میں کاروبارزندگی کو ’’ٹھپ ‘‘ کیاگیااس سے انوکی لاک کی یاد تازہ ہوگئی جو ماضی کے نامور ایرانی ریسلر نے اکرم عرف اکی پہلوان کو لگایاتھا۔پی ایس ایل کے دومیچز کے سلسلے میں پہلے اور دوسرے دن قذافی اسٹیڈیم میں بالترتیب 18 سے 19ہزار جبکہ دوسرے دن لگ بھگ 20ہزار تماشائی آئے ۔ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ 22کروڑ آبادی پر مشتمل ملک کے مختلف شہروں کی ٹیموں کے مابین کرکٹ ٹورنا منٹ دبئی میں ہوا۔ اس سے بھی حیران کن امریہ رہاکہ جب پی ایس ایل کے میچز پاکستان آئے تو سیکورٹی کے ذمہ داران نے 2کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کو مفلوقج بنادیا۔دنیا میں آئے روز کھیلوں ،سیاسی ، سماجی ، ثقافتی اجتماعات کے ساتھ ساتھ احتجاجی تحریکوں کے لئے ہزاروں لاکھوں لوگ پارکوں اور سڑکوں پر نکلتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ معمولات زندگی متاثر نہیں ہونے دئیے جاتے۔ امریکہ ،روس،جرمنی ،فرانس ،اٹلی،ارجنٹائن ،آسٹریلیا،برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں کھیلوں کے میدان سجائے جاتے ہیں لیکن کہیں بھی سیکورٹی کے نام پر لاک ڈائون نہیں کیاجاتا ۔ بھارت کے کلکتہ اسٹیڈیم میں کرکٹ کے شائقین تو 90ہزار ہی آتے ہیں لیکن الہ آباد میں کنبھ کے میلے میں12کروڑ افراد شریک ہوتے ہیں۔ ذراسوچئے!! کنبھ کے میلے کی سیکورٹی اگر پنجاب پولیس کو سونپ دی جائے تووہ اسے فول پروف بنانے کی غرض سے بھوٹان اور میانمار کے ساتھ’’ ناکے‘‘ بنگلہ دیش اور افغانستان میں بھی لگادیں گے۔
تھیٹر سے وابستہ آئٹم گرل ستارہ بیگ کے ساتھ ایک ٹی وی ٹاک شو میں شرکت کرنے کا اتفاق ہوا۔ اداکارہ سے اجتماعی ریپ کیاگیاہے۔ابھی اس کے آنسو خشک نہیں ہوئے تھے کہ اسے انصاف کے حصول کے لئے غازے کی تہیں گالوں پہ سجائے میڈیا میں آناپڑا ۔ اداکارہ کے بقول چند افراد نے اس کی اجتماعی آبروریزی کی ہے ۔اس وحشیانہ سلوک پر جب وہ پرچہ درج کرانے متعلقہ پولیس تھانے گئی تو اس سے کہاگیاکہ لاہور کی تمام پولیس پی ایس ایل کے میچز کی سیکورٹی پر مامور ہے لہذا وہ انتظار کرے۔ہمارے ہاں یہ عجب رواج ہے قوم کسی نہ کسی فیور،بخار،جنون اور عشق میں مبتلارہتی ہے۔ کبھی ہماری منزل روٹی کپڑا اورمکان ہوتا ہے ،کبھی ہمارا نصب العین اسلامی نظام کا نفاذ قرار پاتاہے ، اس طویل دورانیے کے ڈرامے سے ہی غیر جماعتی انتخابات اور کرپٹ سیاست کو فروغ دینے کی سیریزچلی تھیں۔بعدازاں قرض اتارو ،ملک سنوارو جیسی فلمیں نمائش ہوئیں،کبھی عدلیہ کی آزادی کے سہارے ہم اپنے دکھوں اور مسائل کا حل چاہتے ہیں،کبھی نیاپاکستان تعمیر کرتے ہیںاور کبھی ووٹ کے تقدس اور عوام کے حق حکمرانی کو آخری منزل قراردیاجاتا ہے۔ ظاہری طور پر یہ تاثر دیاجاتاہے کہ ساری قوم جاگ اٹھی ہے ۔ بچے ،بوڑھے ،مرد ،عورتیں سبھی انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں۔لیکن افسوس ان تمام پھرتیوں ،آنیوں اور جانیوں کانتیجہ صفر ہوتاہے ۔منیر نیازی نے من حیث القوم ہماری بیماری تشخیص کرتے ہوئے کہاتھاکہ
منیراس قوم پر آسیب کا سایہ ہے یاکیاہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
چوہدری نثار نے بھی اپنا مقدمہ بیان کرتے ہوئے منیر نیازی کا حوالہ دیاہے ۔وہ کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ نوازکے بعد شہباز توانہیں بحیثیت قائد قبول ہوسکتے ہیں لیکن مریم کو وہ میڈم (لیڈر ) ماننے کے لئے تیار نہیں ۔نون ،نوازاورمریم کے ساتھ بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی کے حوالے سے چوہدری نثار نے کہاہے منظور نظر صحافیوں سے طے شدہ پروگرام کے تحت ایسے سوالات کرائے جاتے ہیں جن کا مقصد میری تضحیک کرنےکی کوشش ہوتی ہے۔مریم کے اندازِسیاست سے نون بند گلی میں پھنس چکی ہے۔میرے دل میں اب بھی شریف خاندان کے لئے احترام ہے اسلئے آج منیرنیازی کے شعر کے ذریعے صرف اتناکہوں گاکہ
ادب کی بات ہے ورنہ منیرسوچو تو
جو شخص سنتاہے، وہ بول بھی سکتا ہے
چوہدری نثار سے پہلے شیخ رشید کی بات کرلیتے ہیں جنہوں نے ایک مرتبہ پھر مارشل لائی طرح مصرعہ پیش کیاہے ۔اگرچہ شیخ رشید نے جوڈیشل مارشل لا کی بات کی ہے لیکن ان کی خواہش یہی ہے کہ وہ بھی مارشل لاجیسا ہو۔آئین میں جوڈیشل مارشل کا ذکر کہیں نہیں ہے لیکن شیخ صاحب بضد ہیں کہ چیف جسٹس صاحب یہ کرگزریں۔اس سے قبل ہم نے جوڈیشل مرڈر بھگتاہے جس کے تحت عوام کے محبوب لیڈر اور منتخب وزیر اعظم بھٹو کو پھانسی لٹکادیاگیاتھا۔
1954میں جسٹس منیر احمد نے Law of Necessity(نظریہ ضرورت) متعارف کرادیاتھاجس کے تحت مارشل لا کو آئینی اور قانونی مددفراہم کی گئی تھی۔بعدازاں جنر ل آغا یحییٰ خان ،ضیاالحق اور مشرف نے بھی اپنے مارشل لائوں کیلئے اسی ’’مارشل لائی نظریہ اضافیت‘‘ سے سیاسی وآئینی مدد حاصل کی ۔گویااس فارمولے کی مارشل لا کے لئے وہی اہمیت ہے جو طبیعات میں آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کیلئے رہی ہے۔ شیخ رشید اس سائنس کے اسٹیفن ہاکنگ قرار دئیے جاسکتے ہیں جو ہمارے سیاسی نظام شمسی کو مارشل لا کے بلیک ہول میں دھکیلنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ میں اگر مارشل لا کی حمایت نہیںکرتاتو ایسے قائدین کی سیاست سے متاثربھی نہیں ہوتاجو کسی خاص وقت پر ووٹ کے تقدس اور عوام کے حق حکمرانی کانعرہ بلند کرتے ہیں۔اپنے خیالات میں یہ گنجائش بھی رکھتا ہوں کہ انسان کے سماجی اور سیاسی نظریات میں تبدیلی وقوع پذیر ہوتی ہے لیکن میں یادداشت کے حوالے سے ’’گجنی ‘‘ نہیں ہوں ۔مذکورہ فلم میں اداکار عامر خان ماضی قریب کے واقعات بھولنے کی بیماری میں مبتلاہوتاہے جسے ولن’’ شارٹ میموری سرکٹ‘‘ کا طعنہ دیتارہتاہے۔پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف میموگیٹ اسکینڈل میں میاں نوازشریف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں گئے تھے۔علاوہ ازیںپاکستا ن کی تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو نون لیگ کے خواجہ محمدآصف کی رٹ پٹیشن پر نااہل قراردیاگیاتھا۔اس ’’نیک کام ‘‘ میں تحریک انصاف اور عمران خان نے بھی ان کا ہاتھ بٹایا تھا۔وہ کلپ یوٹیوب پر موجود ہے جس میں نوازشریف،یوسف رضا گیلانی کو ایک منتخب وزیر اعظم کے طور پر عدالت کا سامنا کرنے کا درس دے رہے ہیں۔ صوبائی وزیرخزانہ کی چھوٹی سی ٗننھی سی وزارت سے لے کر تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کی ہیٹرک تک سب کچھ ریکارڈ پر موجود ہے ۔اقتدار کے ان لمبے روٹوں پر جلاوطنی کے موسم گرما کی چھٹیاں بھی آتی رہیں مگر کبھی بھی ووٹ کے تقدس کا نعرہ بلند نہیں کیاگیا۔میاں صاحب ہمیشہ سے اپنے آپ کو سیاست اور اقتدار کا نوشے میاں سمجھتے آئے ہیں۔نجانے یہ کیوں سمجھتے ہیںکہ بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے بعد کی پیپلزپارٹی اقتدار کی برات میں ان کی براتی بنی رہے گی؟پنجاب خصوصاََ لاہور کبھی بھٹو اور پیپلز پارٹی کاگڑھ ہوا کرتاتھاپھر اسے شریف برادران کے حوالےکردیاگیا جہاں سیاسی مائیکر و مینجمنٹ کے ذریعے پی پی پی کو پیک اپ(ختم ) کیاگیا۔آئن اسٹائن اور اسٹیفن ہاکنگ کہتے ہیںکہ بگ بینگ جو کائنات کا آغاز تھا اس لمحے سے یہ کائنات مسلسل پھیل رہی اور اگر یہ عمل واپس ہوا تو سب کچھ الٹ جائے گا یعنی ہم پیدا ہونے سے پہلے مرجائیں گے،مرنے کے بعد بوڑھے کے طور پیدا ہوں گے،پھر ادھیڑ عمری کو پہنچیں گے اس کے بعد جوانی ،لڑکپن اور پھر بچپن کازمانہ آئے گا۔ لگتا ہے سیاست میں )Big Crunch بگ بینگ کے برعکس عمل ) کا آغاز ہوچکا ہے چوہدری نثار نے شریفوں کو منیر نیازی کے لہجے میں جواب دینے کی بات کی ہے۔نیازی صاحب جہاں چپ رہنے کی بات کرتے ہیںوہاں بولنے کا اشارہ بھی دیتے ہیں۔منیرنیازی نے اپنی نظم ’’خزانے کے سانپ‘‘ میں یہ کہاتھاکہ
اسے زہریلی خوشبوئوں کے رنگیں ہار دیتا ہوں
میں جس سے پیار کرتا ہوں اسی کو مار دیتا ہوں