• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
 کاش میں بچہ ہوتا

آج میں آپ سے اپنی کوتاہیوں اور خامیوں کا ذکر کرناچاہتا ۔اس نوعیت کی خامیاں صرف بدبختوں میں ہوتی ہیں۔ یہ خامیاں اور کوتاہیاں ڈینگی وائرس نہیں ہوتیں۔ اس لیے سب کو نہیں لگ سکتیں۔ صرف مجھ جیسے بونگوں اور احمقوں کو لگتی ہیں۔ ان کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود مجھ میں ایک خوبی ہے جو زرداری کی طرح میری تمام تر خامیوں پر بھاری ہے۔ وہ خوبی ہے کہ میں اپنی خامیاں کسی سے نہیں چھپاتا۔ میں اپنی خامیوں کی پردہ داری نہیں کرتا ۔ میرے اس رویے سے میری ایک اور خوبی آپ کے سامنے آجاتی ہے۔ ایک شخص جب اپنی کوتاہیاں اور خامیاں کسی سے نہیں چھپاتا تب اس رویے سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا شخص کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتا ۔ میں بھی کسی کو دھوکہ نہیں دیتا ۔ مجھے ورثے میں ایک ڈنکا ملا ہے۔ میں ڈنکے کی چوٹ پر سب کو اپنی خامیوں کے بارے میں بتادیتا ہوں۔ کسی سے کچھ نہیں چھپاتا۔ اس سلسلے میں آپ کو میں ایک قصہ سنانا چاہتا ہوں ۔ حال ہی کی بات ہے۔ ملک کی دوچار نامور سیاسی پارٹیوں نے مجھے اپنے پاس بلایا۔ جو خواب انہوں نے اور ان کے آبائواجداد نے حقیقت میں کبھی نہیں دیکھے تھے، وہ خواب انہوں نے مجھے دکھائے ۔ کہنے لگے، ہمیں تجھ جیسے ایک شخص کی تلاش تھی۔ ہم تجھے اپنی پارٹی کی طرف سے سینیٹر لگوانا چاہتے ہیں۔ اپنی ایک خوبی کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے سیاسی پارٹیوں کی قیادت کواپنی خامیاں بتاتے ہوئے کہا ، ’’ جناب والا، میں احمق، بوڑم اور بیوقوف قسم کا آدمی ہوں۔ میرے بھیجے میں خاص طور پر سمجھ بوجھ کا خانہ خالی رہ گیا ہے‘‘۔
سب سیاسی پارٹیوں کی قیادت نے کہا ہمیں تجھ جیسے شخص کی تلاش تھی ۔تیرے سے بہتر سینیٹر کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے ۔ سچ پوچھو تو اس ملک کو چلانے کے لیے تیرے جیسے سینیٹروں کی ضرورت ہے۔ ان سے جان چھڑانے کے لیے میں نے تمام حربے استعمال کرتے ہوئے کہا: بھائی میں چور اچکا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ میں سرکار کا خزانہ خالی کرکے ملک کو کنگال کردوں۔
ہر پارٹی قیادت کے پاس ایک جیسا جواب تھا :
’’ اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ تم ہمارے candidateہو‘‘۔
میں نے کہا: میں اغوا برائے تاوان جیسے گھنائونے کام بھی کرتا ہوں۔ میرے پاس کرائے کے قاتلوں کی ٹیم ہے۔ میں سپاری لیتا ہوں اور متعلقہ شخص کوقتل کرواتا ہوں۔ مجرموں کو چھڑواتا ہوں، اور فریادی کو پھانسی لگوادیتا ہوں۔ ایسا ہوں میں۔
ایک ہی نوعیت کا جواب سننے کو ملا : ایسے ہی شخص کی ہمیں تلاش تھی ۔ تب میں نے ترپ کا پتہ کھیلا۔ میں نے کہا : میرا تعلق ایک ایسے فرقے سے ہے جس کا نام لینا، ہمارے معاشرے میں جرم ہے۔ اور میں نے ان کو اس فرقے کانام بتا دیا۔
’’ استغفراللہ ۔‘‘ وہ سب اٹھ کھڑے ہوئے۔ مجھے برا بھلا کہتے ہوئے چلے گئے ۔ اور اس طرح میں سینیٹر بننے سے بچ گیا ۔ یہ بور اور بے تکی تمہید میں نے اس لیے باندھی ہے تاکہ میں آپ کو بتاسکوں کہ مجھ میں بے شمار خامیاں ہیں، مگر مجھ میں ایک خوبی بھی ہے کہ میں کسی سے اپنی خامیاں نہیں چھپاتا۔ جب ڈنکے کی چوٹ پر اپنی خامیاں بتانے سے خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا تب میں بھاری رقم خرچ کرکے اپنی خامیاں عیاں کرنے کے لیے ٹیلی وژن چینلوں پر اشتہارات چلوادیتا ہوں تاکہ عام وخاص کو میری خامیوں کے بارے میں پتہ چل جائے ۔ پھر بھی میں خود، آپ کو اپنی خامیوں کے بارے میں بنفس نفیس آگاہ کرناچاہتا ہوں۔ اپنی کچھ خامیوں کو میں سرے سے نظر انداز کردیتا ہوں۔ یہ گر میں نے سرے محل میں ایک بھٹکتی ہوئی آتما سے سیکھا تھا ۔ لہٰذا ایسی خامیوں کو میں خاطر میں نہیں لاتا۔ پاکستان کے حکمرانوں کواگر نزلہ زکام ہوجائے تو وہ علاج معالج کے لیے بمعہ اپنی آل اولاد کے ساتھ یورپ اور امریکہ کیوں چلے جاتے ہیں؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی ۔ مگر میں اپنی اس خامی سے پریشان نہیں ہوتا ۔ اس مسئلے پر سوچنا میں برا سمجھاتا ہوں۔ اس نوعیت کے مسائل کو میں نظر انداز کردیتا ہوں۔شیر کی طرح حکمراں بھی خود مختار ہوتے ہیں۔ یہ شیر کی مرضی پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ انڈا دے یا بچہ دے ۔ اس پر کسی قسم کی روک ٹوک نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی حکمران حجامت بنوانے کے لیے امریکہ جاتے ہیں۔ شیو shaveکروانے چین جاتے ہیں ۔ مساج کے لیے تھائی لینڈ جاتے ہیں۔ مگر حکومت کرنے کے لیے ووٹ ہم بونگوں سے لیتے ہیں۔یہ میری خامی ہے کہ اس طرح کی باتیں میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ مگر میں پریشان نہیں ہوتا ۔ میں اپنی ایسی انیک خامیوں کو نظر انداز کردیتا ہوں۔ پنجابی محاورے کے مطابق مٹی پائو کردیتا ہوں۔
کچھ خامیاں مجھے کھلتی ہیں۔ مجھے پریشان کردیتی ہیں۔ ایسی باتیں جو بچے بچےکی سمجھ میں آسانی سے آتی ہیں، میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایسے مسائل ایسی باتیں مجھے پریشان کرتی ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بے نظیر بھٹو اور لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے کون لوگ ہیں۔ مگر میں نہیں جانتا ، وہ اس لئے کہ میں بچہ نہیں ہوں۔ کاش میں بچہ ہوتا تاکہ ایسی تمام باتیں میری سمجھ میں آجاتیں۔
کئی ہفتوں تک پاکستان کی پولیس اور جاسوسی ادارے رائو انوار کوتلاش کرتے رہے ۔ مگر بے سود۔ نقیب اللہ محسود کا قاتل کسی کو نہیں ملا۔ وہ خفیہ جگہ سے بذریعہ فون عدالت کو مسیج بھیجتا رہا ۔ مگر جاسوسی ادارے فون کے ذریعے اس کا ٹھکانہ معلوم نہ کرسکے عدالت نے اسے پیش ہونے کی پیشکش کی ۔ آخرکار رائوانور نے گرفتاری دی وہ بھی بیس پچیس گاڑیوں کے جلوس میں آکر۔ ان تمام باتوں میں میری قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔میں جاننا چاہتا ہوں کہ رائو انوار کہاں اور کس کے پاس چھپا ہوا تھا ۔ مگر میں نہیں جانتا۔ میں اس لیے نہیں جانتا کہ میں بچہ نہیں ہوں ۔ میں اس بات سے پریشان ہوں کہ میں بچہ کیوں نہیں ہوں اگر میں بچہ ہوتا تو مجھے پتہ چل جاتا کہ رائو انوار کہاں اور کس کے پاس چھپا ہوا تھا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین