• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فیچر: ہم، کہ مرکز بھی بے نام رہے

فطرت نے ہر انسان کو ایک شناخت عطا کی ہے، جو ہر دوسرے انسان سے مختلف ہوتی ہے۔ یہ شناخت مہد سے لحد تک اس کے ساتھ ہوتی ہے، خواہ وہ مغرب میں ر ہے، مشرق میں، شمال میں یا جنوب میں۔ ماہرینِ سما جیا ت، فلسفہ، طب اور سائنس ذاتی شناخت کے بارے میں بہت زیادہ تحقیق اور گفتگو کرچکے ہیں، لیکن آج بھی اس موضوع میں ان ماہرین کی دل چسپی کم نہیں ہوئی ہے۔ 

فلسفیوں کے نزدیک ہر شئے اپنے آپ سے جو تعلق رکھتی ہے، اسے شناخت کہا جاتا ہے۔ اسی شناخت نے فلسفیوں کے لیے کئی فلسفیانہ مسائل بھی کھڑے کیے ہیں، مثلاً یہ کہ ا گر الف اور ب ایک دوسرے کی تمام خصوصیات میں ا شتراک کرتے ہیں تو کیا وہ دونوں ایک ہیں اور بالکل ایک جیسے ہیں؟ اسی طرح انسان میں وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیاں اور اس کی شناخت کا تعلق ہے۔ دراصل یہ ہی سوال آج سماج میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے، کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ انسان اور سماج میں بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں اور الیکٹرانی دور میں یہ مسئلہ مز ید شدت اختیار کرگیا ہے۔ کیوں کہ ہم انٹر نیٹ، کیبل ٹی وی، موبائل فون، سیٹلائٹ فون، وائی فائی اور بلیو ٹوتھ کے عہد میں سانس لے رہے ہیں، جس میں کِی بو ر ڈ ز ، ما ئو س ،سیل فون اور ریموٹ کنٹرول کی صورت میں جیسے پوری دنیا انسان کے ہاتھوں میں آچکی ہے۔ محض سائن اِن کر نے، ایس ایم ایس، ای میل،وٹس ایپ وغیرہ کے ذر یعے ایک دوسرے کے خیالات اور حا لا ت سے لمحوں میں مطلع ہوجاتے ہیں۔

اطلاعاتی اور مو ا صلا تی ٹیکنالوجی نے دو تین دہائیوں میں جس تیزی سے ترقی کی ہے، وہ حیران کن ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہماری ز ند گی میں دیگر سائنسی ایجادات نے بھی بڑی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ آج ہم شنا ختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، ڈیبٹ کارڈ، دفتری کارڈ، ای میل ایڈریس، فیس بک اور ٹوئٹر کی آئی ڈی اور سیل فون نمبر رکھتے ہیں۔ یہ سب جدید دور کے انسان کی شناخت کے نئے حوالے ہیں۔

نئی شناختیں اور شناخت کا بحران

ہم ان نئی شناختوں کے اتنے عادی (بلکہ بعض افراد کے بہ قول ان کے قیدی) ہوگئے ہیںکہ اگر ان میں سے کوئی شناخت گم ہوجائے یا چوری کرلی جائے توسخت مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ہمارے سیل فون کی سِم گم یا چوری ہوجائے، ای میل، فیس بک یا ٹوئٹر اکائونٹ ہیک ہوجائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم اپنی شناخت کھو بیٹھے ہیں۔ جدید دور کے انسان کو یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں کوئی ہماری سیل فون سِم، ای میل یا سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے اکائونٹ کے ذریعے ہماری شناخت کو منفی مقا صد کے لیے استعمال نہ کرلے۔ ایسے میں آج دنیا بھر میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ جدید دور کا انسان کئی شناختوں میں تقسیم ہوگیا ہے اور جدید ذرایع استعمال کرکے ہم نئی شناخت بنا رہے ہیں یا اصل شناخت کھورہے ہیں؟

آج ہمارا یہ حال ہے کہ اگر کمپیوٹر خراب ہوجائے اور لیپ ٹاپ یا سیل فون کی بیٹری ڈائون ہوجائے تو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب کسی کی ای میل یا سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے پیغامات، فون کال یا ایس ایم ایس سے محروم رہ جائیں اور نہ جانے کون سی اہم خبر یا پیغام سے بروقت آگاہ نہ ہوسکیں۔ 

لہٰذا آج دنیا بھر میں اس سوال پر بھی گرما گرم بحثیں ہوتی ہیں کہ اس طرح ہماری نئی شناختیں ہمیں سہولت فراہم کر رہی ہیں یا ہر وقت نئے قسم کے تنائو میں مبتلا رکھتی ہیں؟ اگرچہ اس ضمن میں ترقی پزیر دنیا کی مشکلات ابھی ترقی یافتہ دنیا کے مقابلے میں کم ہیں، لیکن یہاں بھی وقت گزرنے کے ساتھ ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ 

ترقی یافتہ دنیا میں فنگر پرنٹ، آنکھوں کی پتلی کی شناخت، بایو میٹرک طریقۂ شناخت، مقناطیسی شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، چپ والے پاسپورٹ، دفتری کارڈ، ڈیبٹ کارڈ اور نہ جانے کیا کیا رائج ہوچکا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی شئے گم یا چوری ہو جانے کی صورت میں ترقی یافتہ دنیا کے باسی بدحواس ہوجاتے ہیں، کیوں کہ سائنس کی ترقی نے جرائم پیشہ افراد کو بھی بہت سی سہولتیں اور تیکنیک فراہم کردی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ ا لیکٹرانی دور کے بھی اپنے تقاضے ہیں۔ اس دورمیںڈ یجیٹل شناخت بنانا اور اس شناخت کو استعمال کرنا دوعلیحدہ باتیں ہیں۔ آج دنیا بھر میں شناخت کے یہ نئے حوالے رائج ہیں۔ مگر ساتھ ہی شناخت کے بحران کا مسئلہ بھی زیرِ بحث ہے۔تاہم پاکستان میں اکثر عوام کی جانب سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ اس ملک میں غریب اور کم زور شخص کی کوئی شناخت نہیں ہے اور امیر اورطاقت ور افراد جب چاہتے ہیں انہیں کیڑے مکوڑوں کی طرح روند دیتے ہیں۔لیکن یہ تو زندہ افراد کا نوحہ ہے۔یہاں تو لاکھوں کی تعداد میں ا یسے مُردے بھی ہیں جو بغیر کسی نام اور نشان کے سُپردِخا ک کردیے گئےاورمتعلقہ ذمے داروں میں سے کسی کے کا ن پر جوں تک نہیں رینگی۔

بنیادی سہولت کا فقدان

یہ 9مارچ 2018کی بات ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان میں ڈیرہ غازی خان سےگُم ہوجانے والی لڑ کی ،عا صمہ مجید سے متعلق کیس کی سماعت جاری تھی۔اس مو قعے پر فاضل عدالت نے غیر شناخت شدہ اور لاوارث لاشوں کے لیے ’’ مرکزی ڈیٹا بیس سینٹر‘‘ بنانے کا حکم دیا اور متعلقہ حکّام کو ہدایت کی کہ غیر شناخت شدہ لاشوں کی ڈی این اے رپورٹ اورتصاویرایک مرکز میں جمع کی جائیں ا و ر اس مرکز کی معلومات تک تمام صوبوں کی رسائی ہو۔ د و ر ا نِ سماعت جسٹس اعجاز افضل خان نے ریمارکس دیے کہ غیر شناخت شدہ لاشوں کا ڈیٹا بیس نہ ہونے کی وجہ سے یہ پتا نہیں چل پاتا کہ لاش کس کی ہے اوریوں جرم بھی چھپ جاتا ہے۔ 

صرف وفاق اورصوبہ پنجاب کے پاس ڈی این اے ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے۔لاشوں کا ڈیٹا بیس ہونے سے تمام صوبوں کو تحقیقات میں مدد ملے گی ۔ اس موقعے پر جسٹس مقبول باقرکا کہنا تھا کہ غیر شناخت شدہ اور لاوارث لاشوں کی معلومات کا تمام صوبوں سے تبادلہ ہونا چاہیے ۔ کیس کی سماعت جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی توڈی آئی جی،ڈیرہ غا زی خان، سہیل خان نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ تین سال میں صرف ڈی جی خان میں چودہ سوسے ز ا ید لڑکیوں کے لاپتا ہونے کے واقعات ہوئے،پنجاب کے آٹھ اضلاع سے بارہ کم سِن لڑکیوں کی لاشیں ملی ہیں ،کسی بھی لاش سےاٹھا رہ سالہ عاصمہ مجید کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا۔

عاصمہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے کی جانے والی تشہیر کے نتیجے میں عاصمہ کا تو پتا نہیںچل سکا،مگرکئی دیگرگُم شدہ لڑکیوں کے بارے میں معلومات مل رہی ہے۔سہیل خان کا کہنا تھا کہ پنجاب سے ملنے والی تمام لاشوں کا ڈی این اے کررہے ہیں ، دیگر صوبوں میں فورینزک لیباریٹریز نہ ہونےکی وجہ سے وہاں سے ملنے والی لاشوں کا ڈی این اے نہیں ہوسکتا ۔ایسی واحد لیب پنجاب میں ہے۔ صوبوں میں کوئی فورینزک لیب ہے اورنہ وفاق میں۔

اس سے قبل 27 اپریل 2017کوکراچی میں سند ھ ہائی کورٹ میں لاپتا افراد کےکیس کی سماعت کے دو ر ا ن پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھاکہ ایدھی ٹرسٹ کے تحت مواچھ گوٹھ میں قائم قبرستان میںچوراسی ہزار غیر شناخت شدہ لاشیں دفن ہیں۔یہ رپورٹ پیش ہونے کے بعدفاضل عدالت نے لاوارث لاشوں کی شناخت کرنے اوران کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے لیے طریقہ کار وضح کرنے کا حکم دیاتھا۔ 

پولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیاتھا کہ ایدھی، چھیپا اوردیگرفلاحی اداروںکے پاس لاشوں کی شناخت کا موثرنظام نہیں ہے اور مختلف رفاہی اداروں سے ڈیٹا حاصل کیا جارہا ہے۔اس پرفاضل عدالت نے کہاتھا کہ انفرااسٹرکچر بنانا حکومت اور پولیس کا کام ہے، رفاہی اداروں کا نہیں۔لاوارث لاشوں کی شناخت کے لیے جامع نظام ہوناچاہیے۔عدالت نے حکومتِ سندھ کو جامع طریقہ کاروضح کرکے دو ہفتے میں تفصیلی رپورٹ دینے کی ہدایت کی تھی۔

اس کیس کی گزشتہ سماعت کے موقعے پرفاضل عد ا لت نے کیس میں تفتیشی افسران کی کارکردگی غیر تسلی بخش قرار دی تھی۔ عدالت کا کہنا تھا کہ جسے چاہتے ہیں ا سے پا نچ منٹ میں ڈھونڈ لیتے ہیں اور کئی افراد پانچ پانچ برس سے لاپتا ہیں،ٹاسک فورس اور جے آئی ٹی بننے کے باوجود لوگوں کو تلاش نہیں کیا جاسکاہے۔بینچ نے ریمارکس میں کہا تھا کہ تفتیشی افسران کسی کام کے نہیں۔ کیا انہیں نا اہل قرار دے دیں؟ جے آئی ٹی میں شریک افسران بھی نا اہل اور کام کے قابل نہیں، ان افسران کو عہدے پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔

خیال رہے کہ کچھ عرصہ قبل یہ انکشاف ہوا تھا کہ کر ا چی کے اسپتالوں میں 750 سے زاید لاوارث لا شیں موجود ہیں۔کراچی پولیس کے ڈی ایس پی اعجاز احمد نے بتایا تھا کہ لاوارث لاشوں کے ورثاء کی تلاش جاری ہے اور اس حوالے سے ویب سائٹ کے قیام کا عمل بھی جاری ہے۔

یہ کیسی ستم ظریقی ہے

یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ انسانیت کے سودا گر ا نسانی لاشوں کی حرمت کا بھی خیال نہیں کرتے۔ اکثر بے گھری کی حالت میں دنیا سے چلے جانے والے لاوارث افراد کی لاشیں ان بیوپاریوں کے ہاتھ لگ جانا عام بات بن گئی ہے۔ اس کے تدارک کے لیے سپریم کورٹ کا ایک کیس کی سماعت کے دوران غیر شناخت شدہ،لاوارث لا شوں کے لیے ڈیٹا بیس سینٹر قائم کرنے کا حکم دینا بہ جا طور پر مستحسن اقدام ہے۔ ہنگامی صورت حال میں یا آفات و حادثات کے دوران ہلاک ہو جانے والے،گُم شدہ یا ذ ہنی طور پر معذور افراد جو بے گھر ہو جاتے ہیں،یاایسے افرادجن کی موت کی صورت میں ان کی لاشیں شناخت نہیں ہو سکتی ہوں، انسانی ہم دردی کے ادارے انہیں امانتاً دفنا دیتے ہیں۔ 

لیکن لواحقین کا ان کے ریکارڈ تک نہ پہنچ سکنا المیہ ہے۔ اسی طرح بہت سی لاشیں اسپتالوں کےمُردہ خانوں میں پڑی رہتی ہیں۔اس صورت حال سے بچنے کے لیے سپریم کورٹ میں ڈیرہ غازی خان سے گُم ہوجانے والی لڑکی،عاصمہ مجید سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران فاضل جج جناب جسٹس اعجاز افضل خان کا کہنا تھا کہ لاش کی شناخت نہ ہونے کی صورت میں جرم پر پردہ پڑ جاتا ہے، لاشوں کا ڈیٹا بیس قائم ہونے سے تمام صوبوں کو ایسے کیسز کی تحقیقات میں مدد ملے گی۔

ایسے معاملات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہ رپورٹ کافی ہے کہ صوبہ پنجاب کی پولیس کو دو برسوں میں 1299لاوارث لاشیں ملیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے اکثریت کا تعلق غریب خاندانوں سے تھا۔ایسے خاندانوں کے پاس اتنے وسا ئل نہیں ہوتے کہ وہ اپنے لاپتا ہوجانے والے پیاروں کو تلاش کر سکیں۔ اب جب سپریم کورٹ کے حکم پر لاوارث لاشوں کی شنا خت کے لیے ڈیٹا بیس سینٹر قائم ہو جائے گا تو ضروری ہے کہ اس کا نظام اس قدر سادہ ہو کہ لواحقین کو مشکلات اورپے چیدگیوں کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

میڈیکل کالج میں لاشیں بیچنے اورجلانے کاگھناؤناعمل

اس ملک میں بہت سی لاشوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے اس بارے میں کبھی کبھار ذرایع ابلاغ کے ذریعے کچھ سچ عوام تک پہنچ جاتا ہے۔اس سچ کو جاننے والے اچھی طر ح یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جب شناخت شدہ اور ورثا والی لاشوں کے ساتھ یہ کچھ ہوتا ہے تو غیر شناخت شدہ اور لا و ارث لاشوں کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوتا ہوگا۔ اس ضمن میںمُشتِ از خُروارے چندکے مصداق محض اس خبر کا حو ا لہ کافی ہوگا۔ 

فیصل آباد،پنجاب سے گزشتہ برس دسمبر کے مہینے میںیہ دل دہلادینے والی خبر آئی تھی کہ وہاں ایک میڈ یکل کالج میں لاوارث لاشوں کو بیچنے اور جلانے کا گھناونا عمل جاری ہے۔اس کالج کی چہار دیواری میں جلی ہوئی لاشوں کی باقیات ملی تھیں۔خبر میں سرکاری حکام کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ سال بھرمیں پندرہ سے اٹھارہ لاوارث لا شیں آتی ہیں جنہیں قانونی کارروائی کے بعد سپرد خاک کردیا جاتا ہے یا میڈیکل کالجز کو فروخت کردیا جاتا ہے ۔

خبر میں بتایا گیا تھا کہ پنجاب میڈیکل کالج میں ایک لاش پانچ سے سات ہزار روپے میں فروخت کی جاتی ہے اور یہی نہیں بلکہ بوسیدہ اور خراب لاشوں کو جلا بھی دیا جاتا ہے۔مذکورہ کالج کے ہیڈ آف اناٹومی ڈپارٹمنٹ ڈاکٹر انوار حسین کے حوالے سے کہا گیا تھاکہ وہ وائس چانسلر کے کہنے پر لاشیں بیچتے ہیں۔ان کے پاس پورے سال میں پندرہ لاشیں آتی ہیں۔ ایک لاش کو محفوظ کرنےپر سات ہزارروپےخرچ ہوتےہیں ۔ ڈاکٹر انوار نےخستہ حال لاشیں دفنا نے کا ابھی انکشاف کیاتھا اورباقی لاشیں کہاں جاتی ہیں،اس بارے میں انہوں نے کچھ نہیں بتایا تھا۔

یہاں لاشیں بے شناخت اور پڑوس میں جانور بھی شناخت والے

ہمارے ہاں ہزاروں ،لاکھوں انسانوں کی لاشیں بے نام دفنائی جاچکی ہیں اور ہمارے پڑوس میں جا نو ر و ں کو بھی شناخت دینے کا عمل شروع کردیا گیا ہے ۔ رو ا ں برس مارچ کے مہینے میںبھارت کی ریاست مدھیہ پردیش سے یہ خبر آئی تھی کہ وہاں دودھ دینے والے ڈھائی لاکھ جانوروں کوشناختی نمبر دیا جاچکاہےاور ان کی آن لائن کُنڈلی بنائی جارہی ہے(یعنی آن لائن ڈیٹا بیس بن رہا ہے )مویشیوں کے کان میں ٹیگ لگاکر 12 اعدادپر مشتمل شناختی نمبر فراہم کیا گیا ہے۔خبر میں ایک متعلقہ افسرکے حوالے سے بتایا گیاتھا کہ اس عمل سے مویشیوں کی غیر قانونی خرید و فروخت اور اسمگلنگ روکنے کے سا تھ انہیں لاوارث چھوڑنے کی عادت کو لگام دینے میں سرکار اور سسٹم کو مدد ملے‌گی۔

فیچر: ہم، کہ مرکز بھی بے نام رہے

خبر میں بتایا گیا تھاکہ اب مدھیہ پردیش کی تقریباً 90 لاکھ گایوں اوربھینسوں میںسے 2.5 لاکھ مویشیوں کے پاس اپنی خاص شناخت ہے۔اس عمل سے مو یشیو ں کی صحت اور نسل میں بہتری پیدا کرکے دودھ کی پیداوار بھی بڑھائی جا سکے‌گی۔واضح رہے کہ مویشیوں کے کان میں ٹیگ لگا نے کی مہم وہاں نیشنل ڈیری ڈیولپمنٹ بورڈ کی اسکیم کے تحت شر و ع کی گئی ہے۔ اس اسکیم کے ذریعے پورے بھارت میں مصنوعات اور مویشی کی صحت کے لیے اطلاعاتی نیٹ ورک (ایناف) تیار کیا جا رہا ہے۔ 

مدھیہ پردیش کے محکمہ مویشی پروری کے جوائنٹ سیکریٹری اور ایناف کے افسر، گلاب سنگھ ڈاور کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ ریاست میں دودھ دینے والے مویشیوں کو منفرد شنا ختی نمبر دینے کا کام بڑے پیمانے پر اسی ماہ سے شروع کیا گیاہے۔ 

پہلے مرحلے میں 40 لاکھ ٹیگ تقسیم کیے گئے ہیں اوردرجِ بالا تاریخ تک 2.5 لاکھ مویشیوں کے کان میں یہ ٹیگ لگائے جا چکے تھے۔ ریاست کے تقریبا 90 لاکھ دودھ دینے والے مویشیوں کومنفرد شناختی نمبر کے ٹیگ ترتیب وار طریقے سے لگانے کا ہدف طے کیا گیا ہے ۔ گلاب سنگھ کا کہنا تھا کہ ہم مویشیوں کی نسل، عمر، صحت کی حا لت،مصنوعی طریقے سے حمل ٹھہرانے، دودھ دینے کی صلا حیت اور دیگر تفصیلات کے ساتھ ان کا شجرہ بھی تیار کر رہے ہیں۔ 

ایناف کی اطلاعاتی ٹیکنالوجی ایپلی کیشن میں کسی مویشی کا منفرد شناختی نمبر ڈالتے ہی اس سے متعلق سا ری معلومات کمپیوٹر یا موبائل کی اسکرین پر چند لمحوں میں آ جائیں‌گی۔ ایناف میں مویشی کے ساتھ اس کے مالک کی بھی معلومات ہوںگی۔ مویشی کے منفرد شناختی نمبر کو اس کے مالک کے آدھار(شناختی) نمبر سے جوڑا جا رہا ہے۔ 

مویشیوں کو منفرد شناختی نمبر دیے جانے کے بعد ان کی صحت اور دودھ دینے کی صلاحیت پر بہتر طریقے سے نظر رکھی جا سکے‌گی۔اس سے اصلاحِ نسل پروگرام کو آگے بڑھاکر دودھ کی پیداوارمیںاضافہ کرنےمیں بھی خاصی مدد ملے‌گی۔ نتیجتاً مویشیوں کے مالکان کی آمدن میں بھی ا ضافہ ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت میںسب سے زیادہ دودھ پیدا کر نے والے صوبوں کی فہرست میں مدھیہ پردیش فی الحال تیسرے نمبر پر ہے۔

ہم کیا کررہے ہیں

رواں ماہ ہی کی بات ہے۔صوبہ سندھ کے علاقے خیرپورسے یہ خبر آئی تھی کہ وہاں پولیس نے لاوارث لاش بغیرکفن اور غسل کے دفن کردی تھی۔اطلاعات کے مطابق چونڈکو کے قریب کھنواری تھانے کی حدود ،ریگستانی علا قے میں چرواہوں نے لاوارث حالت میں پڑی لاش دیکھ کر کھنواری پولیس کو اطلاع دی تھی جس کے بعد کھنواری تھانے کے ایس ایچ او نے اڈوئی پولیس پکٹ کے ا نچا ر ج کو لاش اپنی تحویل میں لے کر تھانے لانے کا حکم دیاتھا ۔تاہم پولیس نے دیہاتیوں اور چرواہوں سے قبر کھدواکر اس لاش کو بغیر غسل اور کفن دیے اسی مقام پر دفن کردیاتھا ۔خبر میں دیہاتیوں کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ کھنو ا ر ی پولیس نے انسانیت کی تذلیل کی ہے۔ 

30سے 35سالہ نوجوان کی لاش کو بغیر کفن اور غسل دیے قبر کھد و ا کر اسی مقام پر دفن کردیاگیا۔ پولیس کے اہل کار مقتول کی تلاشی کے دوران ملنے والے 120روپے اور موٹر سائیکل کی چا بی اپنے ساتھ لے گئے۔دیہاتیوں کے مطابق لاش چند روز پرانی لگ رہی تھی۔دوسری جانب ایس ایچ او کھنواری کا کہنا تھا کہانہیں کوئی لاوارث لاش نہیں ملی۔جہاں سے لا ش برآمد ہوئی وہ ان کے تھانے کی حدود نہیں بلکہ نواب شاہ کی حدود ہے۔ دیہاتیوں نے آئی جی سندھ اور ایس ایس پی خیرپور سے اپیل کی تھی کہ انسانیت کی تذلیل کر نے والے تھانہ کھنواری کے اہل کاروںکے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے ۔

لاہور میں لاوارث لاش کی تدفین کے لیے بیس ہزار روپے فیس

اب اس ملک میں یہ وقت آچکا ہے کہ جس لاش کا کوئی وارث نہ ہو اور کوئی اسے انسانی ہم دردی کی بنیاد پر انسانی وقار کے ساتھ دفنانے کا بیڑااٹھالے تو اسے کفن اور غسل کے اخراجات فی سبیل اللہ برداشت کرنے کے سا تھ قبر کے لیے بیس ہزار روپے بھی اپنی جیب سےادا کر نے پڑیں گے۔یہ کوئی سنی سنائی بات نہیں بلکہ رواں برس جنوری کے مہینے میں ذرایع ابلاغ میں آنے والی سچّی خبر ہے۔خبر کے مطابق تیس جنوری کو عبدالستار ایدھی فا ئو نڈ یشن کو لاہور کے قبرستان میانی صاحب میں لاوارث لا شیں دفن کرنے سے روک دیا گیاتھا اورقبرستان کی انتظا میہ نے لاوارث لاشیں آئندہ شہر خموشاں قبرستان، کاہنہ کاچھہ میں دفن کرنے کا حکم دیاتھا۔

دوسری جانب شہر خموشاں قبرستان کی انتظامیہ نے لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے 20ہزار روپے فیس کی ادائیگی کے بغیر قبرکے لیے جگہ دینے سے انکار کر دیاتھا۔ قبرستان میانی صاحب اور شہر خموشاں اتھارٹی کی کش مکش کی وجہ سےتیس جنوری کو دولاوارث لاشیں دن بھر قبرستان میانی صاحب میں کھلےآسمان تلے پڑی رہی تھیں۔تاہم ذرایع ابلاغ کی مد ا خلت کے بعدرا ت کوان کی تدفین کی اجازت مل گئی تھی ۔

تفصیلات کے مطابق ا یدھی فائونڈیشن کاعملہ لاشوں کولے کر قبرستانِ لاوارثاں، میانی صاحب میں تدفین کے لیے پہنچا تو وہاں موجود عملے کی جانب سے لاشوں کو د فن کر نے سے روک دیا گیاتھاجس پر ایدھی فائونڈیشن کے عملے نے شہر خموشاں کی انتظامیہ سے رابطہ کیا تو اس نے جواب دیا کہ اس قبرستان میں تدفین کے لیے فیس 20ہزار روپےمقررہے جسے ادا کیے بغیر جگہ الاٹ نہیں ہو گی۔خبر میں قبرستان میانی صاحب کے سیکریٹری افضال ر یحان کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ قبرستان میں جگہ ختم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے اب صرف وہ لاشیں قبول کی جائیں گی جن کے لواحقین ہوں گے ،لاوارث لاشوں کو قبر ستان، شہر خموشاں میں دفن کیا جائے،یہ فیصلہ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت پر کیا گیا ہے ۔

تازہ ترین