• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زراعت پر توجہ ضروری ہے، ورنہ… فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا

زراعت پر توجہ ضروری ہے، ورنہ… فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ پیدا ہو جائے گا

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہم جو خوراک کھاتے ہیں، جوملبوسات اورجوتے پہنتے ہیں، یہ سب کچھ پاکستان کی زراعت کے مرہونِ منت ہیں ۔ ہم زراعت کے شعبے کو گزشتہ کچھ عرصے تک ای کامرس میں گم کرچکے تھے، اس لیے زراعت کی شرح نمو ایک فیصد سے کم ہو گئی تھی، تاہم تاخیر سے اس طرف توجہ دی گئی، جس سے خاص طور پر چھوٹے کاشتکاروں اور گنے اگانے والوں کو بھاری نقصان ہوا۔ بہت کم لوگ اس بات کی فہم و ادراک رکھتے ہیں کہ زرعی ترقی کسی ملک کے لئے اوزاروں کی دنیا کی ترقی سے زیادہ ضروری ہے۔ 

3D ضروری ہے، لیکن یہ دودھ نہیں د ے سکتی،نہ گندم پیدا کرسکتی ہے۔ گزشتہ چند عشروں میں جی ڈی پی میں زراعت کی شرح نمو اور جی ڈی پی میں اس کا حصہ کم رہا ہے۔ 2018ءامید افزا سال ہے کہ اس بار حکمرانوں نے زراعت کی جانب توجہ دی، لیکن پانی اور مختلف ڈیمز نہ جانے کب سے اپنے مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ،اس لئے یہ نہیں کہاجا سکتا کہ زراعت کے ساتھ 2019میں کیا ہو گا؟ سرکار نے یقین دلایا ہے کہ 2018میں زراعت کی شرح نمو 3.81فیصد ہو گی، جو دو سال پہلے 0.15 فیصد تھی، لیکن پانی کی کمی کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں کمی ہوسکتی ہے۔ کاٹن کی پیداوار کا تخمینہ ہے کہ 11.8فیصد اضافہ ہو گا، لیکن اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا تخمینہ 18فیصد تھا۔ 

لائیو اسٹاک جو پاکستان کی زراعت کا مرکزی خیال ہونا چاہتے تھا، اس کے لئے پنجاب نے اپنے بجٹ میں( جو ختم ہونے والا ہے )9؍ ارب روپے رکھے جب کہ سڑکوں کی تعمیر کےلئے 152ارب روپے اور اورنج ٹرین، جو چین کے قرضے62؍ ارب روپے سےتعمیر ہو کر، 26کلومیٹر تک چلے گی، البتہ لوگوں کو نظر آئےگی۔ 

دکھاوے کی ترقی اسےکہتے ہیں ۔ جس کا ٹکٹ 175روپے ہونا چاہیے ،تاکہ سود اور قرضوں کی قسطیں واپس ہو ں، لیکن 20روپے رکھا گیا ہے اور باقی زر تلافی سے ہر سال 14؍ ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا، اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ قرضوں پر فنانشل مینجمنٹ سے ایسا نقصان ہو گا، جسے کوئی پنجاب کی حکومت پورا نہیں کر پائے گی ۔ 

پنجاب زراعت کی بہت بڑی منڈی ہے، جس کا میک اپ کر کے دبئی بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لائیو اسٹاک 59فیصد زرعی پیداوار میں حصہ ڈالتا ہے۔ دودھ، مکھن، پنیر وغیرہ اسی کی دی ہوئی قدرتی نعمتیں ہیں، لیکن ہم کھلونے بنا رہے ہیں اور لوگ سیلولر فونز خرید کر مست ہیں۔ پاکستان کے تمام صوبوں میں مویشوں کی مینجمنٹ اور ان کے جنیٹک سے حکمران نابلد ہیں تو پھر سوچا جاسکتا ہے، پانی کی قلت میں فوڈ سیکیورٹی مسئلہ کتنا سنگین ہو سکتا ہے۔ پانی کی استعمال کا طریقہ کار ابھی بوسیدہ ہے فی ہیکڑ پیداوار ہندوستان سے نصف ہے۔ 

زمین سیم اور تھور کا شکار ہو رہی ہے، لیکن کسی حکمران کا اس طرف دھیان نہیں ہے۔ درخت لگانے کے بجائے کاٹے جا رہےہیں ۔ چین نے کوئلے کے 103منصوبے اپنے ملک میں مکمل طور پر بند کر دیئے ہیں اور پاکستان میں لگا رہا ہے۔ کاربن بڑھے گا، آکسیجن کم ہو گی، درخت نہ ہوں تو پھر انسانی صحت کی بربادی ہو گی۔ بیجوں کا غیر معیاری ہونا، کرم کش ادویات کا چھڑکائو غیر سائنسی طریقے سے ہونا، فنڈز کی کمی، انشورنس بھی نہ ہو۔ غریب کاشت کار (93 فیصد) تو ٹرانسپورٹ اور گوداموں کے لئے ترستے ہیں، پھرتو فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ پیدا ہو گا۔ 

کسی سیاست دان نے ایسے ایشوز پر بات نہیں کی۔ پاکستان میں جہالت اور کرپشن، پیداواری معیشت کو چبا رہی ہے۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ نیشنل ایگری کلچر اینڈ فوڈ سیکورٹی پالیسی کا ڈرافٹ اسلام آباد 2014 میں بنایا گیا تھا، لیکن ابھی تک اس کی منظوری نہیں ہوئی۔ 

ڈاکٹر وقار احمد کی تازہ کتاب میں 18ویں ترمیم کے باوجود اس بات پر زور دیا کہ کھاد، بیج اور کرم کش ادویات کا چھڑکائو، وفاقی حکومت کے پاس ہونا چاہیے، لیکن کام کرنے کی دانش اور کمٹمنٹ نہ ہو تو سب بے کار ہے۔ 

کس قدر وسائل سے مالا مال ملک میں لیڈر شپ کا فقدان ہے، جو کاغذ پر لکھی تحریر بھی نہیں پڑھ سکتے، وہ معاشی نوشتہ دیوار کیسے پڑھیں گے؟ 2014ہی میں IFPRI دستاویز کے مشاہدے میں ایک بڑے ابہام کا ذکر کیا گیا ہے کہ صوبوں او روفاق میں بیجوں سے متعلق بائیو سیفٹی قوانین پر تضادات پائے جاتے ہیں، کیونکہ 18 ویں ترمیم کے اطلاق نے تربیت اور تیاری کا موقع ہی صوبوں کو نہیں دیا، چنانچہ ریگولیٹری انتظام ابھی تک گومگو کا شکار ہے۔ 

ہر صوبے میں مختلف زرعی طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے، جس سے مختلف معیار کی فصلیں پیدا ہو رہی ہیں۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا کا کہنا ہے پاکستان کی 60فیصد صداقت زرعی بنیادوں پر استوار ہے اور 40فیصد ٹرانسپورٹ اور تجارت کاتعلق زرعی اشیاء سے ہے۔ کاٹن، چاول اور چمڑے سے سب سے زیادہ زرمبادلہ کمایا جاتا ہے، جیسا کہ سب کو علم ہے کہ پاکستان زراعت کے سہارے ہی چل سکتاہے۔ 

دیکھئےکہ قابل کاشت رقبہ 79.61 ملین ہیکڑ ہے اور فصلوں کی بوائی صرف 22ملین ہیکڑ پر ہوتی ہے، جی ڈی پی کا 24 فیصد زرعی شعبے کا حصہ ہے۔ 48 فیصد لیبر فورس اس سے منسلک ہے اور 60فیصد ایکسپورٹ اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ 

کل فوڈ کی پیداوار 32ملین ٹن ہے، جو 1970 میں 10 ملین ٹن تھی، لیکن یہاں کھادوں کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ کھاد فی ہیکڑ 133کے جی ہے اور عالمی اوسط 94.1 کے جی فی ہیکڑ ہے زیادہ ہونے کے باوجود پاکستان کی فی ہیکڑ پیداوار بہت کم ہے، اس کا دارو مدار اراضی اور انسانوں کی صحت پر ہے۔ پاکستان میں ہر قسم کی آلودگی اپنی انتہائی سطح پر ہے۔ زمینی آلودگی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔ 

یہ انسانی ایسی سرگرمیاں ہیں، جو زمین کی سطح اور مٹی کو تباہ برباد کر رہی ہیں۔ سیم اور تھور اور درختوںکو کاٹنا یا مزید درخت نہ اگانا اور پھر اینتھرو پوجینک (Anthro Pogenic) منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ کھادوں کے استعمال کا طریقہ کار بہت بوسیدہ ہے، تحقیق کسانوں سے دور ہے، قرضوں کی تقسیم غیر منصفانہ اور بہت کم ہے۔ زرخیزی کی سطح بہتر ہونے کے بجائے کم ہو رہی ہے، اسی وجہ سے فی ہیکڑ پیداوار بھی کم ہو رہی ہے۔ 

فصلوں کی پیداوار فی ہیکڑ دنیا میں سب سے کم ہے۔ صرف کھاد ہی کے ذریعے آج کل پیدوار بڑھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور پاکستان کی آبادی میں گزشتہ دو عشروں میں آبادی کی رفتار ضرورت سے زیادہ تیز رہی ہے، جو فوڈ سیکورٹی کا مسئلہ پیدا کر سکتی ہے۔ 

ہماری اراضی میں نائٹروجن 100 فی صدکم ہے، اس کے علاوہ فاسفیٹ زنک اور سلفر کی بھی کمی ہے، جو درآمدی کھادوں سے پوری کی جاتی ہے، کیونکہ فاس فورس کی کمی 90فیصد زنک 70فیصدکم ہے، اس کے علاوہ پوٹاشیم کی کمی بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔ فولاد اور میگنیشیم بھی کم ہو تو پھر بیرونی کھادوں کی ضرورت پڑتی ہے، اسی لئے کوریا، جاپان ، چین اور مصر کی پیداواری صلاحیت پاکستان سے تین گنا زیادہ ہے۔ 

پاکستان کے تناظر میں کسانوں اور غریب کاشت کاروں کو یہ پتا بھی نہیں ہےکہ فصلوں میں کھادوں کا استعمال کتنا فیصد کرنا چاہئے۔ درست وقت اور درست ’’ڈوز‘‘ کے متعلق بھی کاشت کاروں کو علم نہیں ہوتا۔ مقامی کھادوں کے حوالے سے یہ شکایت عام ہے کہ کھاد ملاوٹ شدہ ہوتی ہے، جس سے فصلوں کو بہت نقصان ہوتا ہے۔ 

یہ بھی دیکھنا ہے کہ کھاد کی اقتصادیات کا تعلق منافع سے کیا بنتا ہے خودروجھاڑ پھوس اور خس و خاشاک سے پاک کرنا بھی کسانوں کا کام ہے۔ پلانٹ پروٹیکشن کے ماہرین کی ضرورت پڑتی ہے، جو بہت کم ہیں۔ بوائی کا وقت، مناسب پانی اور دھوپ کا وقت سیم اور تھور اورمائیکرو بائیولوجیکل حالات سب کا جائزہ لینا پڑتا ہے، تب جا کر فصلیں بہتر پیداوار دیتی ہیں۔ 

بیلنس فرٹیلائزیشن کی تربیت بہت ضروری ہے، جس سے فی ہیکڑ پیداوار بڑھتی ہے، فارم کی آمدنی اور معیار بڑھتا ہے۔ عالمی سطح پر تخمینہ کاری کی گئی ہے کہ اگر بیلنس فرٹیلائزیشن کی جائے تو 50 اور 100فیصد تک پیداوار بڑھ سکتی ہے اور کاٹن 400 فیصد بڑھ سکتی ہے، چنانچہ اس کے لئے وقت، ٹیکنالوجی اور کھادوں کے اطلاق کے بارے میں علم دینا ضروری ہے، لیکن اس قسم کے پروگراموں پر حکام کی توجہ نہیں، اس لئے اب ضروری ہے کہ ٹریڈنگ کمپنیاں زرعی تعلیمی اداروں کے ماہرین کا براہ راست کسانوں سے رابطہ ہونا چاہیے، تاکہ یہ علم ہو سکے کہ قلیل مدت میں پلانٹس اور مڈیم مدت کے پلانٹس کس قسم کی کھاد اور کس مقدار سے استعمال کریں۔ 

موسم اور آب ہوا کے بارے میں مکمل علم کی ضرورت ہے۔ اب ڈیٹ نالج کے لئے کسانوں کے لئے تربیت کی درس گاہوں کا انتظام ہونا چاہیے۔ لائیو اسٹاک اور دیری فارمنگ سب سائنس ہے۔ علم کے بغیر جہالت ہمیں لے ڈوبے گی۔   

تازہ ترین