• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ای کامرس پر پاکستانی صارف کا اعتماد؟

ایک کہاوت ہے کہ آتا ہو تو ہاتھ سے نہ دیجیو۔۔ جاتا ہو تو اس کا غم نہ کیجیو! ہم پاکستانی اس پر بہت شدو مد سے عمل کرتے ہیں اسی لیے ہمارے ہاں ڈاٹ کام اتنی ترقی نہیں کرسکا جتنا یورپ و امریکا میں! گھر بیٹھے شاپنگ ہم مرد تو پھر بھی کرلیتے ہیں لیکن اپنی خواتین کا کیا کریں جن کی تفریح یا ذہن سکون کا باعث شاپنگ ہی ہوتی ہے جو وہ بنا تھکان اور پریشان ہوئے بغیر گھنٹوں کر سکتی ہیں۔

نئی صدی کے آغاز میں جب حکومتی سطح پر پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ای کامرس پر کام کا آغاز ہوا تو ای کامرس کے حوالہ سے بینکاری کے شعبہ میں واضح پیش رفت اور تبدیلیوں کی توقع کی گئی تھی۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق دسمبر سنہ 2009 تک ملک میں بینکوں کی آن لائن شاخوں کی تعداد6587 تھی۔ اس کے علاوہ دسمبر2009 تک ملک میں 6بینک صارفین کو موبائل فون کے ذریعہ رقم کی ادائیگی اور منتقلی کی سہولت فراہم کر رہے تھے اور موبائل بینکاری کے ذریعہ منتقل ہونے والی رقم کے حجم اور قدر بالترتیب 7543 ملین اور 381 ملین روپے ریکارڈ کی گئی تھی۔

’اکثر پاکستانی انٹرنیٹ پر خریداری کرنے سے اس لیے بھی گھبراتے ہیں کیونکہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ وہ اس طرح کسی دھوکے یا جعل سازی کا شکار نہ بن جائیں، اس کے علاوہ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اگر دکان میں جا کر وہ جس چیز کو دیکھ یا چھو نہیں سکتے ہے یا جس دکان کا پتا ان کے پاس نہیں ہے اس پر بھروسا کس طرح کیا جاسکتا ہے‘۔

دوسری طرف دیکھیں تو پاکستانی انٹرنیٹ صارفین میں سے بیشتر لوگ کم عمر یا نوجوان ہیں جو انٹرنیٹ اور نئی ٹیکنالوجی استعمال کرنے میں تو کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے مگر ان کے پاس کریڈٹ کارڈ موجود نہیں اور اس کے بغیر پاکستان میں انٹرنیٹ پر خریداری نہیں کی جا سکتی‘۔

ای کامرس کی پہلی سائٹ1989 میں متعارف کروائی گئی تو ای بزنس کا آغازاس کے فقط 3سال کے بعد1992 میں ہوگیا۔ دراصل ٹیکنا لوجی کی تاریخ ہے کہ اسے عام طور پر سب سے پہلے بزنس سیکٹر ہی اپنے استعمال میں لاتا ہے۔ چنانچہ نیٹ کی سہولت سے استفادے کا ایک بڑا حصہ کاروباری اور تاجر طبقے سے وابستہ ہے۔ ای بزنس اس کی ایک بڑی مثال ہے۔ بے شمار مصنوعات اب انٹرنیٹ پر بیچی اور خریدی جا رہی ہیں ۔

دراصل ای بزنس بنیادی طور پر ایک آسان، کم خرچ اور کم وقت والی تجارت ہے۔ اس میں دفاتر، عملے اور لوازمات کے جھنجھٹ سے جان چھوٹ جاتی ہے۔ اب توا س کے لیے ذاتی ویب سائٹ کی ضرورت بھی نہیں۔ بہت سی ویب سائٹس اپنے واسطے سے خریدوفروخت کا موقع دیتی ہیں۔ نیزاس کے ذریعے صرف اشیاء کی خریدوفروخت ہی نہیں کی جاتی، بلکہ خدمات بھی فراہم کی جاسکتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر فل ٹائم اور پارٹ ٹائم دونوں طرح سے آپ اپنی تجارت کو جاری رکھ سکتے ہیں۔

نیٹ کے ذریعے رقوم کی منتقلی کی سہولت بھی حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کی بڑی اسٹاک کمپنیوں میں شیئرز کی خریدوفروخت نیٹ پر بھی کی جارہی ہے۔ ایسے بے شمار بینک ہیںکہ آپ گھر بیٹھے انٹرنیٹ کھول کر شیئرزکی خریدوفروخت کرسکتے ہیں۔ ای بزنس نے ایک سہولت یہ بھی دی ہے کہ آپ کاروبار میں براہ راست ہوگئے ہیں۔ بروکر، اس کا کمیشن اور اعتماد وغیرہ کا کوئی مسئلہ اب ہمارے راستے میںحائل نہیں رہا۔ تجارت کی نیٹ پر منتقلی سے ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ آپ کو ہر قسم کے’’ہیومن ایررز‘‘ سے نجات نصیب ہوگئی۔ آپ مشین سے استفادہ کرتے ہوئے مکمل مطمئن ہوتے ہیں کہ اس کا ایک ہی چہرہ ہے۔ خیانت کا شبہ کم ہوتا چلا جاتاہے۔

یہ ساری سہولیات آپ کو حاصل ہیں، مگر درست طریقہ اختیار کیا جانا ناگزیر ہے۔ جس کے لیے خود سیکھنا یا کسی پروفیشنل کی خدمات حاصل کرنا ہوں گی ۔ فرض کریںآپ اچھے ڈیزائنر ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کے ڈیزائن کردہ کپڑے لوگ خریدیں تو آپ ان کی تصویر کھینچیں ، پرائس ٹیگ لگائیںاور فیس بک پیج بنا کر اس پر ڈال دیں۔

اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ آئن لائن کاروبار سے منسلک کمپیناں یا برینڈز غیر معیاری مصنوعات فروخت کرکے صارفین کو دھوکہ دہی سے منافع کماتی ہیں لیکن یہ محض ایک خیال ہی ہے۔ ہاں یہ درست ہے کہ کچھ کمپنیاں اوربرینڈز ایسے ہیں جو اپنی ویب سائیٹ پر بہت نفیس اور معیاری مصنوعات کی تشہیر کرکے نسبتاً غیر معیاری اورمعمولی نوعیت کی مصنوعات فروخت کرتے ہیں اور صارف جب ایک بار ایسے کسی پراڈکٹ کے لئے قیمت ادا کردیتا ہے تو اس کو تبدیل یا واپس نہیں کرسکتا۔

لیکن اس طرح کی غیر قانونی اور غیراخلاقی حرکت کو تمام کمپنیوں سے جوڑنا درست نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ معاملہ خاص طور پر ایسی کمپنیوں سے جوڑنا سرار ناانصافی ہوگی جو کسٹمر فرسٹ اور کسٹمر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کسی بھی ایسی صورت میں جب کسٹمر کو آئن لائن دیکھے اور اصل میں خریدے گئے پراڈکٹ میں فرق کی شکایت ہو تو اس کو باقاعدہ سنتی اور دور کرتی ہیں۔

پاکستان میں ای کامرس کے حجم کو بڑھانے کے لئے صارفین کا آئن لائن بیچنے والی کمپنیوں اور ان کی مصنوعات پر اعتماد کا ہونا اشد ضروری ہے۔ اس ضمن میں جہاں حکومت کو ایسی تمام کمپنیوں کو باقاعدہ رجسڑ اور مانیٹر کرنے کی ضرورت ہے وہیں آئن لائن کاروبار کرنے والے خواتین اور حضرات کو مل کر ایک ای کامرس سوسائٹی کی بنیاد رکھنے کی ضرورت بھی ہے۔ ایسی سوسائٹی نہ صرف ای کامرس سے جڑے حضرات کو قریب لاسکتی ہے بلکہ عوام میں ای کامرس کے حوالے سے آگاہی اور کاروبار کے مواقعوں کو بھی عام کرسکتی ہے۔

اب پھر آتے ہیں پاکستانی صارفین کی عدم اعتمادی کے مخمصے پر چونکہ یہ کاروبارہوا کی لہروں پر کیا جارہا ہے، لہذ ااس میں خطرات وخدشات کا وجود بھی یقینی ہے۔ چنانچہ ادا شدہ رقم متعلقہ شخص کو ہی ملتی ہے یا نہیں؟ کریڈٹ کارڈ چوری شدہ تو نہیں؟یہ اور اس کے ساتھ ’’ہیکرز‘‘ کی کارستانیاںبھی ڈراوا دیتی ہیں۔ اس نوع کے متعدد خدشات ہوسکتے ہیں۔ جہاں تک ادا شدہ رقم کی حفاظت کا مسئلہ ہے تو اس میں سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ آپ خود بیداری کا ثبوت دیں۔ 

اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ ویب سائٹ کے صولوں کو مکمل سمجھنے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ آپ کا ایڈریس غلط نہ ہو۔ اگر شپنگ اور بلنگ ایڈریس مختلف ہوا تو یہ آپ کا ذاتی رِسک ہے۔ بہت سی’’ آن لائن‘‘ جیسی کمپنیاں ایسی صورت میں Buyerکا ساتھ دیتی ہیںلیکن چوری شدہ کریڈٹ کارڈ کی ذمہ داری بھی متعلقہ کمپنیاں نہیں لیتیں۔

ای بزنس میں ایک بڑا خطرہ ’’ہیکرز‘‘ کی صورت میں موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ دو طرح کے ہیں: وائٹ ہیک ہیکرز اور بلیک ہیک ہیکرز۔ دونوں ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کی سرگرمیاں بھی جاری رہتی ہیں کیونکہ انٹرنیٹ سیکورٹی کو ہیک کرکے بہت بڑی رقم کمائی بلکہ ہتھیائی جاسکتی ہے۔ ماہرین یہ بھی بتاتے ہیں کہ آرڈر کو ہیک کرنا ممکن ضرور ہے، مگر بہت مشکل بھی ہے۔ نظام میں بہت سی ایسی پیچیدگیاں رکھی گئی ہیں جو ہیکرز کو مشکل میں ڈال دیتی ہیں۔

ان تمام تر صورتحال کے بعد ای کامرس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، اس کا فیصلہ جلد ہی ہوجائے گاکہ کیونکہ 2020 زیادہ دور نہیں ہے۔ 

تازہ ترین
تازہ ترین