• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قندوز میں ایک مدرسے پر بمباری کے حادثے کو گزرے بارہ دن ہو چکے ہیں، مگر وہ بچے جو قرآن حفظ کر کے دستار بندی کی باوقار تقریب میں شریک تھے، اُن کے جسم ویڈیو میں تار تار ہوتے اور فضا میں اُڑتے دیکھے۔ وہ اندوہناک مناظر میرے پورے وجود میں تحلیل ہو گئے ہیں۔ آنکھوں سے آنسو تھمتے ہی نہیں، کلیجہ آج بھی پھٹ پھٹ جاتا ہے اور احساس دلاتا ہے کہ قیامت آن پہنچی ہے۔ یہ قیامت ہی کے آثار ہیں کہ 150پھول سے بچوں کی ہلاکت پر عالمی ضمیر کے اندر کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوا، انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں ابھی تک مہر بہ لب ہیں اور دنیا کے کسی گوشے سے اس وحشت ناک المیے کے خلاف احتجاج کی دلخراش آواز بلند نہیں ہو رہی۔ سوچتا ہوں کہ یہ اکیسویں صدی جسے انسانی عظمت اور وقار کے تحفظ کی عظیم صدی ہونا چاہیے تھا، وہ تو پتھر کی دنیا میں چلی گئی ہے جہاں سنگ دلی اور جنگل کے قانون کا راج تھا اور انسان کی حیثیت کیڑے مکوڑوں کے برابر ہوتی تھی۔ بھیڑیے انسانوں کو چیر پھاڑ کر کھا جاتے اور کسی کو آہ و بکا کی اجازت بھی نہیں تھی۔ میرا وہم تھا کہ انسانی تہذیب نے بلندیوں کی طرف صدیوں کا سفر طے کر لیا ہے اور ایک ایسا عالمی سماج وجود میں آتا جا رہا ہے جس میں انسان کی عزت و احترام پر کوئی حرف نہیں آئے گا، کوئی شخص دوسرے شخص کا حق نہیں چھین سکے گا۔ کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھائے گا اور کسی طاقت ور قبیلے کو دوسرے قبیلے کو تاراج کرنے کی جرأت نہیں ہو گی۔ مگر آہ یہ کیا ہے۔ دن کی روشنی میں ہیلی کاپٹر آئے، ایک مدرسے کے اوپر چکر لگاتے اور اہداف کو نشانہ بناتے رہے۔ اہداف بھی وہ بچے تھے جنہوں نے اللہ کا کلام نہایت شوق اور بڑی ریاضت سے حفظ کیا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے بڑی تعداد میں طلبہ اور علاقے کے عمائدین آئے تھے۔ اُن پر بھیڑیا صفت لوگ حملہ آور ہوئے اور انسانی عظمت کے سنگ ہائے میل پاش پاش کر گئے۔
قندوز افغانستان کے علاوہ پوری دنیا میں اپنی ایک شناخت قائم کر چکا ہے۔ یہ افغانستان اور تاجکستان کی سرحد پر واقع ہے۔ افغان طالبان نے نیٹو افواج کو شکست دے کر ستمبر 2015ء میں اس پر قبضہ کر لیا اور اگلے ہی ہفتے ایک دلگداز واقعہ رونما ہوا۔ امریکی ایئر فورس نے اِس علاقے میں ایک میڈیکل سنٹر پر بم برسائے، چالیس سے زائد ڈاکٹر لقمۂ اجل بن گئے اور درجنوں زخمی ہوئے۔ کچھ روز کسی قدر شور وغوغا ہوا، مگر امریکی حکام فصاحت کے دریا بہاتے اور افغانیوں کو یقین دلاتے رہے کہ خطا کاروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ یہ سب کچھ محض دکھاوا تھا، کیونکہ اس خونخوار واقعے کی کوئی تحقیقات ہوئی نہ کسی کو سزا دی گئی۔ دراصل امریکی اس معاملے میں نہایت سنگدل واقع ہوئے ہیں اور انہیں مسلمان ملکوں میں اس نوع کی کارروائیوں میں بڑی لذت محسوس ہوتی ہے۔ یہ 1995ء کے آخری دنوں کی بات ہے کہ اسامہ بن لادن سوڈان میں قیام پذیر تھے اور وہاں کی غربت زدہ آبادی کو صحت کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے دواؤں کے کارخانے لگا رہے تھے۔ امریکی حکومت نے سوڈان پر دباؤ ڈالا کہ اسامہ بن لادن کو بے دخل کر دیا جائے، لیکن سوڈانی حکومت نے سرتسلیم خم کرنے سے انکار کر دیا۔ انہی دنوں ہم چند صحافی اسامہ بن لادن سے ملنے خرطوم گئے۔ انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ وہ سوڈان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے سرگرمِ عمل ہیں اور اُمتِ مسلمہ کو امریکی غلامی سے نجات دلانے کے لیے اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ ہماری واپسی کے چند روز بعد امریکہ نے دوائیاں تیار کرنے والے کارخانے پر بمباری کی اور الزام یہ لگایا کہ یہاں اسلحہ بنایا جا رہا تھا۔ بعد ازاں یہ امریکی الزام غلط ثابت ہوا، مگر اس نے معافی مانگی نہ عظیم نقصان کا کفارہ ادا کیا۔ وہ اپنے آپ کو ’’مختار کل‘ ‘ سمجھ بیٹھا ہے جس کا خمیازہ مختلف صورتوں میں بھگت رہا ہے۔
قندوز میں 2؍اپریل کو جو خون آشام واقعات رونما ہوئے، اُن کے بارے میں افغان حکومت نے امریکی حکومت کی طرح، یہ موقف اختیار کیا کہ فضائی حملہ طالبان پر کیا تھا جو تخریبی سرگرمیوں کی تیاری کر رہے تھے۔ افغان طالبان نے کٹھ پتلی افغان حکومت کے دعوے کی تردید کی اور شہدا کے رشتے داروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ بمباری دشت آرچی کے ایک مدرسے پر اُس وقت کی گئی جب دستار بندی کی تقریب میں ایک ہزار سے زائد طلبہ، اساتذہ اور عمائدین شرکت کر رہے تھے۔ امریکہ نے اس واقعے سے اپنے آپ کو الگ تھلگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ افغانستان کا داخلی معاملہ ہے اور ہمارا اِس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس پورے واقعے کا سب سے دردناک پہلو یہ ہے کہ عالمی برادری بڑی حد تک خاموش ہے اور افغان میڈیا اس کی ہلاکت خیزی پر پردہ ڈال رہا ہے۔ یہ تقریب بڑے پیمانے پر مشتہر کی گئی تھی اور کابل کی انتظامیہ اس کی اہمیت سے پوری طرح آگاہ تھی۔ اس میں ایک اور تشویش کی بات یہ ہے کہ افغان طالبان دعویٰ کر رہے ہیں کہ بمباری میں انڈین ہیلی کاپٹر استعمال کیے گئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بمباری کا واقعہ حادثاتی نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک سوچی سمجھی سازش کام کر رہی ہے۔ ان پے در پے واقعات کا مقصد مسلم نوجوانوں کی بتدریج نسل کشی ہے۔ قندوز کے ہولناک واقعے سے صرف تین روز پہلے اسرائیل نے وحشیانہ طاقت کے ذریعے احتجاج کرنے والے سولہ فلسطینی شہید اور ایک ہزار سے زائد زخمی کر ڈالے۔ اِسی طرح بھارتی درندوں نے مقبوضہ کشمیر کے شوپیاں اور اسلام آباد اضلاع میں اکیس نوجوان کشمیری شہید اور ایک سو سے زائد زخمی کر دیے۔
افغان طالبان نے عہد کیا ہے کہ وہ بہنے والے خون کا انتقام لیں گے۔ اس کے نتیجے میں افغانستان کے اندر بدامنی کی دلدل مزید گہری ہو جائے گی اور افغان صدر اشرف غنی نے طالبان اور پاکستان کو امن مذاکرات کی جو پیشکش کی ہے، اسے عملی جامہ پہنانا بہت دشوار ہو جائے گا۔ سخت نامساعد حالات کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کابل گئے اور امن مذاکرات کی راہ ہموار کرنے میں خاصے کامیاب رہے، لیکن عالمی امن کے استحکام کا اوّلین تقاضا یہی ہے کہ عالمی برادری، امریکہ اور بھارت نے قندوز میں جو شیطانی کھیل کھیلا ہے، اسے ختم کرنے کے لیے عالمی برادری پوری طاقت سے آواز اُٹھائے اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے۔ یہ خطہ ایک خوفناک تصادم کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان عام انتخابات کے دہانے پر کھڑا ہے اور اس کے لیے پُرامن انتقالِ اقتدار غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اسے داخلی استحکام کی اشد ضرورت ہے ۔ عوام ماضی کے مقابلے میں باشعور اور بیدار ہیں ، اپنے اداروں کا بے حد احترام کرتے اور انہیں اپنے وطن کا پاسبان سمجھتے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ وہ نازک وقت میں جمہوریت کا پورا پورا احترام کریں گے اور سویلین بالادستی کو تقویت پہنچائیں گے کہ مہذب معاشروں کا یہی دستور ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998)

تازہ ترین