تیسری قسط
ساری فضا کہانیوں جیسی تھی، لیکن میں اس سے مانوس نہیں ہوپارہی تھی۔ اب ہم جس کمرے کے پاس تھے، اس میں کوئی روشن دان یا کھڑکی نہیں تھی، لیکن دروازے تین تھے، انھی میں سے ایک کی طرف منہ کرکے مجھے کوٹھی لانے والی نے زور سے کہا’’جون جاگ رہے ہو؟‘‘ ’’ہاں بالی، سوتا کب ہوں؟ مجھے تو یاد بھی نہیں کبھی سویا بھی تھا۔‘‘ کمرے کے ملگجے اندھیرے سے ایک غیرمانوس سی کھنکتی ہوئی آوازمیں، سر کو اس طرح حرکت دیتے ہوئے ایک سائے نے جواب دیا کہ بالوں کی ایک لَٹ خود بہ خود ماتھے پر آجائے۔
اب میں جون کے سامنے کھڑی تھی، جو مجھے کوٹھی لانے والی بالی کے چچا تھے، لیکن چچا، بھتیجی میں ایسا کوئی تکلّف نہیں تھا کہ رشتہ آڑے آتا۔ ’’یہ جون ہیں، شاعر ہیں، بہت مشہور شاعر‘‘ اس نے سامنے تخت پربیٹھے اس آدمی کی طرف اشارہ کرکے کہا، جو ٹانگ پر ٹانگ رکھے اس طرح بیٹھا تھا کہ گھیر دار پاجامے میں یہ پتا نہیں چل سکتا تھا کہ کون سی ٹانگ سیدھی ہے اور کون سی الٹی۔ اسی طرح بیٹھے بیٹھے جون بالی کو کوئی شعر سنانے لگے۔ شعر سناتے ہوئے انھوں نے دونوں انگلیاں بالوں میں پھنسا رکھی تھیں۔‘‘
جون ایلیا کی شہرت کے تین مدارج ہیں۔ پہلے درجے میں انھیں ایک صاحبِ علم شاعر، مفکّر اور ماہرِلسانیات کے طور پر کراچی کے ادبی حلقوں میں جانا جانے لگا۔ اُن کے بارے میں رفیقِ دیرینہ شکیل عادل زادہ بتاتے ہیں کہ جون کے اندر تجسّس کا مادّہ بہت زیادہ تھا۔ دوسروں کی محبت کی داستانیں اور گھریلو اسکینڈل خوب شوق سے سنتے اور مسالا لگا کر سناتے، علمِ نجوم، ہندسہ، دست شناسی اور ماورائی علوم سے شغف تھا، سائنسی فکر کے حامل اور روایت شکن تھے۔ دیسی کھانے کے شوقین اورمغربی لباس کے دل دادہ تھے۔
کئی زبانوں پر دست رس تھی، انگریزی میں رواں نہ ہونے پراُداس رہتے تھے ۔ بہ قول شکیل صاحب کے۔’’دوا خوری ایک مستقل مشغلہ اور ضرورت بھی۔ آیورویدک، یونانی، ایلوپیتھی، ہومیوپیتھی، نفسیاتی، روحانی، ایکوپنکچر،شمسی شعائیں، ہرطریقِ طب سے استفادہ۔ عام لوگوںکے مشوروں پر قسم قسم کے ٹوٹکے بھی آزمائے جاتے رہے۔ مہینوں تک کچی کلیجی نچوڑکرعرق پیتے رہے۔ چار مغز،سچّے موتی، زعفران، مشک اور سونے کے سفوف سے مرکب جوارشوں کے تجربے بھی کیے جاتے رہے۔
سرپر انڈوں، کبھی جسم پر سرسوں، زیتون اور روغنِ بادام کی مالش کی جارہی ہے۔ کسی حکیم ڈاکٹر نے نسخے پرہوالشافی، لکھ دیا یا نسخے پر پہلے ہی سے کندہ ہوا ہو تو مطب سے باہر نکلتے ہی بے زاری سے کہتے’’اسے تو خود پر اعتبار نہیں سارا ذمّہ تو اس نے خدا پر ڈال دیا ہے۔‘‘ معاشی مسائل اپنی جگہ، پر جون کے ہاں مختلف المزاج صاحبانِ سخن کے ہونے سے رونق لگی رہتی تھی۔ اُن کے برادرِ بزرگ، رئیس امروہوی صاحب کا ایک معمولی سا واقعہ ان کے مزاج اور حیوانات کی فطرت کی خبر دیتا ہے۔
ایک رات رئیس رات کا کھانا کھا رہے تھے۔ گھر میں رات کا کھانا صحن میں ہوتا تھا۔ روز رات کو کھانے کے وقت ایک کتّا آجایا کرتا تھا، جسے رئیس صاحب بہت محبت سے کھانا ڈال دیا کرتے تھے۔ ایک رات معمول کے مطابق وہ کتّا کھانے کے وقت آیا، تو رئیس صاحب کی اہلیہ کسی بات پر بَھری بیٹھی تھیں، انھوں نے کتّے کو ڈانٹ دیا۔ ’’کس قدر بے غیرت ہے۔ جانے کہاں سے یہ کھانے کے وقت آمرتا ہے۔‘‘ اُس کتّے نے اِس جانب دیکھا اور خاموشی سے باہر چلا گیا۔ یہ دیکھ کر رئیس صاحب سے رہا نہ گیا اور وہ افسردگی میں روٹی لیے کتّے کے پیچھے پیچھے باہر چلے آئے۔ باہر انھوں نے کتّے کو شفقت سے روٹی دی اور اس سے مخاطب ہوکر کہنے لگے۔’’تم میری بیوی کی بات کا برا مت مانو۔ اسے اندازہ نہیں کہ بھوک کیا بلا ہے۔‘‘ کتّے نے سر جھکا کر روٹی اٹھائی اور وہاں سے چلا گیا۔ اُس دن کے بعد وہ کتا دوبارہ ان کے گھر نہ آیا۔
چوں کہ انشا علمی نوعیت کا پرچہ تھا، سو اس کی اشاعت بہ مشکل ایک ہزار سے بڑھ پائی، لاکھ جتن کرلیے، ٹائٹل پرٹائٹل بدلے، حسین وجمیل عورتوں کی تصویر سجائیں، ساڑھے بارہ سو سے آگے اشاعت نہ بڑھ پائی۔ اس اشاعت میں معاشی استحکام ممکن نہ تھا۔ انھی دنوں ریڈرز ڈائجسٹ کی طرز پر اردو ڈائجسٹ نکالا گیا، جو بہت مقبول ہوا۔ اردو ڈائجسٹ کی مثال کو مدنظر رکھتے ہوئے انشا کو ’’انشا عالمی ڈائجسٹ‘‘ کے نام سے بدل دیا گیا۔ نتیجتاً اس کی اشاعت کچھ عرصے میں چار ہزار ہوگئی، البتہ پھر یہ اشاعت وہیں رک گئی۔ مقابلتاً اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ کی اشاعت بہ تدریج بڑھ رہی تھی۔
جون صاحب کے مزاج میں کاروباری چمک نہ تھی۔ شاعری ہی ان کا مسئلہ تھی۔رسالے کی اشاعت جم کے رہ گئی تھی اور اس جمود میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہوئی، تو وہ بددل ہوگئے۔ انشا عالمی ڈائجسٹ سے انشا کا لاحقہ ہٹا کر ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ بنادیاگیا۔ اُس دور میں ڈائجسٹوں کو (اور کچھ حد تک آج بھی) سنجیدہ ادب سے نچلے درجے میں رکھا جاتا تھا۔ یہ امر بھی جون کے لیے حوصلہ شکن تھا۔ اس سے ہٹ کر محبت کے معاملے۔اوروہ ایک لڑکی!نام تو اُس کا کچھ اور تھا۔
فرض کرلیجیے ماریا۔ داستان ہر چند فرضی نہیں ہے۔ سانولی، سلونی، دل کش خال وخد، کسی قدر سنجیدہ ومتین اورعمر کے سب سے قیامت دَور میں۔ وہ جو جو ش صاحب کا شعر ہے؎ مہتران ہو کہ رانی، گنگنائے گی ضرور..... یہ جوانی ہے جوانی ، رنگ لائے گی ضرور۔ صورت یہ تھی کہ جون صاحب کی کوٹھی سے ملحق ایک بڑی کوٹھی کی انیکسی میں اینگلو انڈین خاندان مقیم تھا۔ انیکسی کی دیوار کے ساتھ ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ کا دفتر بنایا گیا تھا۔ انیکسی کی کھڑکیاں دفتر کی طرف کھلتی تھیں اور اینگلو خاندان کے لوگ تاک جھانک کرتے رہتے تھے۔ جانے کیسے، کیوں کر اور کب جون اورماریا کی رسم و راہ ہوگئی ۔
جون عام نوجوانوں کی طرح بھڑکیلے، مَن چلے اشاروں کنایوں کے متحمّل تھے، نہ انھیں جذباتی قسم کی شوخیاں، شعبدہ بازیاں آتی تھیں، نہ خطوط کا تبادلہ ممکن تھا۔ ماریا کو اُردو صرف بولنا آتی تھی، لکھنا نہیں، لکھنا آتی ہوگی تو بہت واجبی، نہ دوسری لڑکیوں کی طرح جون کی شاعری سے متاثر ہوجانے کا کوئی امکان تھا۔ رئیس امروہوی اور سیّد محمد تقی، کلیم میں ملی وسیع و عریض کوٹھی میں آکے بس تو گئے تھے، مگر ان کے رہن سہن اور سازوسامان سے صاف ظاہر تھا کہ سفید پوشی کا بھرم قائم کیے ہوئے ہیں۔ سید محمد تقی نے پرانی فورڈ ٹائپ کار خریدلی تھی، جس کا پیٹرول وہ پھونک پھونک کے استعمال کرتے تھے۔ پڑوسی خاندان کی لڑکیاں کبھی کبھار جون کے گھر کی خواتین سے ملنے آیا کرتی تھیں۔
اِن میں ماریا بھی ہوتی تھی، مگر بَھرے پرُے گھر کے سامنے اظہارِ عشق کے امکانات بھی بہت کم تھے۔پھر یہ سب کچھ کیسے ہوگیا۔ کس وقت، جون نے ماریا کو اسیر کیا اور کس دن ماریا نے کھڑکی سے جون پر تیر برسائے، اندازہ نہ ہوسکا۔ ویسے جون دنیا کی ہر لڑکی سے عشق کے آرزو مند تھے اوربہ یک وقت کئی لڑکیوں سے بھی۔ ایسا نہیں تھا کہ انھیں موقعے نہ ملے ہوں مگر یا تو کچھ عرصے بعد وہ ہچکچانے لگتے تھے یا پے روی کے لیے وقت نہیں دے پاتے تھے یا اُن سے عشق کے پیچیدہ مطالبے، تقاضے نبھائے نہیں جاتے تھے۔جون کو کسی مثالیے کی تلاش تھی۔
کچھ عرصے بعد اُنھیں احساس ہوتا کہ یہ تعبیر تو ان کے خوابوں، خیالوں کی ضد ہے۔ کسی کو مثالیہ نہیں ملتا اور مِل جاتا ہے تو مثالیہ نہیں رہتا۔ انھوں نے کہا تھا؎ جون کروگے کب تلک اپنا مثالیہ تلاش..... اَب کئی ہجر ہوچکے، اب کئی سال ہوگئے۔ جون صاحب کے لیے کوئی پری بھی آسمان سے اُترتی تو وہ کچھ مدت بعد اس میں بھی عیب تلاش کرلیتے۔ کچھ اور نہیں تو جمالیاتی عیب۔رفتہ رفتہ ماریا بھی دور ہوتی گئی۔ جون صاحب اور اُس میں ایسی کوئی نسبت بھی نہیں تھی۔ شادی وغیرہ کے تو شاید عہد وپیمان ہی نہیں ہوئے تھے۔ یہ صرف دوستی تھی اوردوستی ہی رہا کرے، تو کیا اچھا ہے، لیکن یہ زن وشو کی دوستیاں عموماً بھٹک اور بہک جایا کرتی ہیں۔ماریا کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔
کنارہ کشی سے نہ کسی نے ماریا کو سرگشتہ و سرگرداں دیکھا، نہ جون پر جاں سوزی وجاں کنی کی کیفیت طاری ہوئی اور ہوا یہ کہ اچانک ماریا کے غریب خاندان کو انیکسی چھوڑنی پڑگئی۔بے شک اِس دوری کی جون صاحب کو توقع نہ تھی۔ ماریا کے اس طرح بچھڑ جانے کے بعد بہت دنوں تک وہ خاموش اور اداس دیکھے گئے۔ اداس اور شکایت کے بہانے تو خیر وہ ویسے بھی ڈھونڈتے رہتے تھے۔ خودمظلومی شعار تھی۔ کسی دوست نے مشورہ دیا تھا کہ ماریا کو تلاش کرنا چاہیے۔ وہ اِسی شہر کے کسی علاقے میں گئی ہوگی۔ جون نے مشورے پر عمل نہیں کیا اور آہ و زاری پر اکتفا کی۔
یہ 1965-66ء کی بات ہے۔ایک روز جون ایلیا کو ایک خط موصول ہوا۔ سادہ سے کاغذ پر ایک لڑکی کا خط،لکھا تھا کہ وہ جون کی شاعری کی دل دادہ ہے ، اُن کے بیش تر کلام کی حافظ۔ جون بہت سرشار ہوئے۔ اُس زمانے میں ان کے گہرے دوستوں میں اسد محمد خاں، محمدعلی صدیقی،راحت سعید، حسن عابد، قمر ہاشمی، انجم اعظمی، یوسف ضیغم، سحر انصاری اور انور شعور وغیرہ شامل تھے۔ سب نہیں، تو چند قریباً روز ہی گھر آتے تھے اور شکیل عادل زادہ تو گھر ہی کے ایک فرد تھے۔ جون باربار احباب کو خط دکھاتے۔ انھیں خط کی تحریر میں نہاں اصل مقصد و منشا دریافت کرنے بلکہ سراغ لگانے کی بڑی بے کلی تھی۔
لڑکی کا نام افشاں تھا۔ تحریر سے خوش ذوق، شایستہ وسنجیدہ اور تعلیم یافتہ نظر آتی تھی۔مسلم لیگ کوارٹرز کا پتا درج تھا، کوارٹر کا پتا درج نہیں تھا ۔اتنے بہت سے مسلم لیگ کوارٹرز میں افشاں کے گھر کی نشان دہی کیوں کر ہوپاتی۔ ابھی خط کے مندرجات پر تحقیق و تفتیش کے مراحل طے ہورہے تھے کہ دوسرا خط آگیا، دوسرا، تیسرا، چوتھا..... یک طرفہ خطوط کے اس سلسلے میں جون ایلیا کی شاعری ہی موضوع ہوتی۔ چند خطوط کے بعد کچھ باتیں واضح ہوگئی تھیں کہ افشاں کا تعلق متوسط گھرانے سے ہے۔ کسی کالج میں بی اے کے سالِ آخر میں ہے اور جون کی شاعری کی شیدائی ہے۔ ’’یونی ورسٹی کے حالیہ مشاعرے میں آپ کا لباس خوب جچ رہا تھا۔ یہی لباس پہنا کیجیے، شیروانی کوتو ترک کرہی دیجیے، صحت کا خیال رکھیے،مشاعروں میں کم جائیے۔‘‘ صرف بڑے مشاعروں میں شامل ہونے کے تبصروں، تاکیدوں کے علاوہ جون کی شخصیت کے بارے میں اشتیاق آمیز تجسّس سے یہ امر بھی واضح تھا کہ افشاں،ایک شاعرکی شیدائی ہی نہیں، ایک نوجوان کی بھی تمنّائی ہے۔
ہر اگلے خط میں یہ فریفتگی فزوں ہوجاتی تھی۔خطوط سے یہ شبہ بھی ہوتا تھا کہ افشاں نے جون کو قریب سے دیکھا ہے اوراُن کی بہت سی عادتوں ، خوبیوں اور خامیوں سے واقف ہے۔ جون تو پہلے ہی خط سے متزلزل ہوگئے تھے، ہر خط کے بعد ان کا اضطراب سوا ہوجاتا ۔ہرنیا خط دوستوں کے سامنے پیش کیا جاتا اور ایک ایک لفظ، ایک ایک سطر کے معانی و مطالب پر غور و خوض ہوتا۔ احباب آسرا دلاتے کہ دیکھنا،کسی روز اپنے پتے سے بھی آگاہ کردے گی۔ متوسّط خاندان کی لڑکیاں اپنے آپ سے بھی ڈرتی ہیں۔ دس اطراف کا انھیں خیال رکھنا ہوتا ہے۔ کوئی عجب نہیں کہ کسی دن اپنی سہیلی کے ساتھ وہ خود ملنے چلی آئے۔
جیسے جیسے خط آتے گئے، افشاں معمّا بنتی گئی۔ جون صاحب کی بے چینیاںبڑھتی گئیں اور صرف اُنھی کے لیے نہیں، ان کے سبھی رازداں دوستوں کے لیے بھی۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ جون پر والہ وشیدا، اتنی خوب صورت تحریر لکھنے اور جون کو اتنا جاننے والی لڑکی کون ہوسکتی ہے۔ سبھی کا اتفاق تھا کہ تحریر لڑکی ہی کی ہے۔ یہ اسلوب کسی مرد کا نہیں ہوسکتا۔ افشاں کے کسی خط میں کھل کر شیفتگی کا اظہار نہیں ہوتا تھا۔ سارا اظہار بالواسطہ تھا، جو اُس کی ذہنی بلوغت کا غمّاز تھا۔ جون کے آس پاس، نزدیک و دور ہر لڑکی کی ٹوہ لی گئی ۔کسی پر شک نہیں گزرا۔ دوست تسلیاں دینے کے سوا کیا کرسکتے تھے۔ اِس دوران جون صاحب سے کئی غزلیں، نظمیں سرزد ہوئیں ۔
یہ صدمہ مستزاد تھا کہ وہ یہ تازہ کلام افشاں کو نہیں بھیج سکتے تھے۔خط آتے رہے اور جون کے ہوش و حواس روزوشب پراگندہ کرتے رہے۔دوست بھی کچھ عاجز آنے لگے تھے کہ وہ جون کی دل جوئی کے لیے کیا تشریح وتفسیر کریں ۔ انھوں نے افشاں کا ایک خیالی پیکر بھی تراش لیا تھا۔ دوستوں میں سبھی شاعر و ادیب تھے، ایک سے ایک فسانے کو حقیقت، حقیقت کو فسانہ بنانے والا۔ انھی میں ایک شاعر دوست نے رنگ ونشاط کے عالم میں ایک شام جون کی بے تابیوں پر لطف کا اظہار کیا، تو شکیل عادل زادہ کو شبہ ہوا۔
بہت کریدنے ،بڑی منّتوں کے بعد شاعر دوست نے زبان کھولی کہ خطوط ایک لڑکی ہی لکھ رہی ہے مگر اُس کا نام افشاں نہیں ہے۔ کئی بار وہ جون صاحب سے مل چکی ہے۔ شکیل بھی اُسے اچھی طرح جانتے تھے ۔ صنف نازک کے لیے جون کی بے تحاشا دل چسپی، فطری قسم کی رغبت دیکھ کے شاعر دوست کو شوخی سوجھی اور انھوں نے بہن بنی ہوئی اس لڑکی کو آمادہ کیا کہ وہ یہ خطوط لکھے۔ خطوط کے متن میں شاعر دوست بھی اُس کی مدد کرتے تھے۔ اب کچھ صورت حال اس نوعیت کی تھی، جیسے قاتل خود مقتول کے سوگ واروں میں شامل ہواورجنازے کو کندھا دے ۔
وہ شاعر دوست جون صاحب کے ہیجان و انتشار کی بنیاد بھی تھے ،شاہد بھی۔دیگر دوستوں کے ساتھ وہ جوش و خروش سے مشورے دیتے، نکتہ طرازیاں کرتے اور نظارہ فرماتے رہے، اور کسی کو احساس نہ ہونے دیا کہ ساری تماشا بازی اُن کی ہے۔ شکیل عادل زادہ اِس انکشاف پر دنگ رہ گئے۔ شاعر دوست سے دست بستہ درخواست کی کہ اب تک جو ہوچکا ہے، ٹھیک ہے، مگر خدا کے لیے اب بس کیا جائے، یہ سلسلہ فوراً بند کردیا جائے۔ جون صاحب کی حالت کا انھیں اندازہ ہے، ایسے معاملات میں وہ کیسے جذباتی ہوجاتے ہیں، پاگل پَنے کی حد تک۔
صبح و شام اُن کی زبان پر اَب ایک ہی ذکر ہے۔ شکیل عادل زادہ نے لڑکی سے بھی بات کی۔ آخر دوست اس شرط اور وعدے وعہد کے بعد تیار ہوگئے کہ شکیل کسی اور سے اِس کا تذکرہ نہیں کریں گے۔ بہت سوچ بچار کے بعد ایک آخری خط ضرور لکھا گیا۔ لڑکی نے رقت و ندامت آمیز انداز میں اپنی مجبوریوں ،محرومیوں اور گھریلو قدامتوں کا ذکر کیا، لکھا کہ اُسے معاف کردیا جائے، شاید اب وہ کوئی خط نہ لکھ سکے۔ یعنی کچھ ایسے اشارے کیے گئے کہ وہ اپنے والدین کی مرضی و منشا کے آگے بے اختیار ہوگئی ہے اور کہیں دور جارہی ہے۔ متوسّط طبقے میں آدمی کو پیدا ہی نہیں ہونا چاہیے۔ اس نے منّت کی کہ جون شاعری کرتے رہیں، کیوں کہ وہ تو شاعری کے لیے ہی پیدا ہوئے ہیں۔ (جاری ہے)