• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گمشدہ شہری اور نواز شریف

’’جیہڑا نوٹی دیوے لک، اوہ بندہ لیندے چک‘‘
معزول وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے گزشتہ دن ملک میں خفیہ اداروں کے ہاتھوں شہریوں کی گمشدگیوں کو پاکستان کا سب سے اہم ترین مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس پر نہایت ہی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نواز شریف نے ملک میں انسانی حقوق کی ایسی بدترین خلاف ورزیوں پر آ واز اٹھا کر اس جرات کا مظاہرہ کیا ہے اس جرات کی حزب مخالف اور حزب اقتدارمیں کمی ہے۔
ملک میں ہر صوبے سے ہزاروں، سینکڑوں سیاسی کارکن و غیر سیاسی شہری غائب ہیں۔ کئی دنوں ، ہفتوں ، کئی ماہ اور کئی برسوں سےنہیںمعلوم، زندہ ہیں کہ مردہ، لیکن ان کوتلاش کرنے ، انکی واپسی کا مطالبہ کرنے میں خوف طاری ہے، ایک آدھ کو چھوڑ کر ان بے آواز گمشدہ پاکستانی شہریوں اور نوجوانوں پر کوئی بھی بولنے کو تیار نہیں۔ خوف اس بات کا ہے کہ کہیں مبادا وہ بھی نہ غائب کردئیے جائیں۔ میاں نواز شریف جیسے صف اوّل کے رہنما اور سابق وزیر اعظم نے اس انسانی مسئلے پر آواز اٹھا کر ایک خوف اور جمود کے بلٹ پروف شیشے پر ایک پتھر تو پھینکا ہے۔ اس سے قبل اس مسئلے پر تحفظ پشتون موومنٹ کے منظور پشتین بولے ہیں کہ ہزاروں پشتون بوڑھے، بچے اور جوان غائب ہیںجوگزشتہ دو دہائیوں سے دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر اور ریاستی دہشتگردی اور سیاسی اور کئی کیسوں میں ذاتی انتقام کی وجہ سے غائب ہیں۔ دو ہزار چار اور دو ہزار پانچ سے اب تک ہزاروں بلوچ قوم پرست اور سیاسی کارکن، پر امن ہوں کہ مبینہ متشدد سیاست پریقین رکھنے والے غائب کردئیے گئے ہیں۔ ان میں نوجوان بھی ہیں تو بوڑھے بھی۔ بلوچ قوم پرست الزام لگاتے ہیں کہ کئی خواتین، شیر خوار بچوں سمیت غائب ہیں ان میں سے کئی کو برس بیت چکے ہیں۔ کئی سندھی قوم پرست لاپتہ ہیں،تواتر سے لاپتہ ہو رہے ہیں۔
اگرچہ میاں صاحب کی پارٹی اور ان کے نامزد منتخب وزیر اعظم اور حکومت میںہیں لیکن پاکستان کے شہری ہیں کہ غائب ہیں۔ اسوقت بھی سینکڑوں میں غائب ہو رہے تھے جب خود نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ شہباز شریف پنجاب کے اب بھی وزیر اعلیٰ ہیں لیکن لوگ ہیں کہ گمشدہ۔ ملتان کے قریب گھوٹکی سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان انجینئراور اپنے غریب کنبے کا واحد کفیل غلام شبیر قمبرانی پانچ سال سے زائد عرصے سے غائب ہے۔
رضا خان اور شہزادی بیچاری کے تو کیسوں پر بات کرتے ہی لیڈر و اینکر کے پر جلنے لگتے ہیں۔
اس کی ایک مثال فقط یہ ہے کہ رائو انوار نے نقیب اللہ محسود کو دہشتگرد قرار دیکر ایک اور شخص کو پولیس مقابلہ دکھا کر قتل کیا اسکا تعلق بھی اچ شریف سے تھا۔ جنوبی اور سینٹر پنجاب سے سینکڑوں لوگ غائب ہیں۔ ہر طبقے کے، خیالات کے، عقیدے اور مذہب کے ۔ زیادہ تر ان لوگوں کا تعلق مذہبی جماعتوں سے ہے یا پھر کالعدم تنظیموں سے بھی۔ صرف یہی لوگ نہیں سابق عسکری لوگ بھی غائب ہیں ۔ گزشتہ سال دسمبر میں ایک ایسے شخص کو اٹھایا گیا تھا جسے ’ڈان لیکس‘کا مشتبہ بتایا گیا تھا۔
سیکورٹی مسائل پر ایک جرمن محقق نےاپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو مشرف آمریت میں اس لئے بھی برطرف کردیا گیا کہ کیونکہ وہ گمشدہ لوگوں کا مقدمہ سننے جار ہے تھے۔ آپ مانیں نہ مانیں لیکن سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو سابقہ گمشدگان اور ان کے لواحقین بشمول سندھی قوم پرست امریکی شہری ڈاکٹر صفدر سرکی دعائیں دیتے ہیں کہ ان ہی کی مرہون منت انہیں مہینوں، برسوں بعد سورج کی روشنی کھلی آنکھوں سے دیکھنی نصیب ہوئی تھی۔ ہائے اب تو عاصمہ بھی نہیں جو ایک موثر اور توانا آواز تھی۔ اب تو انسانی حقوق کی تنظیموں میں سرگرمی نو سے پانچ والی نوکری بن کر رہ گئی ہے۔
پھر بھی میاں صاحب دیر آید درست آید۔ لیکن بہت دیر کی مہرباں آتے آتے۔ جبکہ آپ جانتے تھے کہ گمشدگی کتنی تکلیف دہ ہوتی ہے لواحقین کیلئے۔ مشرف اور انکے ساتھیوں کے ہاتھوں تختہ الٹے جانے پر نواز شریف حکومت کے کئی وزیر جن میں مشاہد حسین ، خود رانا ثنا اللہ، صدیق فاروق شامل تھے غائب رہے تھے ۔ لیکن جب پھر اقتدار میں آئے تو گمشدگیوں کے خلاف موثر اقدامات اور سخت قانون سازی نہیںکی۔قوانین تو ہیں۔ سیدھا سیدھا اغوا کا جرم ہے لیکن اسکو غیر آئینی ریاستی ایک طرح کا تحفظ حاصل ہے حالانکہ بے رحم دو تہائی اکثریت بھی انہیں حاصل تھی۔ بلوچستان کے سابق وزرائے اعلیٰ تو طلب کئے جا سکتے ہیں لیکن پاکستانی بلوچ شہریوں کو غائب کرنے اور غائب کر کے مسخ شدہ لاشیں پھینکنے والےکو کون طلب کرسکتا ہے؟ لیکن اب بھی وقت ہے۔
پیپلزپارٹی نے تو اپنے سینیٹر فرحت اللہ بابر کو گھر بھیج دیا اور دوسرے میاں رضا ربانی کو چیئرمین سینیٹر منتخب نہ کروایا کہ ان دونوں پی پی پی سینیٹرز نےجاری گمشدگیوں کے خلاف ایوان بالا میں بھرپور آواز اٹھائی تھی۔ رضا ربانی نے تو گمشدگیوں کے خلاف قرارداد پر بحث کی منظوری دیتے ہوئے یہاں تک کہا تھا کہ طاقتور حلقوں کو ایوان میں طلب کرنے پر وہ خود بھی غائب ہو سکتے ہیں۔ انکا یہ ریمارک اتنا بھی ازراہ تفنن نہیں تھا۔ بلکہ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے تو سینیٹ میں گمشدگیوں سے متعلق کمیٹٰی سے احتجاجاََاستعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ کمیٹی شہریوں کو غائب کرنے والے خفیہ چوہدریوں کو طلب کرنے میں ناکام ہو گئی تھی۔ اب یہ تو اس دن کیپٹل ہل واشنگٹن میں بلاول بھٹو سے ملاقات کرنے والے کانگریس مین کا سینئر اسٹاف بتا رہا تھا کہ پی پی پی نے اپنے اس سینیٹر کو اب کنارے لگا دیاہے جو گمشدہ لوگوں پر آواز بلند کرتا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری نے بھی آواز تو اٹھائی لیکن تب جب ان سے کانگریس میں سوال کیا گیا۔ سندھ میں انکی حکومت ہے، لیکن لوگ ہیں کہ گمشدہ۔ پولیس گمشدگیوں میں غیر سول اداروں کی معاون بنی ہوئی ہے۔ آئی جی تو حکومت کا نہیں کہتے انہی کی منشا کا ہے جنہوں نے بندے غائب کئے ہوئے ہیں۔ ان غائب شدگان میں پبلشر انعام عباسی، پرائمری اسکول کا ہیڈ ماسٹر ہدایت اللہ لوہار اور کئی کتابوں کا سندھی زبان میں مترجم ننگر چنہ شامل ہیں۔ لیکن ان لوگوں کی بیٹیوں اور اہل خانہ کے علاوہ ان پر آواز اٹھائے بھی تو کون اٹھائے؟ میاں صاحب! آفتاب سعید کے بولوں کے مصداق کہ جہیڑا نوٹی دیوے لک اور بندہ لیندے چک"۔ پھر بھی کم از کم اس انسانی مسئلے کومل کر اٹھائیے کہ اس سے قبل آپ جناب سرکاراں بھی ایک ایک کر کے اٹھا لئے جائیں۔ جیسے زرداری کے تین وانٹھے اٹھائے گئے تھے۔ وہ تب بولے تھے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین