• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا وزیر اعظم چیف جسٹس پر اثر و رسوخ ڈالنے گئے تھے؟عارف نظامی

کراچی(ٹی وی رپورٹ) سینئر تجزیہ کار عارف نظامی کا کہناہےکہ ملک کا چیف ایگزیکٹیو آج چیف جسٹس کے پاس گیا، اب سوال اٹھتا ہے کیا وہ اپنا اثر و رسوخ ڈالنے گئے تھے؟چیف جسٹس کو چاہئے تھا کہ وہ اس ملاقات کی حامی نہیں بھرتے، قانون کی بہتری کیلئے اٹارنی جنرلز موجود ہیں ۔پروگرام ” آپس کی بات کی خبر“ میں عارف نظامی کے علاوہ مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید عباسی، پیپلز پارٹی کے رہنما نفیسہ شاہ،جنرل (ر) امجد شعیب، سینئر تجزیہ کار امتیاز عالم ،صدر پشاور ہائی کورٹ ارباب خان، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی بلوچستان بار راحب خان بلیدی نے بھی گفتگو کی۔ پروگرام میں وزیر اعظم اور چیف جسٹس کے درمیان اہم ملاقات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما جاوید عباسی نے کہا ہے کہ کافی عرصے سے یہ باتیں ہورہی تھیں کہ اداروں کے درمیان بات چیت ہونی چاہئے ، و زیرا عظم کی ملاقات سے متعلق مکمل آگاہ نہیں ، پنجاب ہاؤس میٹنگ میں آج وزیرا عظم موجود نہیں تھے ہوسکتا ہے کہ نواز شریف سے وزیرا عظم کی اس ملاقات کے حوالے سے پہلے بات ہوئی ہو، وزیر اعظم خود بھی ملاقات کیلئے جاسکتے ہیں ان پر کوئی پابند ی نہیں ، اگر سستا انصاف مل سکتا ہے اور عدالتی نظام میں بہتری آسکے تو اس کیلئے یہ بہترین قدم ہے، ان کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان جو میثاق جمہوریت ہوا تھا اس پر پی پی کو عملدرآمد کرنا چاہئے، اگر ن لیگ کی طرف سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو مل بیٹھ کر بات کرنی چاہئے، اس وقت ضرورت ہے کہ مل بیٹھ کر ملک کے مفاد کا کام کیا جائے، اب سننے میں آرہا ہے کوئی نئی جماعت بننے والی ہے، ن لیگ کو اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن بڑی جماعتوں کو اپنے موقف پر قائم رہنا چاہئے۔ سینئر تجزیہ کار عارف نظامی نے کہا کہ آج کی ملاقات انتہائی غیر معمولی ملاقات تھی، شہباز شریف نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ اداروں کے درمیان آپس میں ڈائیلاگ ہونے چاہئیں، اداروں کے درمیان ڈائیلاگ نہیں بلکہ اپنے دائرہ کار میں رہ کر انہیں کام کرنا چاہئے،ملک کا چیف ایگز یکٹیو آج چیف جسٹس کے پاس گیا اور اس موقع پر گیا جب چیف جسٹس بہت سے کیسز سن رہے ہیں ، چیف جسٹس وہ کیسز سن رہے ہیں جن کا تعلق ایگزیکٹیو معاملات سے ہے، اب سوال اٹھتا ہے کیا وہ اپنا اثر و رسوخ ڈالنے گئے تھے؟ان کا کہنا تھا کہ آج کل ایک کیس علی صدیقی کا بھی چل رہا ہے ، 2007میں جب جسٹس افتخارکو طلب کیا گیا تھاجب پرویز مشرف ، شوکت عزیز، ڈی جی آئی بی، ڈی جی آئی ایس آئی،شریف الدین پیرزادہ وہاں ایک کمرے میں بیٹھے تھے کہ وہاں ان سے استعفیٰ لینا تھا لیکن آج کے ماحول میں وزیر اعظم خود ان کے پاس چل کر گئے ہیں، چیف جسٹس کو چاہئے تھا کہ وہ اس ملاقات کی حامی نہیں بھرتے، قانون کی بہتری کیلئے اٹارنی جنرلز موجود ہیں ، ان کا کہنا تھا کہ مشرف دور میں ڈوگر کورٹ میں ہدایات ججز کو دی جاتی رہی ہیں، وزیر اعظم ہاؤس اور سپریم کورٹ رجسٹرار کو اس معاملے پر کوئی پریس ریلیز جاری کرنی چاہئے، عارف نظامی کا کہنا تھا کہ سیاستدان کی اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ معافی مانگ لے، شیخ رشید کے علاوہ کوئی جماعت الیکشن ملتوی کرانا نہیں چاہتی، پی پی نے سینیٹ میں تو لین دین کی لیکن عام انتخابات کیلئے پنجاب میں انہیں اپنی حالت پر غور کرنا چاہئے۔ پیپلزپارٹی کے رہنما نفیسہ شاہ نے کہا کہ اس وقت پس منظر کچھ اور ہے اس وقت عدلیہ میں نواز شریف اور ان کی فیملی کے علاوہ دیگر کیسز بھی زیر سماعت ہیں ، تو ایسے میں ملاقات سے ذہن میں خیالات اٹھتے ہیں، عوام کے ذہن میں اس وقت شکوک و شبہات پیدا ہورہے ہیں، وزیر اعظم کو چاہئے تھا کہ وہ پہلے لوگوں کو اعتماد میں لیتے۔ انہوں نے کہاکہ پی پی کا اپنا نظریہ ہے اور وہ اس پر قائم ہے ، نواز شریف اگر نا اہل ہوئے تو اس سے جمہور یت کو کیا نقصان پہنچا یا میثاق جمہوریت کیوں غلط ثابت ہوا؟ اس ملک میں جمہوریت ہے ن لیگ چاہتی تھی کہ سینیٹ انتخابات ملتوی ہوتے، ن لیگ چاہتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور ججز کے بعداب الیکشن کمیشن سے بھی جھگڑا کرے۔
تازہ ترین