پاکستان میں کہا جاتا ہے کہ ایک آزاد، خودمختار اور مقتدر ملک کی حیثیت سے پاکستان کو دیگر ممالک خصوصاً امریکہ کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے ۔ ملک کے اندرونی معاملات میں پاکستان کسی کو جواب دہ نہیں ہے اور وہ اپنی مرضی سے خارجہ پالیسی اپنانے کا حق رکھتا ہے ۔جب ہم پاکستان کی آزادی، خودمختاری اور اس کے اقتدار اعلیٰ کی بات کرتے ہیں تو یہ بھول جاتے ہیں کہ آج کی دنیا میں ہر آزاد ملک اقتدار اعلیٰ کا مالک ہوتا ہے ۔ اقتدار اعلیٰ ہر ریاست کی بنیادی خصوصیت ہے ۔ ہر ملک اندرونی اور بیرونی طور پر خود مختار ہوتا ہے۔ امریکہ،صومالیہ اور پاکستان آزادی اور اقتدار اعلیٰ رکھتے ہیں لیکن یہ تینوں ممالک یکساں انداز میں خودمختاری اور آزادی کو استعمال نہیں کرسکتے ۔ عملی سیاست میں جو خودمختاری امریکہ کو حاصل ہے صومالیہ اسی انداز میں اپنی آزاد اور مقتدر حیثیت کو استعمال نہیں کرسکتا۔
ریاستی اقتدار اعلیٰ کا عملی سیاست میں استعمال ایک استحقاق ہے جس کے موثر استعمال کے لئے ضروری ہے کہ ملک اندرونی، سیاسی اور معاشرتی خلفشار کا شکار نہ ہو اور اس کی اقتصادی صورتحال مستحکم ہو۔ کسی ملک میں جس حد تک یہ دونوں خصوصیات موجود ہوں گی وہ ملک اس حد تک مقتدر ہوتا ہے لہٰذا اقتدار اعلیٰ ہونے کے باوجود ہر ملک عملی سیاست میں اس خصوصیت کو یکساں طور پر استعمال نہیں کرسکتا۔جمہوری نظاموں میں اقتدار اعلیٰ کے مالک ملک کے عوام ہوتے ہیں جس کو ان کے منتخب کردہ نمائندے استعمال کرتے ہیں۔ ریاست کے اعلیٰ ترین اختیارات کا منبع منتخب پارلیمینٹ اور منتخب حکومت ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ریاست کے اعلیٰ ترین اختیارات کی اصولی حیثیت اور عملی صورت میں فرق رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مختلف اداروں اور شخصیات نے یہ اختیارات استعمال کئے۔1947ء سے 1956ء کے عرصہ میں اقتدار اعلیٰ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں مرکوز تھا۔ اس کے استعمال کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں اور قائدین میں مقابلہ ہوا۔
پاکستان میں فوجی حکومتوں کے ادوار میں فوجی حکمرانوں نے ریاست کے اعلیٰ ترین اختیارات استعمال کئے۔ ایک باقاعدہ آئین کی غیرموجودگی میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر یا چیف ایگزیکٹو کے احکامات حرف آخر تھے۔ ان فوجی حکومتوں نے اپنی سیاسی حیثیت کو مستحکم کرنے کے لئے سویلین شہریوں کو ایک مخصوص طریقہ کار کے ذریعے اپنے ساتھ اقتدار میں شامل کیا تاکہ ان کی حکومت پر منتخب کا لیبل لگ جائے۔ پاکستان کے 1956ء 1962ء اور 1973ء کے آئینوں میں اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے جسے عوام کے منتخب نمائندے اسلامی حدود میں رہ کر ایک ذمہ داری کے طور استعمال کرتے ہیں۔ باالفاظ دیگر عملی طور پر ریاست کے اعلیٰ ترین اختیارات منتخب پارلیمینٹ میں مرکوز ہوتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ منتخب پارلیمینٹ ان اختیارات کو قرآن پاک اور سنت میں موجود حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کرے گی۔بیشتر مذہبی رہنماؤں کا مطالبہ تھا کہ اس بات کا فیصلہ علماء کو کرنا چاہئے کہ منتخب پارلیمینٹ اور منتخب حکومت اسلامی حدود میں رہ کر کام کر رہے ہیں۔ ایران کے موجودہ آئین میں یہ اختیار علماء کی ایک کمیٹی کو حاصل ہے ۔
پاکستان میں یہ حق پارلیمینٹ نے اپنے پاس رکھا یا کسی قانون اور حکومتی حکم نامہ کو اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج کیا جا سکتا ہے ۔ جنرل ضیاء الحق نے اس مقصد کے لئے فیڈرل شریعت کورٹ اور سپریم کورٹ کی شریعت بنچ قائم کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا قیام 1962ء اور 1973ء کے دساتیر میں عمل میں لایا گیا لیکن یہ ادارہ اسلامی قوانین اور شعار کے سلسلہ میں صرف سفارشات پیش کر سکتا ہے ۔ قانون بنانے یا نہ بنانے کا حق صرف منتخب پارلیمینٹ کو ہے ۔
جمہوری اور پارلیمانی نظام حکومت کی پہچان منتخب پارلیمینٹ کی مرکزی حیثیت ہے جس کو ریاست کے تمام اداروں کو تسلیم کرنا ہوتا ہے ۔فوجی دور حکومت میں منتخب پارلیمینٹ کے علاوہ باقی ریاستی ادارے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ انتظامیہ، وزراء، بیوروکریسی اور عدلیہ موجود ہوتے ہیں۔ جو ادارہ غائب ہوتا ہے وہ منتخب پارلیمینٹ ہے ۔ لہٰذا پارلیمینٹ کا موجود ہونا اور اس کی مرکزی حیثیت کو تسلیم کرنا جمہوری پارلیمانی نظام کو فوجی نظام یا ڈکٹیٹر شپ سے ممتاز کرتا ہے ۔پارلیمانی جمہوری نظام میں باقی اداروں، خصوصاً آزاد عدلیہ کی موجودگی ضروری ہے لیکن ان تمام اداروں کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کا احترام کرنا ہوتا ہے اور منتخب پارلیمینٹ کی مرکزی حیثیت کو تسلیم کرنا ہوتا ہے ۔ پاکستان میں اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے لیکن اس کا استعمال منتخب پارلیمینٹ کے ذریعے ہوتا ہے۔پاکستان میں 2008ء کے انتخابات کے بعد اقتدار اعلیٰ عملی استعمال کے لئے منتخب پارلیمینٹ کے پاس آ گیا ۔ 2009ء سے منتخب پارلیمینٹ اور منتخب وفاقی حکومت کو اعلیٰ عدالتوں سے چیلنج آ رہا ہے جو کہ غیر منتخب ریاستی ادارہ ہے۔ماضی میں منتخب اداروں اور سیاسی عمل پر فوج کا دباؤ رہا ہے جو کہ ایک غیر منتخب حکومتی ادارہ ہے ۔ آج بھی منتخب پارلیمینٹ کی موجودگی میں وقتاً فوقتاً فوج اپنی سوچ اور ضروریات کے حوالے سے منتخب پارلیمینٹ اور فیڈرل حکومت پر دباؤ ڈالتی ہے ۔ سیاسی حکومت کے لئے فوجی دباؤ اور جمہوری تقاضوں میں توازن رکھنا کافی مشکل ہوتا ہے۔اب منتخب پارلیمینٹ اور منتخب وفاقی حکومت کو اعلیٰ عدلیہ کے دباؤ کا بھی سامنا ہے ۔ گزشتہ تین سالوں میں اعلیٰ عدلیہ نے اپنے اختیارات کو کافی وسعت دی ہے جس کا نقصان منتخب جمہوری اداروں کو ہوا ہے ۔
جمہوریت کے لئے آزاد عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے لیکن صرف آزاد عدلیہ جمہوریت کی ضمانت نہیں ہوتی پارلیمانی جمہوریت کی شناخت منتخب ادارے ہوتے ہیں اور ان کی اس شناخت کا احترام جمہوریت کی کوالٹی کا فیصلہ کرتا ہے ۔ملک کے سیاسی حلقے اپنی موجودہ سیاسی ضروریات کے حوالے سے اعلیٰ عدلیہ کے بڑھتے ہوئے دائرہ اختیار کو دیکھ رہے ہیں حزب مخالف میں شامل سیاسی جماعتیں خوش ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ نے منتخب حکومت کو اپنے عدالتی دباؤ میں رکھا ہوا ہے ۔ بعض جماعتیں یہ خواہش رکھتی ہیں کہ عدلیہ وفاقی حکومت کو فارغ کر دے یہ سیاسی حلقے یہ سمجھنے سے قاضر ہیں کہ پاکستان میں ایسی عدالتی روایات قائم ہو رہی ہیں جوہر آنے والی جمہوری پارلیمینٹ اور جمہوری حکومت کے لئے مسائل پیدا کریں گی۔ریاست کے اعلیٰ ترین اختیارات کے حوالے سے پاکستان میں ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ ہمارے بہت سے سیاسی اور مذہبی حلقے پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کے متعلق اس وقت زیادہ جذباتی ہوتے ہیں جب ہندوستان اور امریکہ کی بات آتی ہے ۔ ان ممالک کے اقدامات سے پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو بچانا بہت ضروری سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن جب طالبان اور دیگر انتہا پسندانہ تحریکیں پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم نہیں کرتیں اور پاکستانی انتظامیہ اور فوج سے لڑائی کرتی ہیں تو ان اقدامات کو پاکستان کے اعلیٰ اقتدار کی نفی تصور نہیں کیا جاتا ۔حقیقت میں یہ دونوں صورتیں پاکستان کی مقتدر حیثیت کو نقصان پہنچا رہی ہیں ۔ اعلیٰ ترین اختیارات کے استعمال کے لئے اعلیٰ عدلیہ اور وفاقی حکومت کے درمیان موجودہ کشمکش جمہوریت کے مستقبل اور سیاسی استحکام کے لئے خطرناک ہے ۔ سیاسی بحث کے لئے دونوں اطراف کے دلائل موجود ہیں لیکن جمہوری اور پارلیمانی نظام کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ منتخب اداروں کی موجودگی اور آئینی دائرہ میں رہتے ہوئے ان کی فوقیت کو تسلیم کئے بغیر جمہوریت پروان نہیں چڑھ سکتی۔