• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوبہ جنوبی پنجاب: سرائیکی کب تک بیوقوف بنائے جاتے رہیں گے؟

صوبہ جنوبی پنجاب: سرائیکی کب تک بیوقوف بنائے جاتے رہیں گے؟

جب سے مسلم لیگ ن کے چند منحرف ارکان اسمبلی نے علیحدہ صوبہ محاذ بنایا ہے ہر طرف جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنانے کی باتیں ہونے لگی ہیں۔ اس مطالبے پر تمام سیاسی جماعتوں کے کان بھی کھڑے ہوگئے ہیں اور ہر ایک اپنی اپنی ڈفلی بجانے لگا ہے۔ اب یہ بات تو طے یہ کہ 2018ء کے انتخابات میں جنوبی پنجاب کے عوام کو انتخابی نعرہ دینے کیلئے کس سیاسی جماعت کے پاس علیحدہ صوبہ کے لولی پاپ کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ کل تک تحریک انصاف علیحدہ صوبہ کے حوالے سے گومگوں کا شکار تھی اور ڈھکے چھپے لفظوں میں علیحدہ صوبہ کی حمایت کر رہی تھی مگر جونہی یہ صوبہ محاذ کی تحریک سامنے آئی، تحریک انصاف نے بھی علیحدہ صوبہ کا علم اٹھا لیا اور مخدوم شاہ محمود قریشی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ علیحدہ صوبہ ہمارے انتخابی منشور میں شامل ہوگا۔ شاید اس کی وجہ یہ کہ جونہی یہ صوبہ محاذ تحریک معروض وجود میں آئی تو یہ کہا جانے لگا کہ اس کا مقصد تحریک انصاف کو نقصان پہنچانا ہے تاکہ وہ جنوبی پنجاب سے اکثریت حاصل نہ کرسکے۔ شاید اس لئے تحریک انصاف نے ایک طرف نئے صوبہ کی کھل کر حمایت کا اعلان کردیا اور دوسری طرف صوبہ محاذ کے رہنمائوں کے ساتھ مل کر مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ کہنے والے تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ بالآخر انتخابات سے پہلے صوبہ محاذ میں شامل ہونے والے مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی تحریک انصاف میں شامل ہو جائیں گے۔ یہ سیاسی منظر نامہ کیا رخ اختیار کرتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا مگر ایک سوال یہاں کے سنجیدہ حلقے بڑی شدومد سے پوچھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے عوام کو علیحدہ صوبہ کے نام پر آخر کب تک بے وقوف بنایا جاتا رہے گا؟ ہر انتخابات سے پہلے یہ شور شرابہ پوری طاقت کے ساتھ چھوڑا جاتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ جیسے نئی اسمبلیوں کے آتے ہی جنوبی پنجاب نیا صوبہ بن جائے گا مگر ہوتا کچھ بھی نہیں اور پھر اگلے پانچ سال گزر جاتے ہیں۔ کیا یہ حیرت ناک عمل نہیں کہ ابھی تک نہ تو نئے صوبہ کا نام فائنل ہوا ہے اور نہ ہی اس کی حدود کا تعین کیا گیا ہے۔ جب ان دو بنیادی باتوں پر ہی اتفاق نہیں تو یہ بیل کیسے منڈھے چڑھ سکتی ہے؟ اختلاف کا عالم یہ کہ وفاقی وزیر جاوید علی شاہ نے واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ جنوبی پنجاب میں علیحدہ انتظامی یونٹ قائم کیا جاسکتا ہے تاہم علیحدہ صوبہ بنانے کیلئے قومی کمیشن قائم کیا جائے گا جو اس کے سارے معاملات پر آئین کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نئے صوبہ کو سیاسی نعرہ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں اور اس کا مقصد جنوبی پنجاب کے عوام کو دھوکا دے کر ووٹ حاصل کرنا ہے۔ یہ دونوں سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب سے اتنی ہی مخلص ہیں تو انہیں کالا باغ ڈیم کی حمایت کرنی چاہئے کیونکہ کالا باغ ڈیم نہ بننے سے سب سے زیادہ خشک سالی کا خطرہ جنوبی پنجاب کو ہے جس کے دریا سوکھ رہے ہیں اور پانی کی سطح دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔ گویا یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مسلم لیگ ن نئے صوبہ کے حق میں نہیں ہے۔ البتہ وہ انتظامی حوالے سے جنوبی پنجاب میں سیکرٹریٹ قائم کرنے کی حامی ضرور ہے۔ دوسری طرف سرائیکی صوبہ کے وہ حامی ہیں کہ جنہوں نے صوبہ کا نام بھی طے کر رکھا ہے اور اس کی حدود کا تعین بھی کرچکی ہیں۔ انہوں نے جو سرائیکی صوبہ کا نقشہ بنایا ہے ا س میں میانوالی سے لے کر جھنگ تک قریباً 23 اضلاع کو شامل کیا گیاہے اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ا س سے کم پر وہ کسی صورت اکتفا نہیں کریں گے۔ گویا علیحدہ صوبہ کا معاملہ اس قدر پیچیدہ نوعیت کا ہے کہ اسے آسانی کے ساتھ عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا۔ البتہ سیاسی جماعتوں کے نعروں سے یہی لگتا ہے کہ جیسے وہ علیحدہ صوبہ کو گڈی گڈے کا کھیل سمجھتے ہیں جسے کسی وقت بھی آسانی سے کھیلا جاسکتا ہے۔ ادھر میاں نواز شریف کی تاحیات نااہلی کے فیصلہ اور جہانگیر ترین کی مستقل نااہلی نے سیاسی طور پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے کارکنوں نے اس فیصلہ کے خلاف ہلکا پھلکا احتجاج کیا ۔ جہانگیر ترین بھی تاحیات نااہل ہوئے ہیں لیکن وہ اپنے حامیوں کو یہ کہہ کر تسلی دے رہے ہیں کہ ان کی نظرثاتی اپیل سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے چونکہ ان کے خلاف 62 ایف ون کے اطلاق کی مضبوط وجوہات موجود نہیں ہیں۔ اس لئے انہیں ریلیف ملے گا اور وہ تاحیات نااہلی سے بچ جائیں گے۔ شاید ایسا ہو جائے مگر 2018ء کے انتخابات میں ان کی شرکت نظر نہیں آتی۔ اب مسلم لیگی کارکنوں اور رہنمائوںکی نظریں شہباز شریف پر لگی ہوئی ہیں جنہوں نے پارٹی کیلئے صدر کے طور پر عملاً کام شروع کردیا ہے۔ ان کا حالیہ دورہ کراچی اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اب مسلم لیگ ن کو یکجا رکھنے کیلئے میدان عمل میں آچکے ہیں جس سے جنوبی پنجاب کے چند ارکان اسمبلی نے مسلم لیگ ن کو خیرباد کہا ہے۔ اب شہباز شریف کی مکمل توجہ جنوبی پنجاب پر نظر آتی ہے۔ انہوں نے لاہور میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اراکین ا سمبلی سے ملاقاتیں بھی کی ہیں اور چند روز پہلے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے جلال پور پیروالا میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے بھی یہ دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ ن نے جتنے ترقیاتی کام جنوبی پنجاب میں کرائے ہیں اس کی 70 سالہ تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو لوگ قریباً پانچ سال تک مسلم لیگ ن کے ساتھ رہے اور انہیں لاتعداد ترقیاتی فنڈز بھی دیئے گئے ، ان کا آخری دنوں میں مسلم لیگ ن سے علیحدہ ہونا افسوسناک امر ہے جسے یقینا جنوبی پنجاب کے عوام پسند نہیں کریں گے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن کو یہ خدشہ لاحق ہوچکا ہے کہ کہیں بلوچستان کی طرح جنوبی پنجاب میں بھی ایسے گروپوں کی سرپرست نہ کی جائے جو آزاد حیثیت سے انتخابات لڑ کر جیتنے والی جماعت کے ساتھ الحاق کریں اور مسلم لیگ ن کو نقصان پہنچائیں۔ دوسری طرف یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ الیکشن کمیشن نے ترقیاتی فنڈز ، تبادلوں اور بھرتیوں پر پابندی عائد کردی ہے۔ گویا اب حکومت کے پاس ایسا کوئی حربہ نہیں ہے کہ جسے آزما کر وہ منحرف ہونے کے خواہشمند اراکین اسمبلی کو روک سکیں۔

تازہ ترین