سندھ کے ثقافتی رنگوں میں ایک رنگ تو موسیقی کا ہے اور دوسراہے رقص۔اور جب موسیقی اور رقص آپس میں گلے ملتے ہیں تو ایک سماں بندھ جاتا ہے۔اس موقع پر دو سدابہار گیت ’’ہو جمالو‘‘ اور ’’دمادم مست قلندر‘‘ ضرور گائے جاتے ہیں اور پھر ان گیتوں کی تال پر خوب دھمال ڈالی جاتی ہے ۔
دمادم مست قلندرکے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ یہ صوفیانہ گیت حضرت شہباز قلندرؒکی دھمال سے منسوب ہے لیکن بہت کم لوگوں کے علم میں ہے کہ خوشی کے موقع پر گائے جانے والے گیت’’ہو جمالو‘‘ کی تخلیق کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب انگریزوں نے سکھر کے قریب دریائے سندھ پر بغیرستونوں کے پل تعمیر کیا تو ریلوے کا کوئی ڈرائیور اس طویل پل سے ریل گاڑی گزارنے پر آمادہ نہیں تھا۔انگریز سرکار نے اعلان کیا جو شخص اس پل سے گاڑی گزارے گا ، اسے انعام دیا جائے گا۔
سندھی ادیب عبدالکریم سندیلو اپنی تصنیف ’’لوک ورثہ ، پاھہ کان جی پاڑھ‘‘ میں لکھتے ہیں سکھر جیل میں جمالوشیدی نام کا ایک قیدی سزائے موت کاٹ رہا تھا۔اس نے انگریز سرکار کا اعلان سنا تو اپنے آپ کو اس شرط پر ریل گاڑی چلانے کے لیے پیش کیاکہ اگر اس نے پل کراس کر لیا تو اس کی جان بخشی کر دی جائے گی۔
حکومت نے جمالو شیدی سے وعدہکیا کہ اگر وہ پل سے ٹرین گزار گیا تو اس کی باقی سزا ختم کردی جائے گی۔جمالو شیدی نے ٹرین گزار لی تو اسے حسبِ وعدہ جیل سے رہائی مل گئی۔جب وہ رہا کر اپنے گوٹھ پہنچا تو کہا جاتا ہے کہ اس کی بیوی نے خوشی کے عالم میں یہ گیت گانا شروع کر دیا۔
’’ہو منھنجو کھٹی آیو خیر ساں، ہو جمالو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہو جیکو روہڑی واری پل تاں، ہو جمالو، ۔ ۔ ۔ ۔ ہو جیکو سکھر واری پل تاں، ہو جمالو‘‘۔اس گیت کی تاریخ کے حوالے سے اگرچہ مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے، تاہم زیادہ تر مؤرخین ماننا ہے کہ ’’ ہوجمالو‘‘ اسی وقت گایا گیا جب جمالو شیدی سکھر پل سے ٹرین گزارنے اور جیل سے رہائی کے بعد اپنے گھر پہنچا تھا۔
اس کے بعد یہ گانا سندھ کی ثقافت کا حصہ بنتا چلا گیا اور پھر جب ذوالفقار علی بھٹو نےپاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی تووہ جہاں کہیں بھی جلسہ کرنے جاتے پیپلزپارٹی کے کارکن اس گانے کو کچھ اس گاتے ’’بھٹو آگیا میدان میں، ہو جمالو‘‘۔پیپلزپارٹی کے جلسوں میں آج بھی یہ گاناکارکنوں پر وجد طاری کر دیتا ہے۔