• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں قبائل، بلوچستان اور پختونخوا میں پختون تحفظ موومنٹ کے بینر تلے نوجوان منظور پشتین کی قیادت میںبرپا تحریک کے اثرات جس تیزی سے پھیل رہے ہیں،اس نے افغانستان کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، یونان، جرمنی حتیٰ کہ جہاں بھر کے پختونوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے۔ اس تحریک میں زیادہ تروہ نوجوان آگے آگے ہیں ،نائن الیون کے وقت جو نو عمر تھے اور جوانی کی دہلیز پر پہنچتے پہنچتے جن کے تن و من پر طالبان کی وحشتوں اور آپریشنوں کی ہولناکیوں کے اثرات مرتب ہوچکے ہیں۔ ان کے بزرگ جس شدت سے دبائو کے الائو تلے لاگئے تھے، اس سے کہیں زیادہ شدت سے اب یہ نوجوان رد عمل پر آمادہ ہیں۔ حیران کن، مگر خوشگوار یہ امر ہے کہ یہ نوجوان عدم تشدد کی بات کرتے ہیں اور اب تک لاکھوں لوگوں کی حمایت کے باوصف ان کا مثالی طرز عمل ان کے اس عزم کا عکاس ہے۔
رائو انوار کی سزا، سیکورٹی چیک پوسٹوں پر بالخصوص خواتین کے ساتھ باوقار سلوک ، مسنگ پرسنز سمیت ان کے تمام 5مطالبات جائز ہیں لیکن ان کے جلسوں میں بعض نعروں یا فیس بک پر جس طرح کے پوسٹ نظر آتے ہیں ،ان سے بعض عناصر اسےپختونستان یا گریٹر(عظیم تر)افغانستان کی تحریک مراد لینے لگے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ منظور پشتین سمیت اس تحریک کے تمام رہنما اگرچہ تقاریر وانٹرویوز میں تکرارسے اس یقین دہانی کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی آئین کے تحت ہی اپنے مطالبات حل کرنا چاہتے ہیں، تاہم اُستاد لوگ ایک متنازع تاثر ضرور پیدا کئے ہوئے ہیں۔ ایسے مواقع جب جب بھی آئے باچا خان، خان شہید عبدالصمد اچکزئی اور خان عبدالولی خان بابا سامنے آتے اور قولِ سدیدسے قوم کی راہ بری فرماتے ۔ آج کا نوحہ مگر یہ ہے کہ پختون نیشنلزم کے داعی محترم اسفند یار ولی خان سے لے کر مکرم محمود خان اچکزئی تک اس صورت حال میں’ راہ نما‘ کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں ۔ اس طالب کی نہ تو کوئی حیثیت ہے نہ ہی مقام! اور نہ ہی کوئی غریب ملا کی سنتا ہے، پھر بھی یہ خواہش ہے کہ یہ تحریک خلائی و تخیلاتی کی بجائے فکری وشعوری خطوط اورزمینی حقائق پر استوار ہو،لہذا ماضی میں جن اصحاب سے یہ نعرے جڑے رکھے گئے ان ہی کی شہادتوں سے آج کے متحرک نوجوانوں کے سامنے ان کی حقیقت کی بساط بھر سعی کروں۔
پختونستان کا نام مختلف مواقع پر سامنے آتا رہا ہے۔خان عبدالولی خان صاحب نے نوائے وقت کیلئے پروفیسر وارث میر صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ جب برما پر جاپان کا قبضہ اور کلکتہ پر بمباری ہوئی تو برطانیہ نے سوچنا شروع کردیا کہ ہندوستان چھوڑنے کے بعد افغانستان کو روس کیخلاف استعمال کیا جاسکتا ہے، چنانچہ1943میں برطانیہ کے زیر قبضہ علاقےافغانستان کو واپس کرنے کیلئے افغانستان میں برطانیہ کے سفیر نے خود معاہدے کو ڈرافٹ کیا۔اس کے بعد پختونستان کی بحث شروع ہوگئی،بعدازاں تقسیم ہند کے فیصلے کے بعد برطانیہ کا منصوبہ بدل گیااور افغانستان سے کہا گیا کہ پاکستان سے بات کرلے ، یوں یہ مسئلہ پاکستان کے گلے پڑ گیا۔چٹان میں ولی خان صاحب کا تہلکہ خیز انٹرویو شائع ہوا ، جو جناب اختر کاشمیری نے کیا تھا، خان صاحب کا کہنا تھا کہ ’’ اُن کا دعویٰ ہے کہ اگر قیام پاکستان سے لیکر آج تک ولی خان کا ایک بیان، ایک تقریر یا ایک تحریر پختونستان کے حق میں مل جائے توولی خان کو گولی ماردی جائے… جب صوبہ سرحد ( پختونخوا)میں ریفرنڈم ہوا تو اس کے بعد کے حالات میں ہم پر فرد جرم عائد کی گئی کہ ہم پختونستان کے حامی ہیں، اس مسئلے کو ہوا مسلم لیگی لیڈروں نے دی اور اپنی تقریروں کے ذریعے عوام تک پہنچاتے رہے۔ جب پاکستان کے پختونوں پر ظلم کی انتہاکردی گئی تو دوسری طرف افغانستان نے 1952میںمسلم لیگی لیڈروں کی زبان پر چڑھا ہوالفظ پختونستان اُچک لیا جبکہ ہم1948سے جیلوں میں سڑ رہے تھے‘‘ 98صفحات پر مشتمل تحریک پختونستان نامی ایک کتاب جو پختون جرگہ ہند کے سیکریٹری غازی خان کابلی کی انتہائی معلوماتی تخلیق ہے، کے صفحہ 25کے مطابق 1857سے1870تک انگریزوں کیخلاف پختونستان کی تحریک چلی، اس سلسلے میں مُلا ھڈ صاحب کا نام نمایاں ہے۔ وزیرستان کے مجاہد مرزا علی خان عرف فقیر ایپی کو رئیس پختونستان قرار دیتے ہوئے مصنف رقم طراز ہیں کہ فقیر ایپی نے1936میں یہ تحریک شروع کی تھی، وزیرستان میں آزاد پختونستان کی حکومت قائم تھی، گورویک اسکا دارالحکومت تھا ،اسکی باوردی ملیشیا فورس تھی اس ریاست کا اپنا پرنٹنگ پریس اور اسلحہ بنانے کی فیکٹری بھی تھی ‘‘اس کتاب نے نیویارک ٹائمزکے حوالے سے لکھا ہے کہ فقیر ایپی افغانستان حکو مت کی مدد سےپختونستان کا مسلہ جمعیت الاقوام میں اُٹھانا چاہتے تھے۔(یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ راقم نے فقیر ایپی صاحب کی انگریزوں کیخلاف جدوجہد کے حوالے سے متعدد کتابوں میں پڑ ھا ہے لیکن ان میں پختونستان کا ذکر نہیں) تحقیقی کتاب تحریک پختونستان کے مطابق پختونستان اسمبلی کا سب سے پہلے قیام تیراہ میں آیا تھا، مولوی عبدالحکیم نے پرچم کشائی کی تھی۔ ریڈیو کابل سے غیرت گل آفریدی نے ایک اعلان نشر کیا تھا جس میں بیرون دنیا میںمقیم پختونوں سے عطیات کی اپیل کی تھی جس پر یورپ ، امریکہ، افریقہ،آسٹریلیا اور دوسرے ممالک سے عطیات آئے، عالمی سطح پر کیلیفورنیا میں ایک پختون سید امیر خان نےعطیات جمع کئے تھے۔یہاں یہ امر خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ خان عبدالقیوم خان نے بھی پختونستان کا مطالبہ کیاتھا،اُن کا کہنا تھا ون یونٹ توڑ کر صوبہ سرحد کا نام پختونستان رکھ دیا جائے(بحوالہ روزنامہ مشرق مارچ 1969)یہی نہیں بلکہ چارسدہ میں زیام نامی گائوں میں خطاب کرتے ہوئے کہا’’پاکستان اور افغانستان کے درمیان مصنوعی حد فاصل قائم ہے، اسے جلد ختم کیا جائے‘‘(روزنامہ مشرق 7جون1970) اس مسلم لیگی رہنما نے1944 میں ایک کتاب Gold and Guns on the Pathan Frontier لکھی تھی جس میں اُن کا کہنا تھا کہ انگریزوں نےپختون علاقوں کو افغانستان سے علیحدہ کرکے پھر قبائل اور سیٹلڈ ایریاز میں تقسیم کرکےسفاکیت کا مظاہرہ کیا ہے، اُنہوں نے اس حوالے سےVivisection لفظ استعمال کیا ،یعنی جس طرح زندہ جانور کی چیر پھاڑ کی جاتی ہے۔پھر یہ بھی دلچسپ امر ہےکہ جب خدائی خدمتگاروں کی حکومت غیرقانونی طور پر برطرف کرکے موصوف وزیراعلیٰ بنے تو اُنہوں نے سب پہلے اپنی اس کتاب پر پابندی لگادی ۔تاریخ نے یہ انوکھا مذاق اس لئے دیکھا کہ اس کتاب میں باچاخان کی مدح سرائی کی گئی تھی۔
اجمل خٹک بابا،غازی گلاب جمال صاحب کے موقف، بھٹوصاحب سے لیکر جنرل اسلم بیگ تک پاکستانی مقتدرہ کے افغانستان و پاکستان کے پختونوں کے ایک ہونے کے اصرار، جنرل پرویزمشرف کی صوبے کے نام کی تبدیلی کے حوالے سے آمادگی کے علاوہ حضرت باچا خان نے پختونستان ایشو کب اُٹھایا ،آج یہ کیسے حل ہوچکا،سمیت دیگر بنیادی امور پر اگرخداوند تعالیٰ نے موقع دیا تو اگلے کالم میں بات کرینگے۔نیزولی خان صاحب کے اس دعویٰ کو بھی زیر بحث لائیں گے جس میں اُنہوں نےدو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ افغانستان کے پاس نہ توپختونستان کا کوئی منصوبہ ہے، نہ ہی گریٹر افغانستان کیلئے کوئی لائحہ عمل، اور نہ ہی وہ ان دونوں کے حوالے سے سنجیدہ ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین