• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بڑا آدمی بننے کےگُر

سرور جمال

ایک پرانا لطیفہ ہے، ایک بار کسی نے ایک بچے سے پوچھا،’’تمہارے شہر میں کون کون سے بڑے آدمی پیداہوئے ہیں؟‘‘بچے نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔

‘‘ہمارے یہاں کوئی شخص بڑا نہیں پیدا ہوتا، سب بچے پیدا ہوتے ہیں۔’’

کہنے کو تو یہ ایک لطیفہ ہے اور اسے سن کر سب ہنس بھی دیتے ہیں، لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ کوئی آدمی ‘‘بڑا’’نہیں پیدا ہوتا، کچھ لوگ تو خود بڑا بننے کی کوشش کرکے بڑے بن جاتے ہیں، کچھ کو کچھ لوگ مل کر بڑا بنا دیتے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑا بننا کوئی خاص مشکل نہیں ۔ ہم اور آپ بھی کوشش کرکے بڑے بن سکتے ہیں۔ اگر واقعی آپ بڑا آدمی بننا چاہتے ہیں تو ذیل میں دیئے گئے چند اصولوں کو کام میں لائیے، اور پھر دیکھیےگا کہ، جب آپ کا شمار بھی بڑے لوگوں میں ہونے لگے گا۔

بڑا آدمی بننے کے لئے سب سے پہلے یہ یاد رکھیئے کہ آپ کہیں بھی وقت پر نہ پہنچیں، کیوں کہ اس کی سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ وہ کہیں بھی وقت پر نہیں پہنچتا، چاہے اسے تقریر کرنی ہو، افتتاح کرنا ہو، صدارت کرنی ہو، اپنی کہانی یا کلام سنانا ہو، انتظار کرانا ان کا پہلا اصول ہے، بے شمار لوگوں کو اپنا چشم براہ دیکھ کر آپ بھی اگر جذبۂ تفاخر حاصل کرنا چاہتے ہیں تو وقت پر پہنچنے والی گھٹیا حرکت ہر گز نہ کیجئے۔

٭کسی بھی بڑے آدمی کی چال ڈھال، رہن سہن، اٹھنے بیٹھنے کی عادتوں کو اپنا لینا بھی کبھی کبھی بڑا کام دیتا ہے،اگر بڑا ئی میں اس شخص تک نہ پہنچ سکے تو غم نہیں، اس کے عادات و اطوار اپنا لیں تو سمجھ لیجئے کہ آپ آدھے بڑے آدمی تو ہو ہی گئے۔ ہزاروں نوجوان ہیرو بننے کی آرزو میں ہیروؤں جیسی چال ڈھال بنالیتے ہیں، ہم نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ سگار محض اس لئے پیتے ہیں کہ چہرے پر چرچل جیسی مدبرانہ شان پیدا ہوسکے، شیروانی ا س لئے پہنتے ہیں کہ جواہر لعل پہنتے تھے۔

٭آپ اپنے گھروں کی بالکل پروا نہ کیجئے۔ چھوٹے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں کی زیادہ فکر کرتے ہیں اور اپنے چھوٹے سے گھر اور خاندان کو اچھے سے اچھا بنانے کی کوشش کرتے ہیں، اگر اس میں کامیاب ہوگئے، تو سکھ اور چین کی بنسی بجاتے ہیں، لیکن بڑا آدمی کبھی ان چھوٹی باتوں میں نہیں پڑتا،اسے سدا ایک بڑی الجھن چاہیے تو بس آپ بھی آج ہی سے گھر سے بے پروا ہو جایئے۔ گھر میں کیا ہورہا ہے، بچہ اگر امتحان میںفیل ہوتا ہے تو ہوا کرے، بیوی اگر بیمار پڑتی ہے تو پڑا کرے، ویسے بھی یہ ایک اچھی نشانی ہے ،کیونکہ بڑے آدمی کی بیویاں زیادہ تر بیمار ہی رہا کرتی ہیں۔ 

آپ کا کام صرف بڑی باتوں پر دھیان دینا ہے۔ گھر بار کی فکر تو دور کی بات، آپ کو تو اپنے آپ کو بھی بھول جانا پڑے گا، کھانے پینے کی کوئی فکر نہ کیجئے، رات کو دیر سے گھر جائیں، ہر کھانا مقررہ وقت سے تین چار گھنٹے بعد کھائیے، یعنی صبح کا ناشتہ دوپہر میں، دوپہر کا کھانا رات کو اور رات کا کھانا صبح، اگر آپ کہیں کھانے یا ٹی پارٹی میں مدعو ہیں، تو اشتہار اور بھوک کے باوجود کھانے کی چیزوں کو محض چکھتے رہیے،تاکہ کھانے والوں اور کھلانے والوں دونوں کی توجہ کا مرکز بنیں۔ یاد رکھئیے، بے تکلف کھانے پینے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ 

اس طرح ہر ایک کی کوشش یہی ہوگی کہ باری باری آپ کی پلیٹ میں کھانے کی کوئی نہ کوئی چیز ڈالتا چلا جائے اور وہ چیزیں پہاڑ کی شکل اختیار کرتی چلی جائیں گی۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ دھیرے دھیرے ان میں سے بہت سی چیزیں کھالینے کے بعد بھی پہاڑ اپنی جگہ اور آپ کی بات اپنی جگہ پر قائم رہے گی، کہ آپ کچھ نہیں کھارہے۔

٭عام طور سے بڑا آدمی بہت کم ہنستا ہے اور بہت بڑا آدمی تو بالکل نہیں ہنستا۔ ہمارا دانشور سنجیدگی کو زیادہ پسند کرتا ہے، اس لئے آپ بھی اپنے چہرے پر سنجیدگی ہی کا نہیں، بلکہ رنجیدگی کا ایک خول چڑھا لیجئے۔ قہقہہ لگا کر ہنسنا تو آپ کے لئے سم قاتل ہے، اگر چھوٹے لوگ خوب زور زور سے ہنس رہے ہوں تو ان کے قہقہوں پر مت جائیے، ان کا آخر کام ہی کیا ہے، بے تکی اور بیوقوفی کی باتوں پر دل کھول کر ہنسنا، اور خوش ہونا۔ آپ تو بس اپنی عادت ایسی بنالیں کہ جب آپ کسی بات پر مسکرائیں، تو وہ سند بن جائے اس بات کی کہ، واقعی یہ بات تھی قہقہہ آور، کہ فلاں بڑا آدمی بھی اس بات پر مسکرا دیا تھا۔

٭کسی بھی چیز پر جھٹ سے اپنی پسند یا ناپسندیدگی کا اظہار مت کیجئے۔ بڑائی اسی میں ہے کہ زیادہ چیزوں کو ناپسند کیجئے۔ا س بات کا پورا دھیان رکھیے کہ جب کوئی شخص آپ سے ملنے آئے، تو پہلی ہی بار میں نہ ملیں۔ دوچار بار اسے دوڑا لینا ضروری ہوگا۔ ہو سکے تو اپائنٹمنٹ کے بعد بھی دوچار چکر لگوائیے۔ اچانک اور پہلی ہی بار مل لینا آپ کی شان کے خلاف ہوگا، کسی نہ کسی بہانے انہیں دوڑاتے رہیے۔

تو یہ ہیں وہ چند ‘‘زریں اصول’’ جن پر چل کر آپ ‘‘بڑا آدمی’’بن سکتے ہیں، بس کوشش و ہمت شرط ہے۔ 

تازہ ترین