• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خبر ہے کہ پی آئی اے سمیت سرکاری سرپرستی میں چلنے والے لگ بھگ دو سو ادارے مکمل طور پر خسارے میں چلے گئے ہیں، وطن عزیزکی تاریخ میں ایساپہلی مرتبہ ہواہے۔ جس سے لامحالہ آنے والے وقت میں قومی خزانے پربوجھ پڑنےکا قوی اندیشہ ہے۔ اداروں کی تباہی کی وجہ پاور سیکٹر کو ٹیرف بڑھانے کی اجازت نہ دینا بتائی گئی ہے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ فکر کی ضرورت نہیں قومی اداروں کی بہتری کے لئے اکنامک ریفارم یونٹ تشکیل دے دیا ہے۔ یہ صورتحال بلاشبہ تشویشناک ہے کہ دو چار نہیں، لگ بھگ دو سو قومی ادارے خسارے میں چلے گئے۔ ہماری معیشت توپہلے ہی ناتوانی کا شکارہے اس پر اگرایسی افتاد پڑتی ہے تو اندیشہ ہےکہ اس کی نبضیں ڈوبتی ہی چلی جائیں گی۔ وہ ادارے جو حکومت عوامی خدمات کے لئے بناتی ہے مثلاً اسپتال، درسگاہیں اور اسی نوع کے دیگر ادارے، ہمیشہ گھاٹے میں رہتے ہیں لیکن عامتہ الناس کی بہبود کے مصارف خسارے میں شمار ہی نہیں کئے جاتے۔ قومی اداروں کی یہ صورتحال ہماری کوتاہی، غفلت اور بے جا سیاسی مداخلت کا شاخسانہ ہی قرار دیا جاتا ہے۔ مثال اسٹیل مل، پی آئی اے اور ریلوے ہیں۔ ایسے ہی حالات میں 80کی دہائی میں برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر نے معیشت میں ریاست کے کردار کو ختم کرنے یعنی نجکاری کا سلسلہ شروع کیا اور معاملات کو سنبھال لیا۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ اداروں کی نجکاری سے معاشی بدحالی اور انتشار کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں لیکن اگر اس راہ پر نہ چلیں تو خسارہ قوم پر بوجھ بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں آئندہ حکومت کو ایک جامع حکمت عملی کےتحت ایسے ادارے جو مسلسل خسارے میں جارہے ہیں ایک شفاف عمل کے ذریعے ایسے لوگوں کے حوالے کرنا ہوں گے جو انہیں بطریق احسن چلانے اور منافع میں لانے کی اہلیت رکھتے ہوں، بصورت دیگر خزانے پر پڑنے والا بوجھ ہمیں قرضوں کی دلدل میں مزید دھنسا دے گا۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین